Inquilab Logo

یہ سب سیاست کا کھیل ہے

Updated: August 06, 2020, 7:50 AM IST | Khalid Shaikh

۲۰۱۸ء میں مسجد اراضی ملکیت کا معاملہ سپریم کورٹ میں آیا تو اس کی اس یقین دہانی سے کہ وہ تنازع کو آستھا اور عقیدے کی بنیاد پر نہیں ، ثبوت وشواہد کی بناء پر فیصل کرے گا۔اس سے مسلمانوں کی ڈھارس بندھی کیونکہ ان کے پاس ملکیت کے سارے دستاویزات تھے جبکہ فریق مخالف کے پاس ان کی آستھا اور ۲۰۰۳ء میں اٹل بہاری واجپئی کے دور میں داخل کی گئی محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ تھی ۔

Supreme Court of India - Pic : INN
سپریم کورٹ آف انڈیا ۔ تصویر : آئی این این

ہندوشرپسندوں نے بابری مسجد میں غاصبانہ طورپر گھس کر رام للاّ اور سیتا میّا کی مورتیاں منبر کے پاس نصب کیں اور دعویٰ کیا کہ بھگوان رام ٹھیک اسی مقام پر پیدا ہوئے تھے۔ وہاں ایک مندر تھا جسے ڈھاکر  بابر کے فوجی  جرنیل میر باقی نے بابری مسجد تعمیر کی ۔۶؍ دسمبر کو مسجد کی مسماری بظاہر کارسیوکوں نے انجام دی لیکن اس میں دونوں قومی پارٹیاں برابر کی شریک تھی ۔ اس کی کرونولوجی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جس وقت مورتیاں نصب کی گئیں ، مرکز اور یوپی میں کانگریس حکومت تھی ’لاء اینڈ آرڈر کے نام پر کسی نے انہیں ہٹانے کی جرأت نہیں کی ۔ مسجد پر تالا لگادیا گیا۔ایک  دوسرے کانگریسی وزیراعظم  راجیو گاندھی نے عدالتی حکم کے ذریعے تالا کھلواکر پوجا کی راہ ہموار کی اور ۱۹۸۹ء میں شیلا نیاس کروایا۔ جس وقت مسجد کو مسمار کیاجارہا تھا بتایاجاتا ہے کہ نرسمہاراؤ آرام کررہے تھے۔ جب مسجد کے مقام پر عارضی  مندر بنادیا گیا تو وہ نیند سے جاگے اوراسی جھونک میں اعلان کیا کہ مسجد کو اسی مقام پر دوبارہ تعمیر کیاجائے گا۔ ۲۰۱۸ء میں مسجد اراضی ملکیت کا معاملہ سپریم کورٹ میں آیا تو اس کی اس یقین دہانی سے کہ وہ تنازع کو آستھا اور عقیدے کی بنیاد پر نہیں ،ثبوت وشواہد کی بناء پر فیصل کرے گا۔اس سے مسلمانوں کی ڈھارس بندھی کیونکہ ان کے پاس ملکیت کے سارے دستاویزات تھے جبکہ فریق مخالف کے پاس ان کی آستھا اور ۲۰۰۳ء میں اٹل بہاری واجپئی کے دور میں داخل کی گئی محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ تھی جس میں مسجد کے ملبے کے نیچے ایک نہیں تین مندروں کے آثار ملنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے اس ضمن میں جتنی رپورٹیں اور دستاویزات داخل دفتر کئے گئے ان میں کسی میں بھی اس طرح کا دعویٰ نہیں کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۰۰۳ء کی رپورٹ کو معروف مورخین وماہرین نے سیاسی مداخلت یا دباؤ کا نتیجہ قراردیا۔
  ستم ظریفی دیکھئے کہ یقین دہانی کے برعکس عدالت نے جوفیصلہ سنایا اس میں آستھا کی جیت ہوئی اور ثبوت وشواہد کو نکار دیا گیا۔ فیصلے کو متوازن بنانے اور مسماری کی بھرپائی کیلئے یوپی حکومت کو مسجد کی تعمیر کیلئے ۵؍ ایکڑ زمین دینے کی ہدایت دی گئی۔ فیصلے سے واضح ہوتا ہے کہ اسے اکثریت کے مذہبی جذبات کا خیال رکھتے ہوئے صادرکیا گیا اور جب فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل داخل کی گئی تو اسے  خارج کردیا گیا۔ ذیلی عدالتوں کا تو ذکر کیا ، ماضی میں خود سپریم کورٹ نے ایسے کئی فیصلے دیئے ہیں جن سے اطمینا ن نہیںہوتا  لیکن جسے سماج کے اجتماعی ضمیر کی تسکین کا پُرفریب نام دیاجاتا ہے ۔ فیصلے سے مسلمانوں کویقیناً  مایوسی ہوئی ۔ اگر فیصلہ مسجد کے حق میں ہوتا تو ہندوتوا وادیوں کا ردعمل بھیانک ہوتا اور مودی حکومت کو اکثریت کے بَل پر شاہ بانو کیس کی طرح  فیصلے کو ردکرکے مندر نرمان کو قانونی شکل دینے کا موقع مل جاتا۔ ملک میں جس طرح کے حالات ہیں اسے دیکھتے ہوئے کوئی پارٹی یا سرکاری وآئینی ادارہ، حکومت یاہندوتوا وادیوں کی ناراضگی کا خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہیں ۔  
 سچ  یہ ہے کہ مندر نرمان کا سب سے زیادہ کریڈٹ بی جے پی کے ۹۲ ؍سالہ  لیڈر ایل کے اڈوانی کو جاتا ہے جن کی رتھ یاتراؤں نے رام مندر کو ملک گیر ایشوبنایا، ہندوتوا وادیوں میں ایک نیا جوش بھرا  اور بی جے پی کو اقتدار نصیب کیا۔ وہ وزیراعظم بننے کا خواب دیکھ رہے تھے، مودی نے انکا پتہ کاٹ دیا۔ آج ان کی حالت ’’پھرتے ہیں میر خوار کو ئی پوچھتا نہیں‘ جیسی ہوگئی ہے۔ 
 اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی بی جے پی اور سنگھ پریوار کے دیگر لیڈر مسجد مسماری کیس میں  ملوث  ہیں۔پچھلے ہفتے ویڈیوکانفرنسنگ کے ذریعے سی بی آئی کی خصوصی عدالت میں اپنا بیان درج کیا، اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات سے انکار کیااور اسے  کانگریسی  حکومت کی سازش بتایا۔  البتہ اس کا اعتراف کیا کہ جس وقت مسجد مسمار کی جارہی تھی وہ وہاں موجود تھے۔ اڈوانی نے یہ بھی کہا کہ مندر نرمان تحریک میں ہندوؤں کو محرک کرنے کیلئے انہوںنے مسجدکے خلاف تحریک شروع کی تاکہ مسجد کی جگہ مندر تعمیر ہو۔ دونوں لیڈروں نے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے مہلت  مانگی   جو عدالت نے انہیں دی۔ عدالت کیلئے مسئلہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اسے اپنی رپورٹ ۳۱؍ اگست تک  داخل کرنی ہے۔ رپورٹ کیسی ہوگی اس بارے میں قیاس آرائی مشکل ہے لیکن موجود ہ رجحان کو دیکھتے ہوئے گمان غالب ہے کہ چھوٹی مچھلیوں کو پھانسا جائے گا اور بڑی مچھلیوں کو بخشا جائے گا۔ دوسرا متبادل یہ ہوگا کہ مسماری کا الزام نامعلوم کارسیوکوں پر لگا کر کیس کو ہمیشہ کے لئے بند کردیاجائے۔
 ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کا تعلق آرٹیکل ۳۷۰؍ کی منسوخی سے ہے جس کے ذریعے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت اوراس کا ریاستی  درجہ ختم کرکے  اسے اور لداخ کومرکزی علاقوں میں تبدیل کردیا گیا۔ کل اسے ایک سال پورا ہوگیا لیکن حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ وقفے وقفے سے انٹرنیٹ (2G) پر لگی پابندیوں کی وجہ سے کشمیر ساری دنیا سے کٹ کر رہ گیا ہے۔ کشمیر آج بھی ایک فوجی چھاؤنی بنا ہوا ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پورا ملک جن حالات کا شکار ہے ان سے کشمیر بھی گزررہا ہے ۔ ایک ایسے وقت جب سارا ملک مہاماری کی چپیٹ میں ہے۔ ہر سال کی طرح طوفانی بارش اور باڑ  سےکئی علاقے جل تھل ہوگئے ہیں۔ معیشت ڈھلان پر ہے۔ ان حالات میں ۵؍ اگست کو ہی بھومی پوجن کا انعقاد کشمیر کی یاد دلانے اوراپنی پیٹھ تھپتھپانے کیلئے تھا جو رام کے کردار سے میل نہیں کھاتا ۔ رام  مریادا پرشوتم  تھے ۔ وہ سب کے تھے ، سب ان کے تھے  یہ وصف  ان کا سیاسی فائدہ اٹھانے والوں میں نہیں پایا  جاتا ہے ۔لوگ سمجھتے ہیں کہ رام مندر کا تمغہ لگا کر مودی امسال کےبہار الیکشن، ۲۰۲۲ء کے یوپی الیکشن اور ۲۰۲۴ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK