Inquilab Logo

یہ دوست ہے اسے دُشمن نہیں بننے دینا

Updated: January 16, 2021, 1:00 PM IST | Shahid Latif

عصر رواں میں مصنوعی ذہانت کا بڑا شور اور غلغلہ ہے۔ تکنالوجی کے ماہرین اسے اپنا بڑا کارنامہ قرار دیتے ہیں۔ یہ ہے بھی ایک عظیم کارنامہ۔ اس سے انکار ممکن نہیں مگر اسے روزوشب پر کس حد تک اثر انداز ہونے دینا ہے یہ فیصلہ بہت ضروری ہے۔

Artificial Intelligence - Pic : INN
مصنوعی ذہانت ۔ تصویر : آئی این این

اُردو زبان چونکہ تقسیم پسند نہیں ہے، اس لئے مشاعروں کے دعوت ناموں میں شاعروں کو نہ تو سنجیدہ اور مزاحیہ یا مترنم اور غیر مترنم میں تقسیم کیا جاتا ہے نہ ہی شاعری اور ’ناشاعری‘ یا اداکاری کے خانوں میں بانٹا جاتا ہے، البتہ اس خیال کے تحت کہ سامعین کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں، شعراء اور شاعرات کے نام الگ الگ لکھ دیئے جاتے ہیں۔ یہ اب تک کی روایت ہے مگر اب جگر تھام کے سنئے کہ وہ دن دور نہیں جب کل ہند یا عالمی مشاعروں کے دعوت ناموں میں شاعروں کے ساتھ مشینی شاعروں اور شاعرات کے ساتھ مشینی شاعرات کے نام بھی لکھے جائینگے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب روبوٹس بھی شاعری فرمانے لگے ہیں۔ انٹرنیٹ پر پیش کئے گئے ایک فیچر میں اس مضمون نگار نے ہر سانیٹ کے نیچے دو بٹن موجود دیکھے۔ ایک کے نیچے لکھا تھا ’’مَین‘‘ دوسرے کے نیچے ’’مشین‘‘۔ مجھے فیصلہ کرنا تھا کہ کون سا سانیٹ ’’مین‘‘ یعنی شاعر کا ہے اور کون سا مشینی شاعر کا۔ یقین کیجئے شناخت کرنا اگر مشکل نہیں تو آسان بھی نہیں تھا۔ روبوٹ کی یہ ادبی کاوش اعلیٰ شاعری سے کمتر مگر تک بندی سے بہتر شاعری ہے۔ اب تک تو روبوٹ کی انگریزی شاعری ہی نظر سے گزری ہے مگر چونکہ کمپیوٹر اُردو زبان سے ہم آہنگ ہے ا سلئے عنقریب ہم سنیں گے کہ روبوٹ انگریزی کے ساتھ ساتھ اُردو شاعری کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اُسے  انگریزی یا کسی بھی دوسری زبان کی شاعری سے زیادہ اُردو شاعری فائدہ پہنچائے گی۔ یہاں داد بھی ملتی ہے اور قابل قدر نذرانہ بھی۔ 
 مشینی شاعری مصنوعی ذہانت کے درجنوں ہوش رُبا کمالات میں سے ایک ہے۔ اب تک کئی معرکوں میں مصنوعی ذہانت، انسانی ذہانت کو شکست دے چکی ہے۔ ۱۹۹۶ء میں شطرنج کے عالمی چمپئن گیری کاسپرو کو ڈیپ بلیو نامی آئی بی ایم کمپیوٹر نے مات دے دی تھی۔ یہ چوبیس سال قبل کا واقعہ ہے۔ ان چوبیس برسوں میں تکنالوجی کے جنونِ ایجاد و پیش رفت میں اس حد تک اضافہ ہوچکا ہے کہ حقیقی ذہانت مصنوعی ذہانت پر حاوی ہونے کے درپے ہے۔ ۲۰۱۷ء میں ’’گو‘‘ نامی ایک کھیل میں، جو دُنیا کے نہایت پیچیدہ کھیلوں میں سے ایک ہے، گو کے چمپئن چینی کھلاڑی کے جیئے (Ke Jie) کو گوگل کا الفاگو نامی روبوٹ شکست دے چکا ہے۔ مصنوعی ذہانت یا روبوٹس کا دخل در معقولات صرف کھیلوں تک محدود نہیں ہے۔ یہ ذہانت بڑے غیر محسوس طریقے سے کم و بیش ہر شعبۂ حیات میں داخل ہوچکی ہے۔ 
 بیشتر لوگ یہ جانے بغیر کہ یہی مصنوعی ذہانت ہے اس سے فائدہ بھی اُٹھا رہے ہیں۔اسمارٹ فونس میں گوگل اسسٹنٹ ’’سیری‘‘ بھی نمائندۂ مصنوعی ذہانت ہے۔ موبائل فون کا ایک صارف ایک ویڈیو دیکھتا ہے، اُسی موضوع اور مزاج کے درجنوں ویڈیوز اُسے بطور مشورہ پیش کردیئے جاتے ہیں کہ یہ بھی دیکھئے اور یہ بھی۔ کارخانوں میں مزدور کی جگہ مشین کا استعمال (جو کہ جاری و ساری ہے) اور کمپنیوں میں مصنوعات اور صارفین کی تفصیل در تفصیل کو چھاننے، چھانٹنے اور پرکھنے نیز تجزیہ کرنے میں بھی مصنوعی ذہانت اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ روبوٹس کل پرزے جوڑ کر کار تیار کررہے ہیں، کاریں چلا بھی رہے ہیں (سیلف ڈرائیونگ کارس)، صارفین اور گاہکوں سے بات چیت بھی کررہے ہیں (آٹومیٹیڈ کالس)، بینک کیشیئر کی خدمات بھی فراہم کررہے ہیں (اے ٹی ایم)، بھاری سامان ڈھو رہے ہیں (فورک لفٹ مشین)، ہوائی جہاز اُڑا رہے ہیں (آٹونومس ڈرونس) یا شعبۂ طب میں عمل ِجراحت (روبوٹ سرجنس) انجام دینے لگے ہیں۔ زندگی کے بہت کم شعبے ایسے رہ گئے ہیں جو مصنوعی ذہانت کی بالواسطہ یا بلاواسطہ مداخلت سے محفوظ ہوں۔ ماضی میں ہر خوبصورت خیال شاعرانہ یا ادیبانہ تخیل تک محدود تھا۔ تکنالوجی کے بغیر تکنالوجی کےمظاہر کا خیال پیش کرکے فکشن رائٹرس نے خوب داد و تحسین وصول کی مگر مصنوعی ذہانت ہر خیال کو حقیقت میں تبدیل کرتی جارہی ہے۔ نیٹ سرفنگ کے دوران بعض اوقات آپ سے پوچھا جاتا ہے کہ کہیں آپ روبوٹ تو نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روبوٹ وہی کام کرسکتا ہے جو آپ کرنے جارہے ہیں۔ آئندہ زندگی میں ایسے بھی واقعات پیش آسکتے ہیں جن میں ایک انسان کا دوسرے انسان سے رابطہ ہو، وہ اُسے اپنے ہی جیسا انسان سمجھے مگر وہ روبوٹ نکلے۔ 
 وقت کے ساتھ حقیقی اور مصنوعی ذہانت کے مابین رسہ کشی بڑھتی جارہی ہے جسے تکنالوجی کے ماہرین دوستی قرار دیتے ہیں مگر مشاہدہ یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت حقیقی و فطری ذہانت کو ’’زحمت‘‘ نہ دینے کے مقصد سے عضو معطل میں تبدیل کرتی جارہی ہے۔ غور کیجئے اس عہد میں موبائل کے بغیر زندگی کتنی ادھوری ہے جبکہ ماضی میں جب موبائل نہیں تھا تب بھی زندگی رواں دواں تھی۔ غور اس بات پر بھی کیجئے کہ موبائل نے جتنی آسانیاں بہم پہنچائی ہیں اُتنی غیر محسوس دشواریاں ہم نے اپنے لئے پیدا کرلی ہیں۔ موبائل گم ہوجائے تو انسان کو اپنی حقیقی میموری کا خیال آتا ہے کہ اس میں تو کچھ بھی سیو نہیں ہے! اس بہانے آج ہی اپنا محاسبہ کرلیجئے کہ آپ کو اپنے آس پاس کے کتنے لوگوں کے موبائل نمبر یاد ہیں۔ 
  آکسفورڈ یونیورسٹی کے تھنک ٹینک کہلانے والے ادارہ ’’فیوچر آف ہیومانٹی انسٹی ٹیوٹ‘‘ نے عالم انسانیت کو جن ۱۲؍ خطرات کے خلاف متنبہ کیا ہے ان میں ماحولیاتی کثافت، ایٹمی جنگ کا وقوع پزیر ہونا، بڑے آتش فشاں کا پھٹنا، بڑے شہاب ثاقب کا زمین پر گرنا اور قاتل جرثوموں کا معرض وجود میں لایا جانا جیسے خطرات کے علاوہ مصنوعی ذہانت بھی شامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خود کو مشینوں کے حوالے کردینے سے کام نہیں چلے گا۔ دانشمندی اس میں ہے کہ مصنوعی ذہانت کو حقیقی ذہانت کے معاون کی حیثیت سے بروئے کار لایا جائے۔ اس سے دشواریاں کم اور آسانیاں زیادہ پیدا کی جاسکتی ہیں ورنہ مشینیں بے روزگاری بڑھائیں گی، حقیقی دماغی صلاحیتوں کی دشمن بن جائینگی (جس کی ابتداء ہوچکی ہے)، انسانی رشتوں اور جذبوں کیلئے چیلنج ثابت ہوں گی، تنہائی و انتشارِ ذہنی میں اضافہ کریں گی اور مصنوعی ذہانت کے فرمانروا حقیقی ذہانت کو اپنا بندۂ بے دام بنالیں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK