Inquilab Logo

اس عہد کے ادباء کے سامنے یہ عہد ہی سب سے بڑا ادبی مسئلہ ہے

Updated: September 20, 2020, 11:33 AM IST | Mujtaba Hussain

اس کے ہنگاموں میں خود کو ڈھونڈنا اور اپنی شخصیت کو مرتب کرنا بڑا کٹھن کام ہے۔ ہمارے ادیب ابھی اپنی آواز کو تلاش نہیں کرپائے ہیں

Book Stall
ادیب کی شخصیت وہ ہوتی ہے جسے ادب کی تخلیق، ادب کی گفتگو، ادب کی جستجو ہمہ وقت مصروف رکھتی، دیوانہ بنائے رہتی ہے

عہدِ حاضر میں ادیب اور ادب کے مسائل کو کئی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک تو ادیب کے اپنے مسائل، دوسرے ادیب کی تخلیقی صلاحیتوں اور ان کے ادبی اظہار کا  مسئلہ، تیسرے ادیب کی تخلیقات اور ان کا اپنے عہد سے تعلق رکھنے والے ادبی مسائل سے رابطہ کا معاملہ۔ ایسی صورت میں یہ بحث ادیب، ادب اور معاشرے کے باہمی روابط کی بحث میں بدل جاتی ہے۔
 جہاںتک عہدِ حاضر میں ادیب اور ادب کے مسائل کا تعلق ہے، غالباً اس کا مقصد ادیب کے نجی مسائل سے بحث کرنا نہیں ہے۔ حالانکہ یہ کچھ کم مسئلہ نہیں ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ اب ادیب کے نجی مسائل کی طرف بھی توجہ ہوتی جارہی ہےاور ہم اپنے ادیبوں کی معاشی بدحالی کو رومانی نقطۂ نظر سے کم دیکھتے ہیں اور اس کی جگہ حقیقت پسندی سے کام لینے کے قائل ہوتے جارہے ہیں  چنانچہ ادیبوں کی بہت سی مشکلات اور ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے رائٹرز گلڈ کا قیام کئی سال ہوئے عمل میں آچکا ہے۔ اس ادارے کو ایک طرح سے ادیبوں کی ٹریڈ یونین کہنا چاہئے جس کے پیش نظر اصولی طور پر ادیبوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کی ممکنہ امداد ہے۔ ادیبوں کی یہ خود آگاہی ان کے حق میں فال نیک ہے اور اب ان کو مرنے جینے دونوں صورتوں میں کچھ سہارے کی امید نظر آنے لگی ہے اور شاید یہ خیال بھی کم ستانے لگا ہے کہ ان کے بعد ان کے بال بچوں کا کیا ہوگا۔ اسی کے ساتھ  اس نہایت مفید ادارے کی بدولت ادیبوں کو سیر و سفر کے مواقع بھی ہاتھ آچلے ہیں اور ’’چشم تنگ، کثرت ِ نظارہ سے‘‘ کچھ کچھ ’’وا‘‘ ہوچلی ہے۔ ہمارے ادیبوں میں اس آمد و رفت کی وجہ سے ایک عالمگیر برادری کا احساس جاگ اٹھا ہے۔ ادب کے تجارتی پہلو کی طرف سے اب ہمارے ادیب نسبتاً مطمئن ہوتے جاتے ہیں۔ پہلے وہ یکسر ناشروں کے رحم و کرم پر تھے اب کاپی رائٹ کے قانون نے ان کو ناشروں کے استحصال سے بڑی حد تک محفوظ کردیا ہے۔ بعض حضرات اس ادارے کے قیام سے قبل ادب کو صرف تضیع اوقات سمجھتے تھے، ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو ملک کی تمام اخلاقی پستیوں کی ذمہ داری جدید افسانوں اور ناولوں کے سر ڈالنے پر مصر تھے۔ اب ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو بڑی سنجیدگی سے غور کررہے ہیں کہ کیوں نہ کوئی ضخیم ناول لکھ ڈالیں تاکہ اس کے رکن بن جائیں۔ اسی طرح اور بھی کئی ادارے ہیں جنہوں نے ادیبوں کے ذاتی مسائل کو سلجھانے میں بڑی مدد دی ہے اور ادب کی ترویج میں بڑا کام کررہے ہیں۔
 یہ تمام باتیں اپنی جگہ بڑی کارآمد اور مستحسن ہیں لیکن ان میں بس ایک چیز ذرا باعث تشویش ہے ۔ وہ یہ کہ کہیں ادیب کی نجی زندگی کو سدھارنے اور اس کے ذاتی مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں ادیب نہ گم ہوجائے اور اس کی جگہ ایک بڑا اچھا، منتظم اور باعمل آدمی نمودار ہوجائے۔ تخلیقی ادیب رخصت ہوجائے اور صرف تحقیق رہ جائے۔ چنانچہ ادیب کے نجی مسائل حل کرنے کے یہ پہلو خاصے توجہ طلب ہیں۔ اس تحریک میں جو ادب کی تخلیق کا باعث ہوتی ہے اور اس تحریک میں جو شمع کا معمہ حل کرواتی ہے، فرق کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ ادیب کے نجی مسائل بہت اہم سہی لیکن یہ کم و بیش وہی مسائل ہیں جو ایک عام شہری کو درپیش ہیں۔ معاشی تحفظ اور باوقار طور پر زندگی گزارنے کا مسئلہ ایک دو آدمیوں کا نہیں   ہے بلکہ پورے معاشرے کا ہے۔ اسی لئے ادیب اپنی تحریروں میں اپنے نجی مسائل کی جگہ پورے معاشرہ کے مسائل سے بحث کرتا ہے اور معاشی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔ اس کا یہ احتجاج اس لئے نہیں ہوتا کہ اسے ریفریجریٹر مہیا کیا جائے، یا اسے ایک کار فراہم کردی جائے، یا ہوائی جہاز کا ٹکٹ خرید دیا جائے یا کسی ادبی اکادمی یا ایوارڈ کا سربراہ بنا دیا جائے۔ یہ تمام چیزیں اگر اسے مہیا کر بھی دی جائیں تو بھی وہ وہی لکھے گا جو پہلے لکھتا رہا ہے۔ ادیب اپنے معاشرتی شعور کی نفی کرکے جی نہیں سکتا۔ مادی آسائش کی ٹھنڈک اس کی تخلیقی آگ کا بدل نہیں ہوسکتی۔
  اسی لئے ادیب کے نجی مسائل کے بارے میں ہمدردانہ طور پر سوچنا اور بات  ہے اور ان کو اُس کی تخلیق کی طرح قرار دینا دوسری بات۔ ادیب کی زندگی کا اصل مسئلہ ادب کی تخلیق ہے۔ ادیب کی صرف ایک ہی شخصیت ہوتی ہے یا ہونی چاہئے، اور وہ ہے ادبی شخصیت۔ اگر وہ اس شخصیت کا حامل نہیں ہے تو وہ سب کچھ ہوسکتا ہے مگر ادیب نہیں ہوسکتا۔ ادب ادیب کی زندگی کا کوئی جزوی مسئلہ نہیں ہے اور نہ یہ کوئی پارٹ ٹائم قسم کی چیز ہے کہ جب فرصت ہوگی اس وقت ادب کی باتیں ہوں گی۔ یہ اُس کا ’’کل وقتی‘‘ مسئلہ ہے۔ ادب کی تخلیق، ادب کی گفتگو، ادب کی جستجو اُسے ہمہ وقت مصروف رکھتی ہے، دیوانہ بنائے رہتی ہے۔ یہی اس کی زندگی ہے، یہی اس کے سارے وجود کا حاصل ہے۔ ممکن ہے یہ بات مبالغہ آمیز معلوم ہو اور اسے شاعری سمجھا جائے، لیکن بات ہے کچھ ایسی ہی۔ اس کے بغیر ادب تخلیق نہیں پاتا۔ ادیب خود کو یا تو ادب میں صرف Consume کردے یا کسی اور چیز میں، دونوں باتیں بیک وقت ممکن نہیں۔ایسی صورت میں عہد حاضر میں ادیب اور ادب کے مسائل  عہد حاضر کی مجموعی فکر سے مرتب ہوتے ہیں اور انہیں  اسی روشنی میں سمجھا اور پرکھا جاسکتا ہے۔
  ادیب اپنی تخلیقات کے سلسلے میں آج جس آدمی سے دوچار ہے وہ بڑا پیچیدہ ہے۔ اس ایک آدمی میں کئی آدمی چھپے ہوئے ہیں۔ یہ آدمی شہر کی سڑکوں پر چلتا ہے مگر اس کے سرسے لندن ، پیرس اور نیویارک سے آنے والے ہوائی جہاز شور مچاتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ یہ آدمی نواحی بستیوں  میں رہتا ہے اور جب لوکل ٹرین اسے شہر کے اسٹیشن پر لاکر اتار دیتی ہے تو ٹھیک اس کی ٹرین کے سامنے ایسے ڈبے بھی نظر آتے ہیں جو ایئرکنڈیشنڈ ہیں۔ یہ آدمی خوانچہ لگاتا ہے، کلرکی کرتا ہے، مدرسی کرتا ہے اور پھر یہی دفعتاً دو حصوں میں بٹ جاتا ہے، ایک وہی جو لوکل ٹرین سے اترا تھا، دوسرا وہ جو ایئرکنڈیشنڈ ڈبے میں بیٹھا نظر آنے لگتا ہے۔ یہ دوسرا آدمی ان ہوٹلوں میں جو حسین جسم کی طرح روشن اور سجے ہوتے ہیں، رقص کرتا ہے، شراب پیتا  اور بدمست ہوکر سوجاتا ہے  اور دن چڑھے اٹھتا ہے۔ جبکہ اس کا دوسرا حصہ مبروص ہوٹلوں میں ٹھرا پیتا، گھر آکر اپنی بیوی کو پیٹتا ہے اور مردے کی طرح چارپائی پر گر پڑتا ہے۔ دونوں ایک ہی شہر میں رہتے ہیں مگر اس قربت میں کتنی دوری ہے اور اس دوری میں کتنی تلخی ہے  اور اس تلخی کو تاریخی تقاضے کس موڑ کی طرف لے جارہے ہیں، اس کا احساس ہی ادیب کو ادب کے مسائل سے قریب تر کرتا ہے۔ پھر یہی آدمی ایک دوسرے روپ میں سامنے آتا ہے ، یہ ہر جگہ ، ہر ملک کا آدمی بن جاتا ہے۔ 
 عہد حاضر کے ادیب کے سامنے عہد حاضر ہی سب سے بڑا ادبی مسئلہ ہے۔ اس کے ہنگاموں میں خود کو ڈھونڈنا اور اپنی شخصیت کو مرتب کرنا  بڑا کٹھن کام ہے۔ہمارے ادیب ابھی اپنی آواز کو تلاش نہیں کرپائے ہیں۔ اتنا شور ہے کہ وہ اپنی آواز بھی نہیں سن سکتے۔ اس شور کو ادب بنانا اور مختلف اور متضاد چیزو ں کو جو مارِ سیاہ کی طرح گتھی ہوئی ہیں، سلجھانابہت بڑا ادبی مسئلہ ہے۔ مگر یہ کیونکر  ہو، یہ سوال آسیب کی طرح آج ادیبوں کا تعاقب کررہا ہے اور آخری سوال یہ ہے کہ ادیب کا ادبی شعور عہد حاضر کے آدمی کو کس آئینے میں دیکھے؟ اپنی ذاتی شکست کے آئینے میں یا تاریخ کے اس قدآدم آئینے میں جس میں آدمی اپنے پورے  قد کے ساتھ رفتہ رفتہ ابھر رہا ہے۔ وہ کس آدمی کو اپنی تحریر میں پیش کرے؟
 ادیب اور ادب کے تمام مسائل اسی سوال جواب کے اردگرد گھومتے ہیں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK