Inquilab Logo

دوتصویریں، دوکہانیاں

Updated: February 23, 2020, 2:28 PM IST | Prof Syed Iqbal

ایک تصویر ہندوستانی سائنسدانوں کی بنائی ہوئی ہے جسے خلا میں بھیج کر دنیا کو بتانا ہے کہ ہم بھی ’ترقی یافتہ‘ ہیں اور دوسری تصویر آسام کی ایک عورت حلیمہ خاتون کی ہے جو ۱۱؍ سال ڈٹینشن کیمپ میں رہ کر آئی ہے

آسام کی ستم رسیدہ خاتون حلیمہ اوران کا بیٹا جبکہ دائیں جانب کروڑوں روپوں سے تیار مصنوعی خاتون وایومترا
آسام کی ستم رسیدہ خاتون حلیمہ اوران کا بیٹا جبکہ دائیں جانب کروڑوں روپوں سے تیار مصنوعی خاتون وایومترا

 یہ تصویر جو آپ دیکھ رہے ہیں ایک مشینی خاتون کی ہے۔ یہ خاتون دراصل ایک روبوٹ ہے جو ہماری انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن کی تخلیق کردہ ہے۔ اسرونے اسے ایک پیارا نام بھی دیا ہے ’وایومترا‘ جس کے معنی ہیں ’خلائی دوست۔‘ اس خلائی دوست کو اسلئے تیار کیا گیا ہے کہ۲۰۲۲ء میں جب ہم کسی گوشت پوست کے ہندوستانی کو خلا میں بھیجیں تو خلائی سفر میں اسے کوئی مشکل نہ ہو۔ دوسرے لفظوں میں وایومترا کو خلا میں بھیج کر اسرو خلائی سفر کی ساری حقیقتوں سے واقف ہونا چاہتا  ہے۔ اس روبوٹ کو ایک نوجوان خاتون کی صورت دی گئی ہے تاکہ دنیا کو بتایا جاسکے کہ ہم خواتین کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ ویسے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اس دنیا میں کسی سے کچھ چھپا نہیں۔ دنیا نے’ نربھیا‘ کا المناک سانحہ میں بھی دیکھا ہے اور یونیورسٹی کی طالبات کو پولیس کی لاٹھیاں کھاتے بھی دیکھا ہے۔ اس کے باوجود ہم نے روبوٹ کو خاتون کی شکل دی ہے۔تصویر میں اس کا سر اور دو ہاتھ نظرآتے ہیں۔ اس کا دھڑبنایا ہی نہیں گیا ہے، اسلئے اسے کرسی پر بیٹھا دکھایاگیا ہے۔ لمبے بالوں والی اور ساری میں ملبوس وایومترا کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ بھی ہے۔ ویسے یہ محترمہ چل پھر سکتی ہیں، کیبن میں رکھی اشیاء کو ایک جگہ سے اٹھاکر دوسری جگہ رکھ سکتی ہیں اور زمین سے جو احکام صادر کئے جائیں، ان پر بے چوں وچرا عمل بھی کرسکتی ہیں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ وایومترا کے توسط سے مستقبل کے خلائی سفر کا اچھی طرح سے مشاہدہ کیاجاسکے تاکہ جب خلائی راکٹ میں بیٹھا انسان اس طویل سفر پر روانہ ہوتو ہمارے پاس اس سفر کی ساری معلومات محفوظ ہوں۔ وایومترا کو اتنا ’ہنرمند‘ بنایا گیا ہے کہ وہ بیک وقت دوزبانیں بول سکتی ہیں اور خلائی سفر میں پائلٹ کیلئے ایک اچھی دوست ثابت ہوسکتی ہے۔ فی الوقت موصوفہ کا بنیادی کام خلا کے موسم کا حال ، ریڈئیشن کی سطح اور راستے کی ہر چیز کا مشاہدہ کرکے اسے زمین پر بیٹھے سائنس دانوں کو رپورٹ کرنا ہے۔ چونکہ روبوٹ ہونے کی نسبت سے یہ سارے کام مشینی انداز میں رپورٹ کر دے گی، اسلئے بنگلور میں اسے عوام کے سامنے پیش کرکے اِسرو نے اپنے منصوبے واضح کردیئے ہیں۔ ویسے وایومترا ایسا روبوٹ کوئی پہلی بار خلا میں نہیں گیا۔ پچھلے سال امریکہ نے Ripley نام کی روبوٹ بھیجا تھا اور روس (Fedor) اور جاپان (Kirobe) بھی اپنے اپنے روبوٹ خلاؤں میں بھیج چکے ہیں۔
  ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ جس ملک میں غربت اور جہالت اس قدر عام ہو،وہاں قومی وسائل کو خلائی سفر پر خرچ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔  نہ ہمیں یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے خلاء میں گھربنالئے اور مریخ میں بستیاں بسالیں۔ ہمیں تو اپنے کروڑہا عوام کیلئے بہتر زندگی کے منصوبے بنانے کی ضرورت ہے۔ ہماری فوری ضرورتیں اسکول اوراسپتال ہیں،سستے رہائشی مکانات  اور صاف ستھری سڑکیں ہیں۔ پینے کا صاف پانی اور بجلی ہے۔ کیا ہمارے لئے لاکھوں نوجوانوں کی بیروزگاری اور کسانوں کی پریشانیوں کا ازالہ کوئی ترجیح نہیں؟ ان نمائشی منصوبوں پر کروڑ ہا روپے خرچ کر کے اور دنیا میں اپنی خلائی فتوحات کا ڈنکا بجاکر ہم کون سا تیرمارلیں گے؟ کیا ہمیں جھوپڑوں میں رہنے والی اس غریب آبادی کا خیال نہیں آتا جو برسہا برس سے چند لقموں پر جی رہی ہے ؟ ان بوڑھوں کا خیال نہیں آتا جو کسی سوشل سیکوریٹی کے بغیر بے یارومددگار جیتے ہیں؟ ان عورتوں کا خیال نہیں آتا جو غیر محفوظ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں؟ اورہم ہیں کہ ایک ویوامترا بناکر خوش ہورہے ہیں۔ 
  اب ایک نظر حلیمہ خاتون کی تصویر پر ڈال لیں۔ اس خاتون کا کوئی دوست نہیں ، نہ خلا میں نہ زمین پر۔ اس بدقسمت خاتون نے آسام کے ایک غریب گھرانے میں آنکھیں کھولی اور اسی گاؤں میں پلی بڑھی جہاں اس کے غریب   ماں باپ کھیتی کرتے تھے۔ زندگی بھر وہ گاؤں کے اوبڑ کھابڑ  راستوں پر چلتی ہی۔ اسے یاد نہیں کہ اس نے اپنے گاؤں سے باہر کی دنیا کبھی دیکھی ہو۔ دن بھرگھر کے چھوٹے موٹے کام کرنا ، باورچی خانے  میں ماں کا ہاتھ بٹانا اور چھوٹے بھائی بہنوں کا خیال رکھنا ، یہی اس کی زندگی تھی۔ جب حلیمہ جوان ہوئی تو ہر باپ کی طرح اسے بھی اپنی بیٹی کی شادی کی فکر ہوئی اور باپ نے یہاں وہاں مناسب رشتہ ڈھونڈھنا شروع کردیا۔ اتفاق سے پڑوس کے گاؤں میں ایک سیدھا سادا لڑکا نظر آگیا اور حلیمہ خاتون کی شادی کردی گئی۔ یہ پہلا موقع تھا جب وہ گاؤں سے باہر نکلی تھی۔ سسرال کا گاؤں بھی ویسا ہی تھا۔ اتنا ہی غریب اور پسماندہ۔ یہاں کے راستے بھی اسے اجنبی نہیں لگے۔ دھول یہاں بھی اڑتی تھی، پتھر یہاں بھی چبھتے تھے۔ فرق تھا تو صرف اتنا کہ یہاں ماں باپ کے بجائے شوہرتھا جو اسے چاہتا تھا اوراس کے دکھ درد میں شریک تھا۔ عصام الدین  کے پاس زمین نہیں تھی۔ وہ گاؤں میں ہر طرح کے چھوٹے موٹے کام کرکے تھوڑا بہت کمالیتا تھا۔ اتفاق سے اسے سرکاری آفس میں چپراسی کی نوکری مل گئی جس سے گھر میں تھوڑی بہت خوش حالی نظرآنے لگی تھی۔
  آسام میں رہنے والے ان غریبوں کو قومی سیاست کی اتھل پتھل کا اندازہ نہیں تھا۔ نہ انہیں یہ خبر تھی کہ کل ان  کے جیسے مسلمانوں کو بنگلہ دیشی کہہ کر  غیر ملکی قراردیاجائے گا۔  اچانک ایک دن عصام الدین کے گھر نوٹس آئی جس میں اس کی بیوی حلیمہ خاتون کا نام لکھا تھا۔ اس نے آفس کے ایک صاحب سے وہ نوٹس پڑھوائی تو پتہ چلا کہ سرکاری رجسٹر کے  مطابق اس کی بیوی آسامی نہیں ، غیر ملکی ہے۔ عصام الدین حیران تھا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ حلیمہ خاتون کا گاؤں خود اس کے گاؤں سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور حلیمہ وہیں پیدا ہوئی ہے۔ گاؤں میں کسی کے پاس کوئی کاغذ نہیں ہوتا۔ بچے گھروں میں پیدا ہوتے ہیں، اسلئے ان کی پیدائش کا سرٹیفکیٹ بھی نہیں ہوتی۔ حلیمہ خاتون نے کبھی ووٹ دیا ہے، نہ آدھار کارڈ بنوایا ہے ، نہ اس کے گھر میں راشن کارڈ ہے۔ اب وہ کون سی دستاویز پیش کرکے ثابت کرتے کہ اس کی  بیوی غیرملکی نہیں ہے۔ بہرحال، عصام الدین وہ نوٹس لے کر قریب کے پولیس اسٹیشن پہنچا اور اس نے وہاں کے افسروں کو بتایا کہ اس کی بیوی کا گاؤں یہاں سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور شادی کے بعد وہ ہمارے گاؤں منتقل ہوگئی ہے۔ وہ کبھی اسکول گئی نہ اس نے ووٹ دیا لہٰذا اس کے پاس کوئی’کاغذ‘ بھی نہیں ہے لیکن پولیس والے اس کی بات ماننے کو تیار نہیں تھے۔ الٹا انہوں نے ہدایت دی کہ وہ اپنی بیوی کو غیرملکی ٹریبونل بھیجے اور وہاں ثابت کر ے کہ وہ ہندوستانی ہے ، ورنہ عین ممکن ہے کہ اسے ڈٹینشن سینٹر بھیج دیا جائے۔
  یہ سن کر عصام الدین کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ گھر جاکر جب اس نے اپنی بیوی کو ساری کہانی سنائی تو وہ رونے لگی۔ اس نے تو زندگی میں پولیس اسٹیشن کی صورت تک نہیں دیکھی تھی اور یہ پولیس والے اسے کسی سینٹر میں بھیجنے کی بات کررہے تھے۔ ۹؍ مارچ ۲۰۰۹ء کو جب دونوں میاں بیوی پولیس اسٹیشن کیلئے روانہ ہوئے تو حلیمہ خاتون کو نہ جانے کیوں یہ احساس ہونے لگا کہ وہ کہیں اپنے شوہر کے ساتھ آخری بار تو سفر نہیں کررہی ہے ۔ اس نے اپنے میاں کو غور سے دیکھا، وہ آج بھی ویسا ہی لگ رہا تھا جیسے اسے پہلے دن دیکھا تھا۔ بس میں بیٹھے بیٹھے حلیمہ خاتون نے کسی اجنبی جذبے کے تحت عصام الدین کا ہاتھ بڑے پیار سے تھاما اوراپنے دوپٹے سے اس کی پیشانی پر ابھرتے قطرے صاف کئے۔ اس پر عصام الدین صرف مسکرا کے رہ گیا۔ پولیس اسٹیشن پر بھیڑ لگی تھی۔ انہیں کی طرح کئی میاں بیوی کاغذات اٹھائے اپنی پیشی کے منتظر تھے۔ جب انہیں کمرے میں بلایا گیا تو ان کی بپتا سن کر پولیس آفیسر نے عصام الدین سے کہا کہ وہ گھر لوٹ جائے کیوں کہ اب اس کی بیوی کو پولیس وین میں بٹھاکر غیرملکی ٹریبونل لے جایا جائے گا۔ عصام الدین کو یقین نہیں آیا۔ حلیمہ خاتون بھی حیران تھی۔ گھر میں وہ اپنے دودھ پیتے بچے کو چھوڑ آئی تھی۔ پھر بھی اس نے بڑی ہمت دکھائی اوراپنے میاں سے کہا کہ وہ فکر نہ کرے۔ وہ ٹریبونل والوں سے بات چیت کرکے گھر آجائے گی۔ عصام الدین نے اسے کچھ پیسے دیئے اور اسے بڑی محبت سے رخصت کیا۔ جب تک پولیس وین نظروں سے اوجھل نہیں  ہوگئی ، عصام الدین وہیں کھڑا اپنی رفیق حیات کو دیکھتا رہا۔
 غیرملکی ٹریبونل پہنچ کر حلیمہ خاتون کو پہلی بار احساس ہوا کہ یہاں صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے کیوں کہ اس نے دیکھا ان کلرک نما آفیسروں کے سامنے غریب مسلمان ان جانوروں کی طرح سرجھکائے کھڑے تھے جنہیں چند منٹوں بعد مقتل میں دھکیلنا تھا۔ ایک آفیسر نے اس کی نوٹس دیکھی، اپنے رجسٹر سے اس کی توثیق کی اور چندغیر ضروری سوالات پوچھ کر اسے ڈٹینشن سینٹر جانے کا حکم سنادیا۔ حلیمہ خاتون کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا، وہ کسی کو پکاربھی نہیں سکتی تھی۔ وہ زاروقطار  رونے لگی۔ اسے اپنا گھر یاد آنے لگا۔ وہ دودھ پیتا بچہ یادآنے لگا جسے وہ اکیلا چھوڑ آئی تھی۔ قطار میں کھڑی کچھ عورتوں نے اس کا ہاتھ تھاما اور دوسری بس میں بیٹھنے میں مدد کی مگراس کے آنسو تو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔جب بس رکی تواسے لگا کہ یہ کوئی سینٹر نہیں بلکہ جیل ہے جو ’غیرملکی ‘ افراد کیلئے بنائی گئی ہے۔ ایک لمبے چوڑے ہال میں اسے دیگر افراد کے ساتھ دھکیل دیا گیا۔ اس نے ایک پولیس والے سے درخواست کی کہ وہ کسی طرح اس بچے کو اس کے پاس لے آئے جو ماں کے بغیر جی نہیں  پائے گا۔ وہ ہال کے باہر کھڑے ہر پولیس والے سے  رورو کر یہی درخواست کرتی رہی۔ نہ جانے کس کو اس پر رحم آیا کہ دودن بعداس کا بچہ اس کے حوالے کردیا گیا۔ جس کمرے میں اسے رکھا گیا تھا وہاں ۳۰؍ ۳۵؍ افراد قید تھے اوران سب کیلئے ایک ہی بیت الخلاء تھا۔ کھانے کے نام پر پتلی دال اور ادھ کچے چاول دیئے جاتے اور شام کو اسٹیل کی گلاسوں میں کالی چائے دی جاتی۔ کچھ دن تک تو کھانا حلق سے نہیں اترا پھر آہستہ آہستہ وہ اس کی عادی ہوتی گئی۔ اس اندھیرے کمرے میں وقت تھم چکا تھا۔ وہاں رہنے والا ہر انسان اپنی قسمت سے شاکی ، صبر کی مورت بنا وقت گزار رہا تھا۔ کسی کو باہر کی دنیا کی کوئی خبر نہیں تھی۔ خود حلیمہ خاتون کو اس کے شوہر کی موت کی خبر دوماہ بعد ملی تھی کیوں کہ مہینے میں صرف ایک بار گھر والوں کو ان سے ملنے کی اجازت تھی جس میں وہ کھانے پینے کی اشیاء لے کر آتے اور گاؤں کی کہانیاں سناتے۔
 اچانک ہرش مندر کی درخواست پر سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ ہر اس فرد کو جواِن سینٹرز میں تین سال سے زیادہ وقت گزار چکا ہے، فوراً رہا کر دیاجائے۔  پچھلے دسمبر ۲۰۱۹ء کو ٹھیک گیارہ سال بعد حلیمہ خاتون کو رہا کردیا گیا لیکن اس سے پہلے اسے ایک لاکھ روپے کی ضمانت دینی پڑی اوریہ بھی لکھ کر دینا پڑا کہ وہ ہر ہفتے مقامی پولیس اسٹیشن میں حاضری دے گی۔ گھرآنے پر حلیمہ خاتون کو احساس ہوا کہ اس کی دنیا لٹ چکی ہے۔ جس بچے کو اس کے ساتھ رکھا تھا وہ گیارہ سال سے تعلیم سے محروم ہے۔ جو لڑکا گھر رہ گیا تھا، وہ جوان ہوچکا ہے اور کیرالا میں مزدوری کررہا ہے اور گھر میںویرانی ہی ویرانی ہے ۔ آج اس کی ویران آنکھیں گاؤں کے راستے پر عصام الدین کو ڈھونڈتی ہیں۔ کیا یہ بے حس حکومت اس کے مرحوم شوہر کو واپس لاسکتی ہے ؟ کیا وہ گیارہ سال اسے واپس مل سکتے ہیں جو غیرملکی بتا کر اس سے چھین لئے گئے تھے؟ کاش وایومترا پرخوش  ہونے والوں کو کبھی حلیمہ خاتون بھی یادآجائے!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK