Inquilab Logo

یہ میرا نیوانڈیا اور آتم نربھربھارت

Updated: May 13, 2021, 7:48 AM IST | khalid Shaikh | Mumbai

مودی ۔شاہ سے دوسری غلطی ممتا کی مقبولیت کا اندازہ لگانے میں ہوئی۔ فی الوقت بنگال میں ممتا سے زیادہ مقبول کوئی دوسرا لیڈر نہیں۔ وہ ایک اسٹریٹ فائٹر اور دبنگ لیڈر ہیں اور ایسی واحد اپوزیشن لیڈر ہیں جو مودی ۔ شاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔

Mamata Banerjee Picture:midday
ممتا بنرجی تصور مڈڈے

 ۲؍مئی  کو جب اسمبلی انتخابات کے نتائج آنا شروع ہوئے تو سب کی نظریں بنگال پر مرکوز تھیں جہاں ٹی ایم سی اور بی جے پی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ تھا۔ دونوں کے لئے ’کرویامرو‘ کا سوال تھا۔ ممتا بنرجی بنگال پر قبضہ برقرار رکھنا چاہتی تھیں جبکہ مودی ۔شاہ ہر قیمت پر اسے ہتھیانا چاہتے تھے۔ ان کی یہ خواہش بے وجہ نہیں تھی۔ ۲۰۱۹ء کے پارلیمانی الیکشن میں بنگال کی ۴۲؍ میں سے ۱۸؍ سیٹیں جیتنے کے بعد  ان کے حوصلے بلند تھے اور وہ اسے اسمبلی الیکشن میں بھنانا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں حکومت نے الیکشن کمیشن کو پہلے ہی  بنگال الیکشن کو آٹھ مرحلوں میں کروانے کا حکم دے دیا تھا اور تنبیہ کی تھی کہ وہ ریلیوں میں ہونے والی کورونا پروٹوکول کی خلاف ورزیوں کی اَن دیکھی کرے۔ اسی طرح ووٹروں کو رجھانے کے لئے جو آزمودہ حکمت عملی اختیارکی گئی اس میں (۱) ٹی ایم سی کے بِکاؤ اور برگشتہ لیڈروں کو الیکشن ٹکٹ ، وزارت اور عہدوں کا لالچ دے کر پارٹی میں شامل کرنا (۲) ممتا بنرجی کے فیملی ممبروں اور دیگر لیڈروں پر لگے کرپشن کے الزامات کو اچھالنا (۳) جے شری رام نعرہ کو سیاسی وانتخابی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا اور (۴)انتخابی مہم کو ہندو مسلم رنگ دینا ،جیسے اقدامات شامل تھے۔ ان پر عمل کرنے کیلئے مودی۔ شاہ نے ایک طرف مرکزی وزراء، وزرائے اعلیٰ اور سینئر لیڈروں کی کھیپ اتاری تو دوسری طرف ’منی پاور ‘ کا بے دریغ استعمال کیا اور آر ایس ایس اور بی جے پی ورکروں کو پورے بنگال میں پھیلا دیا۔
  اس کے باوجود اگر بی جے پی کو شکست ہوئی تو اس کی دو وجہیں ہیں جن پر مودی ۔ شاہ نے توجہ دینے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ پارلیمانی  اور اسمبلی الیکشن  قومی ومقامی مسائل پر لڑے جاتے ہیں۔ قومی سطح پر عوام وزیراعظم کی حیثیت سے ایک مضبوط اور  فیصلہ کن لیڈر کو دیکھنا چاہتے ہیں ۔ مودی اپنی ’نونان سینس‘ شبیہ کی وجہ سے اس معیار پر پورا اترتے ہیں جس میں ان کی کارکردگی کا کم او ر تشہیری مہم کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے کورونا کی دوسری لہر نے اِس شبیہ کی قلعی کھول دی ہے۔ کورونا سے نمٹنے میں ناکامی ، ادویات وآلات اور آکسیجن کی قلت، اسپتالوں میں بیڈ کی کمی، شمسان گھاٹوں اور قبرستانوں میں آخری رسوم کی ادائیگی کے لئے لمبی قطاریں اور اموات کی تعداد کوکم دکھانے کا نوٹس عالمی سطح پر لیا گیا اور اس کے لئے راست طور پر مودی اوران کے بڑبولے پن کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ حسب توقع بی جے پی  نے اسے مودی اور حکومت کو بدنام کرنے کی سازش بتایا لیکن جب قومی سطح پر مودی کے استعفیٰ کی مانگیں اٹھنے لگیں تو بی جے پی لیڈروں نے خاموشی میں عافیت سمجھی۔ جہاں تک مقامی مسائل کا تعلق ہے تو عوام کی پسند ،زمین سے جُڑے ایسے لیڈر کی ہوتی ہے جو ان کے مسائل  سے کما حقہٗ  واقف اور انہیں حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ممتا اس پیمانے پر کھری اترتی ہیں۔ مودی ۔شاہ سے دوسری غلطی ممتا کی مقبولیت کا اندازہ لگانے میں ہوئی۔ فی الوقت بنگال میں ممتا سے زیادہ مقبول کوئی دوسرا لیڈر نہیں۔ وہ ایک اسٹریٹ فائٹر اور دبنگ لیڈر ہیں اور  ایسی واحد اپوزیشن لیڈر ہیں جو مودی ۔ شاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ انہوںنے  فلاحی اسکیموں کے ذریعے بنگال کے ہر طبقے کے دلوں میں جو جگہ بنائی اسے کوئی دوسرا نہیں لے سکتا ہے ۔ 
  الیکشن  کا نتیجہ سامنے آنے پر ۲۰۰؍ سیٹوں سے جیت کا دعویٰ کرنے والے امیت شاہ نے چُپّی سادھ لی ہے ۔ ہار جیت کے درمیان فرق اتنا زیادہ ہے کہ ان کے لئے توڑ جوڑ کی سیاست  کا موقع نہیں بچا ۔ مودی نے ممتا کو مبارکباد دے کر خلاصی  حاصل کر لی۔  ورنہ اگر بی جے پی جیت جاتی تو پارٹی اور آر ایس ایس لیڈر یہ دعویٰ کرنے سے نہیں چُوکتے کہ بی جے پی کو جِتاکر بنگال کے ووٹروں نے ثابت کردیا کہ کورونا سے نمٹنے کے معاملے میں وہ مودی کے اقدامات سے مطمئن  ہیں۔ یہ ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کہ مارچ ۲۰۱۷ء میں جب قومی معیشت ، نوٹ بندی کے اثرات سے چرمرا گئی تھی تو یوپی کے الیکشن میں بی جے پی کو ملی بھاری اکثریت کو بی جے پی لیڈروں نے نوٹ بندی جیسی ناکام پالیسی کی حمایت میں دیا گیا ریفرنڈم قراردیا تھا۔ ویسے وَننگ مشین (Winning Machine ) کہلانے والی پارٹی بی جے پی کیلئے شکست کا یہ پہلا موقع نہیں۔ ۲۰۱۸ء  سے ہونے والے بیشتر اسمبلی انتخابات سے اُس کا پرفارمنس خراب چلا آرہا ہے۔ کہیں اسے شکست کے اعتراف پر مجبور ہونا پڑا تو کہیں حکومت سازی کے لئے علاقائی پارٹیوں یا توڑ جوڑ کی سیاست کا سہارا لینا پڑا۔ بنگال میں بی جے پی لیڈر یہ سوچ کر خود کو تسلی دے سکتے ہیں کہ ۲۰۱۶ء  کی تین سیٹوں  کے مقابلے اس بار انہیں ۷۷؍ سیٹیں ملیں اورالیکشن میں کانگریس اور بائیں محاذ کا صفایا ہونے سے بی جے پی   واحد   اپوزیشن پارٹی بن گئی ۔
 بنگال  کے  نتائج میں بی جے پی لیڈروں کیلئے کئی سبق ہیں (۱) ’منی اور مین پاور‘ کے ذریعے بھیڑ اکھٹا کی جاسکتی ہے ، اسے ووٹ میں نہیں بدلا جاسکتا (۲) پولرئزیشن اور نفرت کی سیاست کے کھوٹے سکوں کو ہر جگہ نہیں چلایاجاسکتا۔ (۳) زورِخطابت کا اثر وقتی ہوتا ہے۔ الیکشن میں حکومتوں اور لیڈروں کا کام  بولتا ہے اور (۴) جب ووٹر اپنا من بنالیں تو مودی اور شاہ کتنی ہی ریلیاں اور روڈ شو کرلیں اسے بدلنے کی قدرت نہیں رکھتے اور جے شری رام کے نعرے کو ’ رام نام ستیہ ‘ میں بدلنے میں دیر نہیں لگتی ۔ ایک اچھے حکمراں کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنی شبیہ چمکانے سے زیادہ ملک کی شبیہ اور عوام کی زندگی کو دَمکانے کا کام کرتا ہے۔ ۲۰۱۴ء سے مودی نے’’ بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘‘ کے مصداق قومی وبین الاقوامی سطح پر صرف اپنی شبیہ چمکانے  اور واہ واہی بٹورنے کا کام کیا ہے۔ اسی لئے جب کورونا ۔۲ کی بڑھتی خونخواری، طبی سہولتوں کی قلت اور روز افزوں اموات پر سپریم کورٹ نے مرکز کو پھٹکار لگائی اور بین الاقوامی پریس اور عالمی لیڈروں کی طرف سے مودی پر تنقیدوں کا سلسلہ شروع ہوا تو حکومت سٹپٹاگئی اور ’سپریم لیڈر‘ کے  دفاع میں جُٹ گئی۔ بین الاقوامی کانفرنسوں میں پیش پیش رہنےوالے مودی کی پریشانی اور بے بسی اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ انہوںنے خفت  اور تیکھے سوالات سے بچنے کیلئےG7چوٹی کانفرنس میں شرکت سے معذرت طلب کرلی ہے۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ کاسۂ گدائی لئے پھرتا بھارت کیا وہی ’’نیوانڈیا اور آتم نربھر بھارت ‘‘ہے جس کا وعدہ مودی نے کیا تھا۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK