Inquilab Logo

ٹرمپ کا دورۂ ہند

Updated: February 22, 2020, 2:02 PM IST | Editorial | Mumbai

ٹرمپ کے دورہ ٔ ہند کی تیاریوں کی خبریں نئی دہلی کے جوش و خروش کی غماز ہیں۔ گجرات میں وہ صرف تین گھنٹہ ٹھہریں گے مگر اس کیلئے ۸۵۰؍ ملین روپے (پچاسی کروڑ) احمد آباد میں خرچ کئے جارہے ہیں۔

گجرات کی سڑکوں پر ٹرمپ اور مودی کے بڑے بڑے ہورڈنگس لگائے گئے ہیں۔ تصویر : پی ٹی آئی
گجرات کی سڑکوں پر ٹرمپ اور مودی کے بڑے بڑے ہورڈنگس لگائے گئے ہیں۔ تصویر : پی ٹی آئی

 ٹرمپ کا دورۂ ہند
 ٹرمپ کے دورہ ٔ ہند کی تیاریوں کی خبریں نئی دہلی کے جوش و خروش کی غماز ہیں۔ گجرات میں وہ صرف تین گھنٹہ ٹھہریں گے مگر اس کیلئے ۸۵۰؍ ملین روپے (پچاسی کروڑ) احمد آباد میں خرچ کئے جارہے ہیں۔ اس انکشاف پر ایسا لگ رہا ہے جیسے ملک میں معاشی مندی کی ساری خبریں جھوٹی ہوں، ہماری صنعتی سرگرمیاں ٹھپ نہ ہوں، زراعت کا شعبہ مسائل سے نبردآزما نہ ہو، برآمدات کے لالے نہ پڑے ہوں اور بے روزگاری تو بالکل ہی نہ ہو۔
 جو خرچ ہورہا ہے اس کی تفصیل بھی دلچسپ ہے جس میں ایک ایسی دیوار کا تذکرہ شامل ہے جو جھوپڑپٹیوں کو چھپانے کیلئے تعمیر کی جارہی ہے۔ شاید، یہ اپنی نوعیت کی پہلی دیوار ہے۔ ویسے، آنے والے مہمان کا  دیوار سے گہرا رشتہ ہے۔ صدر بننے کے بعد ٹرمپ نے میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم اُس دیوار اور اِس دیوار میں فرق ہے۔ وہ میکسیکو کے لوگوں کا غیر قانونی داخلہ  روکنے کیلئے پلان کی گئی۔ یہ اپنے ہی لوگوں اور اُن کے گھروں کی غربت کو چھپانے کیلئے تعمیر ہوئی ہے۔ جس اسٹیڈیم کا افتتاح ٹرمپ کے ہاتھوں سے ہونا ہے اُس کے آس پاس کے جھوپڑا باسیوں کو بھی ہٹایا گیا ہے۔ سڑکوں کو چوڑا کرنے، غیر قانونی قبضے ہٹانے اور شہر کو خوبصورت بنانے جیسے اقدامات بھی جنگی پیمانے پر جاری ہیں۔ محسوس ہورہا ہے جیسے اس وقت ہمارے ملک میں ٹرمپ اور اُن کی بیگم کے استقبال کی تیاریوں کے علاوہ کوئی اور کام نہیں ہے۔ 
 سربراہان مملکت کے بیرونی دورے عموماً تجارتی و کاروباری معاہدوں کے سلسلے میں ہوتے ہیں۔ سیروتفریح کیلئے وقت نکال لیا جائے یا کسی جگہ کوئی افتتاح اُن کے ہاتھوں سے کروالیا جائے تو اُس کی حیثیت ضـمنی ہوتی ہے مگر اہم چیز معاہدے ہوتے ہیں۔ یہاں بھی کوئی تجارتی یا کاروباری معاہدہ ہورہا ہوتا تو خرچ بھی جائز معلوم ہوتا اور جوش و خروش بھی۔ ٹرمپ تو ہندوستان کا ناطقہ بند کرنے پر تُلے رہے۔ یہ نہ ہوتا تو ہند امریکہ مذاکرات جاری رہتے۔ ۲۰۱۶ء میں اُنہوں نے ہندوستان کو ’’ٹیریف کنگ‘‘ کہا تھا۔ یہ طنزیہ خطاب تھا۔ اب ہندوستان روانگی سے پہلے ہی اُنہوں نے واصح کیا ہے کہ ’’میں بہت بڑا معاہدہ کرنا چاہتا ہوں مگر یہ (امریکی صدارتی) الیکشن سے پہلے ممکن نہیں لگتا۔‘‘ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ’’ ہندوستان ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا لیکن مَیں وزیر اعظم مودی کو پسند کرتا ہوں۔‘‘  اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ چھوٹے موٹے معاہدے بھلے ہی ہوجائیں، ٹرمپ جیسے بڑے ملک کے اتنے بڑے صدر کے دورے سے ہندوستان کو کچھ مل نہیں رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ گلے ملنے، مصافحہ کرنے، افتتاح کرنے، گھومنے پھرنے اور چند ظہرانوں اور عشائیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔ تصویریں کھینچ لی جائینگی اور ان تمام سرگرمیوں کیلئے دو دِن بھی کم محسوس ہوں گے۔ 
 ہمارا فائدہ ہو یا نہ ہو، ٹرمپ جیسا کائیاں صدر خود فائدہ ضرور حاصل کرنا چاہے گا اور یہ دورہ بھی خالی از مفاد نہیں ہے۔ صدارتی الیکشن کی تیاریاں شروع ہوا چاہتی ہیں۔ امریکہ میں ہندوستانی برادری کی اپنی حیثیت اور طاقت ہے جو ۴۴۔۴۵؍ لاکھ نفوس سے کم پر مشتمل نہیں ہے۔ یہ تعداد کسی بھی دوسرے ملک میں موجود ہندوستانیوں کی مجموعی آبادی سے زیادہ ہے چنانچہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا نمبر امریکہ کے بعد ہی آتا ہے۔ ٹرمپ اسی ہندوستانی برادری کے ووٹ ہتھیانا چاہتے ہیں۔ اُن کے بیان ’’بڑا معاہدہ الیکشن کے بعد ہی ہوگا‘‘ میں یہ پیغام مضمر  ہے کہ پہلے اپنے شہریوں کے ووٹ دلوائیے تب کوئی معاہدہ کریں گے۔ 
 اس دورہ سے ہم ہندوستانیوں کا ایک فائدہ ضرور ہوا۔ یہ معلوم ہوا کہ ہمارے درمیان ایک شخص ایسا ہے جو ٹرمپ کو بھگوان مان کر اُن کی پوجا کرتا ہے۔ کرشنا نامی اس شخص کا تعلق تلنگانہ سے ہے۔ ٹرمپ دورہ پر نہ آتے تو یہ خبر مشتہر نہ ہوتی۔

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK