Inquilab Logo

کسانوں کو مہنگی فصلوں کی طرف موڑئیے

Updated: September 28, 2020, 8:32 AM IST | Bharat Jhunjhunwala

مہنگی فصلیں وہ ہیں جن پر اقل ترین قیمت تو نہیں ملتی مگر جن کی ڈیمانڈ ہے خاص طور پر عالمی بازار میں۔ ہمارے کسانوں نے انہی اشیاء پر انحصار کرلیا ہے جن کی اقل ترین قیمت ملتی ہے تاکہ قیمتوں کے اتار چڑھاؤ سے نقصان نہ اُٹھانا پڑے۔

Vegetable Market - Pic : INN
سبزی مارکیٹ ۔ تصویر : آئی این این

زرعی آرڈیننس کے مطابق اب زرعی پیداوار ’منڈی‘ میں لاکر  فروخت کرنا لازمی نہیں ہوگا چنانچہ یہ گنجائش پیدا کی گئی ہے کہ بڑی کمپنیاں کسانوں سے براہ راست رابطہ قائم کریں اور مجموعی پیداوار پہلے سے طے شدہ قیمت پر خریدیں۔ اس سے یقینی طور پر وہ تاجر متاثر ہوں گے جو منڈیوں پر انحصار کرتے اور اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔ یہ صورتحال خردہ بیوپار میں ای پورٹل کے ذریعہ داخلے جیسی ہے۔ محلوں اور رہائشی علاقوں کی کرانہ دکانیں اب بھی جاری ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ چند خدمات بھی جاری رہتی ہیں۔ مثلاً مال کی فوری فراہمی اور مال کی تبدیلی۔ یہ خدمات ای ٹریڈرس فراہم نہیں کرتے۔ میرا خیال ہے کہ بالکل یہی معاملہ زرعی اُمور میں بھی ہوگا کیونکہ بڑی کمپنیوں کا داخلہ بھی منڈیوں پر تالہ نہیں ڈال سکے گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ منڈیاں بھی بعض بنیادی خدمات فراہم کرتی ہیں مثلاً کسانوں کی فراہم کردہ زرعی پیداوار کو چننا، صاف کرنا،الگ الگ مقدار میں اُسے باندھنا اور پھر کسی مخصوص گاہک کو فراہم کرنا۔ اگر ایک ٹریڈر اَلور سے ٹماٹر خریدکر اسے کانپور میں سپلائی کرتا ہے تو یہ خدمت ای ٹریڈر فراہم نہیں کرسکتا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ منڈیاں ختم نہیں ہوں گی البتہ کسانوں کو اختیار ہوگا کہ وہ چاہیں تو بڑی کمپنیوں سے براہ راست معاہدہ کریں۔ اُن کا یہ اختیار یا آزادی جاری رہنی چاہئے، اسے سلب نہیں کیا جانا چاہئے۔
 حکومت نے بعض اجناس مثلاً دالوں اور خوردنی تیل کو اشیائے ضروریہ کی فہرست سے منہا کردیا ہے۔ اب یہ اشیاء ضروری اشیاء کی فہرست میں نہیں ہوں گی جبکہ اس قانون کے مطابق ٹریڈرس بعض اجناس، مخصوص مقدار سے زیادہ ذخیرہ نہیں کرسکتے۔ اب مذکورہ بالا ترمیم کی وجہ سے ٹریڈس ان اشیاء کا جتنا بھی ذخیرہ کرنا چاہیں کرسکیں گے۔ مگر اس کا منفی اثر پڑے گا۔ مذکورہ اشیاء کو اشیائے ضروریہ میں اس لئے شامل کیا گیا تھا کہ اس قانون سے پہلے بیوپاری ان اشیاء کو بڑی مقدار میں خریدتے، اُنہیں ذخیرہ کرتے، مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کرتے اور پھر قیمت بڑھا دیتے تھے، اس طرح منافع خوری کاکاروبار خوب پھلتا پھولتا۔ اس کا خمیازہ کسانوں کو بھگتنا پڑتا تھا جو کم قیمت پر مال بیوپاریوں کو فروخت کرچکے ہوتے تھے اور صارفین کو بھی، جو مصنوعی قلت کے زیر اثر بڑھائی گئی قیمت ادا کرنے پر مجبور ہوتے تھے۔ منافع خوری کے مقصد سے ذخیرہ اندوزی کرنے کے اسی رجحان کے سبب حکومت نے ان اشیاء (دالیں اور دیگر زرعی اجناس) کو اشیائے ضروریہ میں شامل کیا تھا تاکہ مارکیٹ کے اس دانستہ اتار چڑھاؤ کو روکا جاسکے۔ ذخیرہ اندوزی کے معاملے میں بیوپاری زیادہ فعال اور چاق و چوبند ہوا کرتے تھے بہ نسبت فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کے۔ اب جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس میں ضروری ہے کہ بیوپاریوں پر ذخیرہ شدہ مال کی تفصیل بتانے کی شرط عائد کی جائے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت کو فوڈکارپوریشن آف انڈیا کو یہ ہدایت دینی ہوگی کہ اس کے افسران و کارکنان بیوپاریوں کے ذریعہ ذخیرہ شدہ مال کو اپنے طور پر بھی دیگر گاہکوں کو فراہم کریں جنہیں کم مقدار میں مال درکار ہوگا۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ حکومت قیمتوں کو بے ہنگم اضافے سے روک سکے گی اور فوڈ کارپوریشن غذائی اجناس کے بڑے ذخیروں کی حفاظت اور دیکھ بھال میں پائی جانے والی خامیوں سے بہتر طور پر نمٹ سکے گا۔ 
 اس سے آگے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ زرعی پیداوار کی اقل ترین قیمت (منی مم سپورٹ پرائس۔ایم ایس پی) گیہوں، چاول اور گنا جیسی پیداوار ہی کو حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے کسانوں نے ان اشیاء کی پیداوار بڑھا دی ہے کیونکہ انہیں اس پر اچھی قیمت ملنے کا یقین ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے کسانوں کی توجہ دیگر فصلوں کی جانب سے ہٹ گئی ہے جن سے اور بھی زیادہ قیمت مل سکتی تھی مثلاً سبزی ترکاری، پھل، لکڑا، پھول اور بعض خاص اقسام کے پھول وغیرہ۔ ان کی جانب سے توجہ اس لئے ہٹی کہ ان کی پیداوار پر اقل ترین قیمت کی ضمانت نہیں ہے۔ 
 اسی لئے میرا کہنا ہے کہ ہمیں اپنے کسانوں کو ترغیب دینی چاہئے کہ وہ اقل ترین قیمت والی پیداوار کے ساتھ ساتھ اُن اشیاء کی پیداوار کی جانب بھی بڑھیں جن پر اقل ترین قیمت تو نہیں ملے گی مگر ان کی اچھی قیمت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کسانوں نے اقل ترین قیمت والی پیداوار پر اکتفا اور انحصار کرلیا ہے کیونکہ انہیں اس بات کی گیارنٹی ملتی ہے کہ اقل ترین قیمت تو مل ہی جائے گی۔ اس لئے وہ اُن اشیاء کی طرف نہیں بڑھتے جن کی بہت اچھی قیمت تو مل سکتی ہے مگر وہ ان پر توجہ نہیں دیتے کیونکہ ان کے پاس قیمت کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ انٹرنیشنل مارکیٹ میں طرح طرح کے پھولوں، نامیاتی غذاؤں اور ایسی سبزی ترکاریوں کی بہت اچھی قیمت ملتی ہے جو سبزی ترکاری کی ساخت،ان کی شباہت، ان کا رنگ، ان کی خوشبو وغیرہ کو دھیان میں رکھ کر مطلوبہ تقاضوں پر پورا اُترنے والی سبزیاں اگائی جاتی ہیں۔ انگریزی میں ان سبزیوں کو ڈیزائنر ویجی ٹیبل کہا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں کشمیر سے کیرالا تک الگ الگ اقسام کے موسم اور ماحولیاتی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ ہم اس قابل بن سکتے ہیں کہ سبزی ترکاریوں،پھلوں اور پھولوں کی عالمی منڈی بن سکیں۔ قیمت میں کمی بیشی کے خطرہ سے نمٹنے کیلئے پیداوار کا بیمہ بھی کرایا جاسکتا ہے تاکہ عالمی قیمتوں میں کمی واقع ہو تو ممکنہ نقصان سے بچا جائے۔ حکومت کو زرعی تکنالوجی میں پیش قدمی کیلئے تحقیقی پروگراموں کی سرپرستی اور کفالت کا بیڑا بھی اُٹھانا چاہئے۔ روایتی اشیاء کی پیداوار کے ساتھ ساتھ اگر کسانوں کو پیرو، آم، کافی اور چائے کی نامیاتی پیداوار پر توجہ مرکوز کرنے کیلئے کہا جائے تو اس سے بھی کافی فائدہ ہوسکتا ہے۔ ایسی پیداوار برآمد کرنے کیلئے پرائیویٹ ایکسپورٹرس کو پُرکشش سبسیڈی بھی دی جاسکتی ہے ۔ قصہ مختصر یہ کہ ہونے کو بہت کچھ ہوسکتا ہے اگر حکومت دلچسپی لے اور ان چیزوں پر اصرار کرے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK