Inquilab Logo

امریکہ سے تجارتی فائدہ ملے گا نہیں، لینا ہوگا

Updated: February 24, 2020, 4:18 PM IST | Bharat Jhunjhunwala

امریکی صدر ٹرمپ کے دورۂ ہند کا مقصد اپنے ملک کے رائے دہندگان کو یہ تاثر دینا ہے کہ وہ ہندوستان اور چین سے تجارتی فوائد حاصل کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ ایسے میں ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کیا کریں۔

ٹرمپ اور مودی ۔ تصویر : پی ٹی آئی
ٹرمپ اور مودی ۔ تصویر : پی ٹی آئی

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ چاہتے تھے کہ ہندوستان چکن، چیز اور دیگر مصنوعات کی درآمد کیلئے اپنا مارکیٹ کھولے۔ فی الحال امریکہ کو  جو اچھی خاصی آمدنی حاصل ہورہی ہے وہ اُن تکنیکی پیش رفتوں اور ترقیات کے سبب ہے جو اُن کے ملک نے ماضی میں کی تھیں۔ گزشتہ دو دہائی میں، اس محاذ پر کچھ نہیں ہوا۔ کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی معیشت بھی دباؤ میں ہے۔ امریکی حکومت اپنے مالی خسارہ سے نمٹنے کیلئے مارکیٹ سے قرض لے رہی ہے جو دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔ امریکی حکومت ٹریزری بل نامی بونڈ جاری کررہی ہے جسے ٹی بل کہا جاتا ہے۔ ان بانڈز کو چینی اور جاپانی حکومتیں بڑی تعداد میں خرید رہی ہیں۔ اس کی وجہ سے عالمی بازار میں امریکی ڈالر کی مانگ بڑھ رہی ہے کیونکہ چینیوں کو ٹی بانڈ خریدنے کیلئے ڈالر خریدنا پڑتا ہے۔ اس طرح، مانگ بڑھنے کی وجہ سے ڈالر کی قیمت بھی بڑھ رہی ہے۔ یہ عمل ایسا ہے جیسے آپ قرض لے کر کوئی مہنگی اور قیمتی کار خریدیں مگر آپ کو وہ آمدنی نہ مل رہی ہو جس کے ذریعہ قرض ادا کیا جاسکے۔ 
 ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو امریکہ کی درآمدات بڑھ جاتی ہیں جبکہ برآمدات کم ہوجاتی ہیں۔ اس کی مثال کو اس طرح سمجھئے۔ پھول پتیوں کی وہ چھڑ جسے نیمچہ کہتے ہیں،ہندوستان میں ۱۵؍ روپے میں دستیاب ہے۔ امریکہ کا صارف ایسی ۵؍ چھڑیں خریدنا چاہے تو ایک ڈالر میں خریدے گا جبکہ ڈالر کی ہندوستانی قدر ۷۵؍ روپے ہے۔ اگر امریکی ڈالر کی قیمت ہمارے ۱۵؍ روپے کے برابر ہوتی تو یہی امریکی صارف ایک ڈالر میں صرف ایک چھڑ خرید پاتا۔ معلوم ہوا کہ ڈالر کی مہنگائی سے امریکہ کی درآمدات کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے اور امریکہ سے جو اشیاء برآمد کی جاتی ہیں اُن کی قدر کم ہوتی ہے۔ اس سے امریکہ کا مالیاتی خسارہ بڑھتا ہے جو کہ فطری ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ٹرمپ نے ہندوستان پر بھی درآمداتی ٹیکس عائد کردیا۔ مقصد مالیاتی خسارہ ہی کو کم کرنا تھا۔
 مگر، شاید اس بات کو سمجھا نہیں جارہا ہے کہ امریکی مالیاتی خسارہ مخصوص ملکوں سے مخصوص اشیاء کی درآمد پر ٹیکس لگا کر کم نہیں کیا جاسکتا۔ اسے ایک مثال کے ذریعہ اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے۔  ایک خاندان کی آمدنی کم ہے۔ اس کا سربراہ ضروری اخراجات کیلئے قرض لیتا ہے۔ خاتون خانہ کو شکایت ہے کہ اُسے جو کپڑا خریدنا ہے  وہ دکاندار مبالغہ آمیز قیمت پر دے رہا ہے۔ بالفرض دکاندار کپڑے کی مبالغہ آمیز قیمت وصول نہ کرے بلکہ اس میں کچھ تخفیف کردے تب بھی سربراہِ خاندان نے جو قرض باہر سے لیا ہے وہ کم نہیں ہوگا، جوں کا توں رہے گا۔ ا س لئے قرض کی رقم سے یوں سمجھ لیجئے کہ کپڑے کے بجائے چاکلیٹ خریدے گئےاس کے باوجود اس گھر یا خاندان کا مالیاتی خسارہ کم نہیں ہوگا کیونکہ قرض تو بہرحال قرض ہے جو واجب الادا ہے۔ امریکی تجارتی خسارہ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ یہ جاری رہے گا چاہے ہندوستان سے درآمد کیاجانے والا اسٹیل کم مقدار میں درآمد کیا جائے کیونکہ امریکہ کا مارکیٹ سے قرض اُٹھانا جاری رہے گا اور جو رقم اس پر واجب الادا ہے وہ برقرار رہے گی۔ اب وہ قرض پر لی ہوئی رقم سے اسٹیل کے بجائے کارپیٹ خریدے گا۔
 امریکی صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ ہندوستان، امریکہ سے زیادہ سے زیادہ درآمد کرے۔ اگر ہندوستان ہامی بھر لے اور امریکہ سے چکن اور تیار شدہ چیز درآمد کرنا شروع کردے تب بھی امریکہ کا تجارتی خسارہ کم نہیں ہوگا ۔ ایسی صورت میں درآمدات کا رُخ کسی دوسرے ملک اور کسی دوسری مصنوع کی جانب منتقل ہوجائیگا مثلاً ویتنام سے کافی۔ اس سے معلوم ہوا کہ تجارتی خسارہ یا امریکیوں کی آمدنی کے اونچے معیار کا مسئلہ حل کرنا ٹرمپ کا ہدف نہیں ہے۔ اُن کا ایک ہی ہدف ہے ۔ امریکی رائے دہندگان کو یہ تاثر دے کر سیاسی فائدہ حاصل کرنا کہ وہ ہندوستان اور چین سے خاطرخواہ اور فائدہ مند تجارت کو فروغ دے رہے ہیں۔ 
 ایسی صورت میں ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارے لئے کیا مفید ہے اور ہماری پیش رفت کیا ہونی چاہئے۔ ٹرمپ یہ بھی چاہتے ہیں کہ امریکہ کی زرعی مصنوعات کیلئے ہندوستان کا مارکیٹ کھل جائے۔ اس کے عوض ہمیں امریکہ سے اپنے تجارتی مفاد کی ضمانت لینی ہوگی۔ ہمیں مطالبہ کرنا ہوگا کہ ہم جو اسٹیل ایکسپورٹ کریں اُس پر امریکہ امپورٹ ڈیوٹی کم کرے۔ ٹیکنالوجی کی منتقلی پر بھی نرم رویہ کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔ فلپ کارٹ اور ’’رو۔پے‘‘ جیسے اپنے ای پلیٹ فارمس کیلئے بھی امریکی مارکیٹ کھلوائی جاسکتی ہے۔ ہمیں طے کرنا ہوگا کہ کن میدانوں میں یعنی کن مصنوعات کیلئے ہم قربانی دینے کو تیار ہیں اور کن میدانوں یا مصنوعات کیلئے ہم چاہیں گے کہ امریکہ قربانی دے یعنی ہماری بات مان لے۔
 اگر ہم عالمی تجارتی و کاروباری رجحانات کو پیش نگاہ رکھیں تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں معیشت میں ہماری زرعی حصہ داری کم ہوگی اور خدمات کا شعبہ فروغ پائے گا۔ ایسی صورت میں بہتر اور دانشمندانہ جدوجہد یہ ہوگی کہ ہم زرعی شعبے کیلئے کوئی بات منوانے کے بجائے امریکہ کو خدمات کے شعبے کیلئے ہموار کریں تاکہ اس شعبے کیلئے امریکی مارکیٹ کھل جائے جس کا ہمیں یقینی فائدہ ہوسکتا ہے۔ ٹرمپ ایساکوئی سودا کرنے کو آمادہ ہوجائیں گے کیونکہ اُنہیں تو اپنے رائے دہندگان کو یہ بتانا  ہےکہ اُنہوں نے امریکہ کے حق میں سودمند شرطوں پر ہندوستان کو ہموار کرلیا ہے۔ اگر ہندوستان خدمات کے شعبے میں امریکہ سے خاطرخواہ تعاون پر زور دے تو اس سے امریکی رائے دہندگان ناراض نہیں ہوں گے کیونکہ خدمات ایسا پروڈکٹ ہے جو  بالواسطہ اور ڈھکا چھپا ہے۔ یہ دکھائی دینے والی مصنوع نہیں ہے۔ 
 ایسا کرتے وقت ہمیں یہ دھیان میں رکھنا ہوگا کہ اس کی ضرب ہمارے زرعی شعبے پر پڑے گی۔ ہمیں اس کی تلافی کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ یہ ایسی ضرب ہے جو ہر دو صورتوں میں لگنی ہے خواہ ہم اس شعبے کو سنبھالیں یا اس کی جانب سے غفلت ہی برتتے رہیں، چنانچہ  ہمارا ہدف یہ ہو کہ ہم سر وس سیکٹر کیلئے امریکہ سے مضبوط تعلق قائم کریں اور اس طرح امریکہ کو فتح کرلیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK