Inquilab Logo

یوکرین روس اَور فلسطین اسرائیل

Updated: May 24, 2022, 11:00 AM IST | Mumbai

امریکہ کے مشہور اخبار ’’دی واشنگٹن پوسٹ‘‘ کے صفحہ ’’اوپینین‘‘ پر شائع ہونے والے ایک مضمون بعنوان ’’میڈیا کوریج کس طرح فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی تشدد کو چھپاتا ہے‘‘ ( از قلم لارا اَلباسٹ اور کیٹ نار) میں یوکرین پرروس کے ذریعہ مسلط کی گئی جنگ اور فلسطین پر اسرائیلی تشدد کے کوریج کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مغربی میڈیا فلسطین کی صورت حال کو پیچیدہ، اسرائیلی تشدد کو دو جانب کی جھڑپیں اور باہمی کشیدگی کا نام دیتا ہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

امریکہ کے مشہور اخبار ’’دی واشنگٹن پوسٹ‘‘ کے صفحہ ’’اوپینین‘‘ پر شائع ہونے والے ایک مضمون بعنوان ’’میڈیا کوریج کس طرح فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی تشدد کو چھپاتا ہے‘‘ ( از قلم لارا اَلباسٹ اور کیٹ نار) میں یوکرین پرروس کے ذریعہ مسلط کی گئی جنگ اور فلسطین پر اسرائیلی تشدد کے کوریج کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مغربی میڈیا فلسطین کی صورت حال کو پیچیدہ، اسرائیلی تشدد کو دو جانب کی جھڑپیں اور باہمی کشیدگی کا نام دیتا ہے۔ مضمون نگاروں نے اخبارات اور خبر رساں ایجنسیوں کے نام کے ساتھ لکھا ہے کہ یہ سب اس احساس کے بغیر خبریں پیش کرتے ہیں کہ اسرائیلی ملٹری کی طاقت اور ناتواں فلسطینی شہریوں کی طاقت کا کوئی موازنہ ہو ہی نہیں سکتا۔ مضمون نگاروں کا کہنا ہے کہ ’’ان اخبارات اور میڈیا ہاؤسیز کے خیال میں فلسطینی ہلاک نہیں کئے جاتے، وہ مر جاتے ہیں، جب اسرائیلی فوجی آدھی رات کو دھاوا بولتے ہیں، گولی چلاتے ہیں، زمین ہتھیاتے ہیں اور اہل فلسطین کا قتل عام کرتے ہیں تو یہ میڈیا ہاؤسیز فلسطینیوں کو بھی برابر کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ان کے نزدیک ظالم اور مظلوم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کی کوشش یہ تاثر دینا ہوتا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کا سبب فلسطینی عوام ہیں۔‘‘ 
 مغربی میڈیا کی اس عصبیت کو اُجاگر کرنے کیلئے مضمون نگاروں نے یوکرین روس جنگ کا حوالہ دیا اور کہا کہ اس معاملے میں مغربی میڈیا نے روس کو بجا طور پر حملہ آور اور جارح بتایا، اہل یوکرین کو مزاحمت کار کا درجہ دیا، ماسکو پر لگنے والی پابندیوں کا خیرمقدم کیا اور روسی فوجیوں کے خلاف یوکرینی مزاحمت کی ستائش کی مگر جب ایسی ہی مزاحمت اسرائیل کے خلاف اہل فلسطین کی جانب سے ہوتی ہے تو اسے اشتعال انگیزی قرار دیا جاتا ہے۔  یہ دُہرا معیار اور منافقانہ رویہ برسوں سے جاری ہے جس کا نتیجہ ہے کہ عالمی سطح پر فلسطین سے دلچسپی رکھنے والے اور فلسطینی عوام کا دکھ درد سمجھنے والے لوگ بہت کم ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی زبردست اثر انگیزی کے اس دور میں آپ کو ایسے ممالک بھی ملیں گے جہاں کے شہریوں کی اکثریت فلسطین کے مسئلہ سے و اقف ہی نہیں ہے۔ ممکن ہے ان میں بہت ہمدردی رکھنے والے لوگ بھی شامل ہوں مگر یہ مسئلہ اپنی تمام تر سنگینی کے ساتھ ان کے سامنے کبھی آیا ہی نہیں۔ بلاشبہ یہ ان کا قصور ہے کہ موبائل اور انٹرنیٹ کے دور میں کسی مسئلہ کو نہ جان پانے کا کوئی جواز ہی نہیں ہوسکتا مگر یہ حقیقت ہے اور اس لئے افسوسناک ہے کہ جب تک کسی ملک کے عوام اس کی خارجہ پالیسی پر نگاہ نہیں رکھیں گے تب تک وہاں کی حکومت من مانے فیصلے کرتی رہے گی۔ ایک وجہ یہ ہے کہ اکثر حکمراں  نہیں چاہتے کہ عوام فلسطین کی بابت کچھ جانیں کیونکہ اپنے مفادات کے اسیر یہ حکمراں یا تو کھل کر اسرائیل نوازی کا ثبوت دیتے ہیں یا اسرائیل نوازی جاری رکھتے ہوئے، فلسطینیوں کے غم میں آنسو بھی بہالیتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اسرائیلی قیادت سے دوستی گانٹھنا ایک نیا فیشن بن گیا ہے۔ اِدھر یہ رجحان بھی تقویت پارہا ہے کہ کل تک جو ممالک اسرائیل کے غاصبانہ ،آمرانہ اور جارحانہ اقدامات کی کھل کر مذمت کرتے تھے، آج تل ابیب میں سرخ قالین پر چل رہے ہیں۔ اسی منافقانہ رویہ کی وجہ سے فلسطینی کاز کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ مگر جو لوگ دُہرا معیار رکھنے والوں کو آئینہ دکھا سکتے ہیں وہ دکھا رہے ہیں جیسے مذکورہ صحافی اور ان کا مضمون شائع کرنے والا اخبار۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK