Inquilab Logo

ٹرمپ کی ہار اور ہندوستان میں کسانوں کی تحریک

Updated: January 17, 2021, 2:02 PM IST | Dr Mushtaque Ahmed

امریکہ میں ٹرمپ حامی میڈیا نےسچائی چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے ان کے غیر جمہوری عمل سے پوری دنیا واقف ہوگئی ۔ اسی طرح کسانوں کی تحریک کو ہماری قومی میڈیا نے جس تعصبانہ انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے وہ بھی کہیں نہ کہیں ایک غیر جمہوری عمل ہے مگر میڈیا کے دیگر ذرائع سے کسانوں کی تحریک کو عالمی حمایت حاصل ہو گئی ہے

Capitalo Hill - Pic : PTI
کیپٹل ہل پر حملہ ۔ تصویر : پی ٹی آئی

اکیسویں صدی کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب کی صدی قرار دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس انقلاب کی وجہ سے شعبۂ حیات کا ہر ایک حصہ متاثر ہوا ہے لیکن خصوصی طورپر ذرائع ابلاغ کی دنیا ہی بدل گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہر ایک شخص کی مٹھیوں میں دنیا سمٹ آئی ہے اور کوئی بھی خبر چھپائے نہیں چھپتی ہے۔ اگر مین اسٹریم کی میڈیا نظر انداز کرتی ہے تو سوشل میڈیا کے ذریعہ منٹوں میں وہ خبر پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے ۔ جہاں کہیں حکومت کی جانب سے خبروں کو دبانے کی کوشش ہوتی ہے وہاں سے بھی خبریں عام ہو جاتی ہیں کہ اب حکومت بھی ذرائع ابلاغ کی پھیلتی دنیا پر قابو پانے میں ناکام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے سینٹ ہال پر ٹرمپ کے حامیوں کا حملہ ہو کہ ہندوستان میں گزشتہ ۵۰؍ دنوں سے کسانوں کی تحریک ۔امریکہ میں ٹرمپ حامی میڈیا نے حقیقت کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے ٹرمپ کے غیر جمہوری عمل سے پوری دنیا واقف ہوگئی ہے۔ اسی طرح کسانوں کی تحریک کو ہماری قومی میڈیا نے جس تعصبانہ انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے وہ بھی کہیں نہ کہیں ایک غیر جمہوری عمل ہے مگر سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے کسانوں کی تحریک کو عالمی حمایت حاصل ہو گئی ہے ۔یہ اچھی بات ہے کہ حکومت کی جانب سے کسانوں کے لیڈران سے گفت وشنید جاری ہے اور اب عدالت عظمیٰ نے بھی اس میں مداخلت کی ہے ۔یہ اور بات ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کے ثالثی پہل کو کسانوں کے بیشتر لیڈروں نے مسترد کردیاہے۔ 
 بہر کیف! امریکہ میں ٹرمپ کی ہٹ دھرمی ہو کہ ہندوستان میں کسانوں کی تحریک ، انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سہولتوں کی وجہ سے پوری دنیا میں سرخیاں حاصل کررہی ہیں ۔ امریکہ ایک قدیم جمہوری ملک ہے وہاں ۱۷۷۶ء سے جمہوری طرزِ حکومت قائم ہے اور پوری دنیا کیلئے مثالی جمہوریت رہی ہےلیکن حالیہ صدارتی انتخاب میں ٹرمپ نے جس طرح اپنی شکست کو قبول کرنے سے انکار کیا اور اپنی جذباتی اشتعال انگیز تقاریر اور ویڈیو کے ذریعہ اپنے حامیوں کو مشتعل کیا، اس کے نتیجے میں سینٹ ہال پر حملہ اور ۴؍ مظاہرین کی اموات نے امریکہ کی شبیہ کو مسخ کردیا ہے اور پوری دنیا میں امریکہ کی شان کو بٹّہ لگا ہے۔ اگرچہ اب بھی ٹرمپ اپنے آمرانہ رویے پر قائم ہیں اور جان بائیڈن کو صدارتی کرسی سونپنے سے انکار کر رہے ہیں مگر امریکہ ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں ٹرمپ جیسے چالباز شخص کے خلاف مواخذہ کی تحریک شروع ہو گئی ہے اور سینٹ میں اس کی شکست بھی طے ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ۲۰؍ جنوری کو جان بائیڈن صدر کا عہدہ سنبھال لیں گے اور اس کے بعد ہی تحریک مواخذہ کانتیجہ سامنے آئے گا لیکن اس تحریک کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر ٹرمپ کی شکست ہوتی ہے تو وہ پھر کبھی صدارتی انتخاب میں امیدوار نہیں ہو سکتے۔ اب جبکہ پوری دنیا میں ٹرمپ کے خلاف ماحول بن گیا ہے تو امریکہ میں ان کے حامیوں کے اندر بھی تبدیلی آئی ہے بالخصوص کانگریس کے ۱۰؍ ممبران جو ٹرمپ کے حامی تھے ،انہوں نے بھی ان کے خلاف ووٹ کیا ہے ۔ اس سے یہ امید بڑھ گئی ہے کہ سینٹ میں ٹرمپ کی شرمناک شکست ہوگی۔ 
 جان بائیڈن کا صدر منتخب ہونا اور ٹرمپ کا جانا یہ تو انتخابی عمل کا نتیجہ ہے لیکن ٹرمپ کے خلاف جس طرح کی ماحول سازی امریکہ میں ہوئی ہے اور پوری دنیا میں اس کے خلاف رائے عامہ قائم ہوئی ہے اس میں امریکہ کے انصاف پسند عوام کے ساتھ ساتھ وہاں کی غیر جانب دار میڈیا کا بھی اہم کردار ہے ۔ میڈیا نے جس طرح ٹرمپ کے غیر جمہوری عمل کو نشانہ بنایا اور اس کی تنقید کی اس سے امریکہ کے عوام میں ایک فکر پیدا ہوئی کہ وہ اپنے جمہوریت کی تاریخ کو مسخ ہونے سے بچائیں گے۔یہی وجہ ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ میں ٹرمپ کے حامیوں کی صف میں شگاف پیدا ہوگیا ہے اوراب بائیڈن  کے سیاسی مخالفین بھی اس کی حمایت میں کھڑے ہیں ۔ اس سے پوری دنیا میں یہ پیغام عام ہوا ہے کہ امریکہ کے عوام کے اندر حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہو ا ہے اور وہ اپنے ملک کے جمہوری اقدار کی حفاظت کیلئے سینہ سپر ہیں۔اس لئے جرمنی کی چانسلر کو یہ کہنا پڑا ہے کہ ٹرمپ نے جس انداز سے جمہوریت کے تقاضوں کی پامالی کی ہے، اگر امریکہ کے عوام جمہوریت پسند نہیں ہوتے تو شاید ٹرمپ بائیڈن کو صدارت کی کرسی تک پہنچنے نہیں دیتے۔ اسلئے امریکہ کے عوام سے پوری دنیاکے جمہوریت پسند اور انصاف پسند لوگوں کا حوصلہ بڑھا ہے اورایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا ہے کہ امریکہ میں صرف جمہوریت ہی نہیں ہے بلکہ وہاں کے لوگ باگ کا مزاج بھی جمہوری ہے ۔ورنہ حالیہ ایک ماہ کے اندر جس طرح ٹرمپ کی مقبولیت کاگراف گرا ہے اگرجمہوریت کی جڑیں مضبوط نہیں ہوتیں تو شاید امریکہ کی سماجی اور سیاسی تصویر کچھ اور ہی ہوتی۔
  جہاں تک سوال ہندوستان میں کسانوں کی تحریک کا ہے تو کسانوں کا دلّی کے آس پاس ڈیرہ ڈالنا کسان تحریک کی مضبوطی کا اعلامیہ ہے ۔ پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کے ذریعہ شروع کی گئی تحریک کو جس طرح شروع میں ناکام کرنے کی کوشش کی گئی اور ہماری قومی میڈیا کے ذریعہ ان کی حالتِ زار کو نظر انداز کیا گیا۔ اس سے تو ایسا لگا تھا کہ کسانوں کی تحریک ناکام ہو جائے گی لیکن سوشل میڈیا ، فیس بک اور چند انصاف پسند پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے اس تحریک کوعالمی شناخت عطا کردی ہے اور اب پوری دنیا کیلئے یہ تحریک قابلِ توجہ بن گئی ہے۔واضح ہو کہ پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کے اندر نصف صدی سے جذبۂ تحریک کا چراغ روشن ہے ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بے زمین کسان جسے پنجاب اور ہریانہ میں مزارع کسان کہا جاتا تھا، انہوں نے ۱۹۴۲ء سے ۱۹۵۲ء تک مسلسل وہاں کے راجائو ں اور مہاراجائوں کے خلاف تحریک چلائی اور نتیجہ یہ ہوا کہ جاگیر داروں کی ۱۸؍ لاکھ ایکڑ زمین ان بے زمین کسانوں میں تقسیم ہوئی ۔ غرض کہ ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں کے خون میں جذبۂ تحریک شامل ہے اور انہیں کسی بھی دبائوکے ذریعہ ہٹایا نہیں جا سکتا بلکہ گفت وشنید اور صلح ہی ایک راستہ ہے کہ وہ اپنے گھر کو واپس لوٹیں گے۔ دہلی کے آس پاس کسانوں کے جتھوں میں نہ صرف ۹۲؍ سال کے کرپال سنگھ ویر شامل ہیں بلکہ مانسا ضلع کی رنویر کور اپنے چھ سال کے بچہ کے ساتھ اس تحریک میں شامل ہے اور ا ب یہ تحریک قومی شکل اختیار کر چکی ہے، اسلئے کہ ہندوستان میں بھی جمہوریت کی جڑیں مستحکم ہیں اور لاکھ کوششوں کے باوجود بھی آمرانہ رویے کو قبولیت نہیں ملی ہے۔ جس طرح امریکہ میں جمہوریت کے پاسداروں نے ٹرمپ کو حاشئے پر کھڑا کردیا ہے اسی طرح کسان تحریک کی مخالفت کرنے والوں کو بھی شکست فاش کا منہ دیکھنا پڑ سکتا ہے کیوں کہ یہ تحریک اب صرف اور صرف کسانوں کی تحریک نہیں رہ گئی ہے بلکہ اس تحریک کا دائرہ بڑھتا جا رہاہے۔
 اب یہ تحریک سرکاری اور غیر سرکاری منڈیوں کے سوالوں سے اوپر اٹھ کر دیگر مسائل کی طرف رخ کر تی جا رہی ہے جو حکومت وقت کیلئے دردِ سر ثابت ہو سکتا ہے۔اسلئے اب اس مسئلے پر حکمراں جماعت ہو یا حزب اختلاف کی جماعتیں سبھوں کو سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ کسانوں کی تحریک پر سیاست ملک کی سالمیت کیلئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK