Inquilab Logo

بے یقینی اور بے رغبتی

Updated: January 17, 2021, 1:35 PM IST | Editorial

کووڈ۔۱۹ء کی وباء کے سبب تعلیمی سال (۲۱۔۲۰۲۰ء) کے کئی ماہ ضائع ہوجانے کے بعد اگر باقی ماندہ مہینوں کو زیادہ سے زیادہ کارآمد بنانے کی کوشش کی گئی تب بھی اس بات کا امکان کم ہے کہ طلبہ کا جو نقصان ہوا اس کی بھرپائی ممکن ہوسکے گی۔

Covid19 Vaccine - pic : PTI
کووڈ ویکسین ۔ تصویر : پی ٹی آئی

 کووڈ۔۱۹ء کی وباء کے سبب تعلیمی سال (۲۱۔۲۰۲۰ء) کے کئی ماہ ضائع ہوجانے کے بعد اگر باقی ماندہ مہینوں کو زیادہ سے زیادہ کارآمد بنانے کی کوشش کی گئی تب بھی اس بات کا امکان کم ہے کہ طلبہ کا جو نقصان ہوا اس کی بھرپائی ممکن ہوسکے گی۔ ایسا ا س لئے کہا جارہا ہے کہ شعبہ ٔ تعلیم کے ارباب اقتدار و اختیار کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ سوچا یہ گیا تھا کہ آن لائن تعلیم کے ذریعہ طلبہ کو تعلیم سے مربوط رکھا جائیگا۔ اسکولوں اور کالجوں کے انتظامیہ کو اس کی ہدایت بھی دی گئی کہ آن لائن کلاسیز جاری کی جائیں۔ اس ہدایت کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش بھی کی گئی مگر یہ طریقۂ تعلیم بڑی حد تک مایوس کن ثابت ہوا۔ نہ تو مدرس، تدریس کے ساتھ انصاف کرسکا نہ ہی طلبہ فیضیاب ہوسکے۔ ہوائی جہاز کے زمانے میں یہ بیل گاڑی کا سفر ثابت ہوا جبکہ اکیسویں صدی میں اسے ہوائی جہاز تو کیا خلائی سیارہ جیسا سفر ثابت ہونا چاہئے تھا بالخصوص اُن حالات میں جب ہر چیز کے آن لائن کئے جانے پر اتنا اصرار کیا جارہا ہے۔ آن لائن ایجوکیشن کیوں ٹیک آف نہیں کرسکا اس کے اسباب سے ہر خاص و عام واقف ہے۔ اس کیلئے درکار لوازمات اور  انفراسٹرکچر کو، جو پہلے سے موجود ہونا چاہئے تھا، راتوں رات یقینی بنانا مشکل تھا۔ اس کیلئے طلبہ اور والدین کی ذہن سازی بھی فی الفور ممکن نہیں تھی۔ جو حالات پیدا ہوئے وہ اچانک، بلائے ناگہانی کی طرح، پیدا ہوگئے تھے اس لئے ساری توجہ کووڈ سے نمٹنے پر صرف ہونے لگی یا جو حالات پیدا ہوئے اُن پر مرکوز ہوگئی۔ اس کے نتیجے میں تعلیم کو حاشئے پر آنا پڑا۔ 
 ہم کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہتے مگر یہ ضرور کہنا چاہتے ہیں کہ ایسے بحرانی حالات ہی خود کو آزمانے کا بہترین موقع ہوتے ہیں۔ بحیثیت ملک ہم نہ تو مزدوروں کے مصائب و مسائل کو احسن طریقے سے حل کرسکے نہ ہی اُن ناگفتہ بہ حالات سے دو دو ہاتھ کرنے کیلئے تیار تھے جو اپریل اور مئی میں پیدا ہوئے تھے۔ ہم چھوٹی صنعتوں کو بچانے اور یومیہ اُجرت پر کام کرنے والوں کا روزگار بچانے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے۔ جو کچھ بھی تھوڑا بہت کیا گیا، اُسی کو کافی سمجھ کر اپنی پیٹھ تھپتھپا لینا چاہیں تو ہم خود کو اس فریب میں آسانی سے مبتلا کرسکتے ہیں مگر دانشمند قوم وہ ہوتی ہے جو حالات سے سیکھتی تو ہے مگر اُس سے بھی پہلے حالات کے نقصان کا دائرۂ اثرمحدود تر کرنے میں بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیمی محاذ پر کیا یہ ممکن نہیں تھا اور کیا اب بھی ممکن نہیں ہے کہ ہم فاصلاتی تعلیم کی طرز پر رواں سال کی پڑھائی کو یقینی بنائیں؟ فاصلاتی تعلیم اب بھی ہوتی ہے۔ اس میں طلبہ پر مکمل نصاب ظاہر کردیا جاتا ہے اور پڑھائی کا متعلقہ مواد ارسال کردیا جاتا ہے۔ طلبہ کو علم ہوتا ہے کہ اُنہیں کیا پڑھنا ہے، کتنا پڑھنا ہے اور کہاں سے پڑھنا ہے۔ کورونا کے وبائی حالات میں اگر جون جولائی ضائع ہوگیا تھا تو کیا اگست ستمبر سے اس طریقے کو نافذ نہیں کیا جانا چاہئے تھا؟ 
 ایسا کیا جاتا تو کم از کم بے یقینی کی یہ کیفیت تو نہ پیدا ہوتی جو گزشتہ کئی مہینوں سے ہے اور جس کی وجہ سے طلبہ میں بے رغبتی پیدا ہوگئی ہے۔ والدین بھی تعلیم کو پس پشت ڈال رہے ہیں کہ خدا جانے امتحان ہوں گے یا نہیں۔اساتذہ کا جوش و خروش وقت کے ساتھ ماند پڑتا جارہا ہے۔ یہ سب نہ ہوتا اور اس کی وجہ سے تعلیم کا اتنا نقصان نہ ہوتا اگر کوئی واضح پروگرام طلبہ، اساتذہ اور تعلیمی انتظامیہ کے حوالے کردیا جاتا۔ حیرت ہے کہ اس جانب اب بھی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK