Inquilab Logo

اراکین اسمبلی کی پٹائی کے دو واقعات

Updated: November 24, 2022, 1:54 PM IST | Mumbai

کرناٹک میں عوام نے بی جے پی کے ایک رکن اسمبلی کو بُری طرح پیٹا حتیٰ کہ اُس کے کپڑے پھاڑ دیئے۔ یہ خبر آپ تک پہنچ چکی ہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر :آئی این این

 کرناٹک میں عوام نے بی جے پی کے ایک رکن اسمبلی کو بُری طرح پیٹا حتیٰ کہ اُس کے کپڑے پھاڑ دیئے۔ یہ خبر آپ تک پہنچ چکی ہے۔ ریاست کے شہر چکمگلور میں رونما ہونے والے اس واقعے میں بی جے پی کے رکن اسمبلی کمارا سوامی کو اس لئے پیٹا گیا کہ اِس ضلع کے لوگ ہاتھیوں کے حملے سے پریشان تھے اور اُنہیں نہ تو حکام سے مدد مل رہی تھی نہ ہی اپنے نمائندے کی جانب سے کوئی تشفی بخش جواب۔ اسی دوران عام آدمی پارٹی کے ایک رُکن اسمبلی گلاب سنگھ یادو کو بھی ایسی ہی برہمی اور برگشتگی کا سامنا کرنا پڑا اور اُن کی بھی پٹائی ہوئی۔ دہلی کے اِس واقعہ میں پٹائی کرنے والے عوام نہیں تھے بلکہ عام آدمی پارٹی کے کارکنان تھے جو ٹکٹوں کی تقسیم میں مبینہ بدعنوانی سے سخت ناراض تھے۔  ہم اِن دونوں واقعات کی تائید نہیں کرتے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ ناراضگی چاہے جتنی ہو، ہاتھ اُٹھانا، پٹائی کرنا اور اس طرح قانون اپنے ہاتھ میں لینا نہایت غلط رجحان ہے۔ یہ آئین اور قانون کا ملک ہے جس میں ہر ہر قدم پر آئین اور قانون کی بالادستی ملحوظ رہنی چاہئے۔کسی بھی شہری کو پیٹنا درست نہیں خواہ وہ عام آدمی ہو، کوئی افسر ہو یا کونسلر، کارپوریٹر، ایم ایل اے اور ایم پی۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ عوامی نمائندے اپنی ذمہ داریوں کا دوسروں سے زیادہ خیال رکھیں کیونکہ وہ ایک اہم منصب پر فائز ہوتے ہیں۔ اگر وہ اس منصب کے تقاضوں کو پورا نہ کریں تو عوام میں برہمی کا پیدا ہونا غیر فطری نہیں۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق عوام قانون اپنے ہاتھ میں لے لیں تو یہ عمل غلط تو قرار پائے گا مگر بے جواز نہیں۔ مذکورہ دو واقعات میں جن دو افراد کی پٹائی ہوئی وہ دونوں اراکین اسمبلی ہیں مگر کرناٹک میں اُن کی پٹائی کرنے والے عوام ہیں اور دہلی میں سیاسی کارکنان۔ اِن کارکنان کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ بدعنوانی کے اُن کے الزام میں کتنی صداقت ہے۔ اگر صداقت ہو تب بھی چونکہ یہ سیاسی معاملہ ہے اس لئے اِس کی اہمیت کم ہوجاتی ہے بہ نسبت چکمگلور واقعہ کے۔  
 اس کے پیش نظر ہم تو یہ اُمید کرنا چاہیں گے کہ چکمگلور کے کمارا سو امی ہی نہیں، ہر ریاست کا ہر رُکن اسمبلی عوامی مسائل کے حل کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرے اور اُنہیں فوراً سے پیشتر حل کروائے مگر اِس اُمید کے پورا ہونے کی اُمید کم از کم ہمیں تو نہیں ہے۔ اکثر عوامی نمائندے عوامی مسائل کے حل پر کم اور دیگر اُمور پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جس کی وجہ سے اُن سے کئی جرائم بھی سرزد ہوتے ہیں، اُن کی شبیہ متاثر ہوتی ہے اور عوام اُن سے بدظن ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں پیش کی گئی عدالتی ثالث ایڈوکیٹ وجے ہنساریہ اور ایڈوکیٹ اسنیہا کلتا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اراکین اسمبلی اور اراکین پارلیمان کے خلاف داخل کئے جانے والے کیسیز کی تعداد پہلے کے مقابلے میں کافی بڑھ گئی ہے۔  رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۸ء میں اراکین اسمبلی اور اراکین پارلیمان کے خلاف داخل کئے گئے مقدمات ۴۱۲۲؍ تھے جو ۲۰۲۱ء میں ۴۹۷۴؍ ہوگئے جبکہ رواں سال میں اب تک ۵۰۹۷؍ کیسیز درج ہوچکے ہیں۔ اِن میں عائد کئے گئے الزامات درست ثابت ہوئے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اراکین اسمبلی و پارلیمان خود بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے سے باز نہیں آتے۔ جب یہ صورت حال ہو تو وہ کس منہ سے عوام سے اُمید کرینگے کہ وہ قانون کی پاسداری کریں؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK