Inquilab Logo

ہردل میں ترنگا،ہر گھر میں ترنگا

Updated: August 17, 2022, 1:04 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

اس سال چونکہ ہم’’آزادی کا امرت مہوتسو‘‘ منا رہے ہیں اس لئے سرکا رنے ’’ہر گھر ترنگا‘‘کا فرمان جاری کیا جس کی تعمیل جوش و خروش سے کی گئی اور کشمیر سے کنیا کماری تک ریکارڈ تعداد میں جھنڈے لہرائے گئے۔ کئی شہروں میں ترنگے کا اسٹاک ختم ہوگیا۔ ملک کے ۲۰؍ کروڑ گھروں میں ترنگا لہرانے کا سرکاری ہدف ضرور پورا ہوگیا ہوگا۔

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

ہندوستان جنت نشان نے پیر کے دن اپنی آزادی کی ۷۵؍ویں سالگرہ خوب دھوم دھام سے منائی۔ آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی  ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس سال چونکہ ہم’’آزادی کا امرت مہوتسو‘‘ منا رہے ہیں اس لئے سرکا رنے ’’ہر گھر ترنگا‘‘کا فرمان جاری کیا۔ سرکاری فرمان کی تعمیل جوش و خروش کی گئی اور کشمیر سے کنیا کماری تک ریکارڈ تعداد میں جھنڈے لہرائے گئے۔ کئی شہروں میں ترنگے کا اسٹاک ختم ہوگیا۔ ملک کے ۲۰؍ کروڑ گھروں میں ترنگا لہرانے کا سرکاری ہدف ضرور پورا ہوگیا ہوگا۔  اپنے گھروں پر ترنگا لہراناکسی بھی ہندوستانی کے لئے فخر کی بات ہے اور کسی بھی ہندوستانی کواس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا ہے۔ مسئلہ تب پید ا ہوتا ہے جب قومی پرچم کو شہریوں کی ملک سے وفاداری کے امتحان کا پرچہ بنا دیا جاتا ہے یعنی جو شخص اپنے گھر پر ترنگا لگاتا ہے وہ دیش پریمی ہے اور جو نہیں لگاتا ہے وہ دیش دروہی ہے۔ ہندوستانی شہریوں کی ایسی سہل پسندانہ بلکہ بچکانہ درجہ بندی خطرناک ہے۔ ہر شہری کو اپنے قومی پرچم سے پیار ہوتاہے خواہ وہ اپنے اس پیار کا مظاہرہ کرے یا نہ کرے۔ملک کے قانون کی پاسداری کرنے والے کسی شریف اور ایماندار شہری کی حب الوطنی پر صرف اس لئے انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی ہے کیونکہ اس نے اپنے گھر پر ترنگا نہیں لہرایا۔ٹھیک اسی طرح جس طرح ذخیرہ اندوزی، ٹیکس کی چوری یا نقلی دواؤں کا دھندا کرنے والا شخص صرف اس لئے دیش بھکت نہیں بن جائے گا کیونکہ اس نے اپنی حرام کی کمائی سے بڑا سا ترنگا اپنے بنگلہ پر لگالیا۔  بی جے پی کے اترا کھنڈ کے صدر مہندر بھٹ نے پچھلے ہفتے یہ اعلان کیا کہ ملک ان لوگوں پر کبھی بھروسہ نہیں کرے گا جو یوم آزادی کے دن اپنے گھروں پر ترنگا نہیں لہرائیں گے۔ یہی نہیں انہوں نے اپنے پارٹی ورکرز کو یہ ہدایت بھی دی کہ ان سارے گھروں کی تصویریں لیں جن پر جھنڈا نہیں لہرا یا گیا۔دیکھا آپ نے جارح قوم پرستی کے نتائج کتنے خطرناک ہوسکتے ہیں!شایداسی لئے نوبل انعام یافتہ مفکر شاعر رابندر ناتھ ٹیگور نے قوم پرستی کو’’بدی کی سنگدل وبا ‘‘ اور ملک کے لئے’’ بہت بڑا خطرہ‘‘ قرار دیا تھا۔    ماضی میں قومی پرچم کی عظمت سے انکار صرف اس مخصوص مکتب فکر اور نظریے کے لوگ کرتے رہے ہیں جو آر ایس ایس اور اس کی مختلف تنظیموں سے جڑ ے تھے۔ ہیڈگیوار ہوں یاگرو گولوالکر،ساور کر ہوں یا شیاما پرساد مکھرجی، ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس  کے لیڈروں نے ترنگا کو آزاد ہندوستان کا قومی پرچم بنائے جانے کی سخت مخالفت کی تھی۔ وہ لوگ ترنگے کی جگہ بھگوا جھنڈاکو یہ مرتبہ دلوانے پر مصر تھے۔ آر ایس ایس کے ترجمان ’’ آرگنائزر‘‘ میں ۱۴؍ اگست ۱۹۴۷ء کو چھپے ایک مضمون میں قومی پرچم کے متعلق سنگھ پریوار کے موقف کو درج ذیل الفاظ میں واضح کردیا گیا تھا:’’ صرف بھگوا رنگ کا جھنڈا ہی ہندوستان کا قومی جھنڈا بن سکتا ہے۔جو لوگ تقدیر کی مہربانی سے اقتدار میں آگئے ہیں وہ ہمارے ہاتھوں میں ترنگا تھما تو سکتے ہیں لیکن یہ ہندوؤں کے لئے کبھی بھی قابل احترام اور قابل قبول نہیں ہوگا۔‘‘شیاما پرساد مکھرجی ہندو مہاسبھا کے قد آور لیڈر اور جن سنگھ کے بانی تھے۔ وہ ہندوستان کی اس عبوری حکومت میں وزیر صنعت تھے  جو ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۰ء تک قائم تھی۔ ان کی سرکاری رہائش گاہ پر قومی پرچم کے بجائے بھگوا جھنڈا لہراتا تھا اور وزیر اعظم نہرو نے ان کو خط لکھ کر اس پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیاتھا۔ گاندھی جی کی شہادت کے بعد وزیر داخلہ سردار پٹیل نے آ ر ایس ایس پر پابندی لگادی تھی۔آ ر ایس ایس کی ترنگا بیزاری کو ذہن میں رکھتے ہوئے پٹیل نے پابندی ہٹانے کے لئے جو شرائط رکھی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ اسے قومی پرچم کی مخالفت ترک کرکے اس کے تئیں مکمل اور واضح وفادای کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
  ماضی کو چھوڑیں، آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت اور دیگر لیڈروں نے وزیر اعظم مودی کی اپیل کے باوجود کئی دنوں تک سوشل میڈیا کی اپنی ڈی پی میں ترنگا نہیں لگایا تھا۔ کانگریس ترجمان نے جب’’ آر ایس ایس والو اب تو ترنگا کو اپنالو‘‘کا طعنہ دے کر بی جے پی کی سیاسی منافقت کو بے نقاب کردیا تو  بھاگوت اور ان کے رفقا نے ڈی پی تبدیل کی۔ راہل گاندھی اور کانگریس پارٹی کے تمام لیڈروں نے دو اگست سے اپنی ڈی پی تبدیل کرکے اس کی جگہ وہ تاریخی تصویر لگادی تھی جس میں نہرو جی ترنگا اٹھائے ہوئے ہیں۔ نہرو دشمنی میں اندھی بی جے پی نے جب اسے بھی کانگریس کی’’ موروثی سیاست کا مظاہرہ‘‘قرار دیاتو کانگریس نے جوابی وار کرکے حکمراں پارٹی کی بولتی بند کردی۔کانگریس نے بی جے پی کے سامنے یہ چیلنج رکھ دیا کہ وہ ساورکر،گولوالکر یا اپنے کسی نظریاتی سرپرست کی ایک بھی ایسی تصویر پیش کردے جس میں ان کے ہاتھ میں ترنگاہے۔  بی جے پی کے پاس گاندھی، نہرو، پٹیل یا آزاد جیسے قائد نہیں ہیں جنہوں نے وطن کی آزادی کے لئے اپنی زندگی کے بیش قیمت سال جیل کی چار دیواری میں گزاردیئے۔ اس لئے حکمراں جماعت کبھی سردار پٹیل تو کبھی پنت پر، کبھی بھگت سنگھ تو کبھی مدن موہن مالویہ پر اپنی دعوے داری جتا تی رہتی ہے۔ اسی طرح چونکہ بی جے پی اور اس کی پیش رو ہندوتواوادی تنظیموں کو ماضی میں قومی پرچم سے دور کا واسطہ بھی نہیں رہا ہے جس کی وجہ سے پارٹی پشیمانی محسوس کرتی ہے اس لئے اب ترنگا سے اپنی وابستگی ثابت کرنے کے لئے وہ پوری توانائی صرف کررہی ہے۔ بی جے پی آزادی کا امرت مہوتسو منانے کے بہانے در اصل تحریک آزادی سے اپنے آپ کوجوڑنے کے مشن پر کام کررہی ہے۔ اس کٹھن منصوبہ پر عمل در آمد کے لئے اسے کبھی تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا پڑتی ہے تو کبھی تحریک آزادی کے ہیروز کو ہائی جیک کرنا پڑتاہے۔ قصہ مختصر یہ کہ بی جے پی خود کو قوم پرستی کے سب سے بڑے علمبردار کے طور پر پیش کرنے کے لئے بھی ’’ہر گھر ترنگا‘‘  مہم کو استعمال کررہی ہے اور اپوزیشن اوران لوگوں کو جو اس کے نظریات سے اختلاف رکھتے ہیں سے حساب برا بر کرنے کے لئے۔پس نوشت: ۱۹۲۹ء میں کانگریس کے لاہور اجلاس میں دریائے راوی کے کنارے جواہر لال نہرو نے پہلی بار ترنگا لہرا کر پورن سوراج (مکمل آزادی) کا اعلان کیا تھا۔ستم ظریفی دیکھئے کہ آزادی کی پچھترویں سالگرہ کے موقع پر جب ہر گھر میں ترنگا لہرا یا گیا تب نہرو جی کی گرانقدر خدمات اور قربانیوں کی ستائش کرنے کے بجائے تاریخ سے ان کا نام مٹانے کے جتن کئے جارہے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK