Inquilab Logo

دہلی فساد کی آڑ میں

Updated: September 18, 2020, 10:16 AM IST | Editorial

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دہلی فساد کی غیر جانبدارانہ تفتیش کی جاتی اور جو لوگ فساد بھڑکانے کے اصل مجرم تھے، اُنہیں قانون کے دائرے میں لایا جاتا مگر دُنیا دیکھ رہی ہے کہ دہلی فساد کے بہانے اُن لوگوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے اور من مانے الزامات لگا کر اُن کا قافیہ تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف اپنے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے پُرامن مظاہروں میں شریک تھے۔

Delhi Riots - Pic : PTI
دہلی فساد ۔ تصویر : پی ٹی آئی

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دہلی فساد کی غیر جانبدارانہ تفتیش کی جاتی اور جو لوگ فساد بھڑکانے کے اصل مجرم تھے، اُنہیں قانون کے دائرے میں لایا جاتا مگر دُنیا دیکھ رہی ہے کہ دہلی فساد کے بہانے اُن لوگوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے اور من مانے الزامات لگا کر اُن کا قافیہ تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف اپنے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے پُرامن مظاہروں میں شریک تھے۔ چونکہ ملک بھر میں جاری رہنے والے یہ مظاہرے مکمل طور پر پُرامن تھے اس لئے شہریت ترمیمی قانون کے مخالفین سےمظاہرہ گاہوں پر  ’’نمٹنے‘‘ کا موقع نہیں ملا، حالانکہ مظاہرین کی حوصلہ شکنی کی ہزار کوششیں کی گئیں،  مگر بالآخر دہلی فساد کا بہانہ ہاتھ آگیا۔ 
 یہی وجہ ہے کہ ایسے ایسے لوگوں کو اُلجھانے کی کوشش کی جارہی ہے جن کی سماجی خدمات کسی سے مخفی نہیں اور جو، ان خدمات کے سبب عوام میں مشہور، معروف یا مقبول ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن لوگوں کی تقریروںمیں واضح الفاظ میں قانون ہاتھ میں لینے کی بات کی گئی اور ’’گولی مارو .......کو‘‘ کے نعرے لگائے گئے، اُن پر تو ہلکی سی بھی آنچ نہیں آئی مگر پُرامن مظاہرین اور آئین و قانون کے دائرہ میں رہ کر اظہارِ خیال کرنے والوں کو ’’سبق سکھانے‘‘ کا بیڑا اُٹھالیا گیا تاکہ سماج کے حساس اور جمہوری قدروں پر یقین رکھنے والے عوام و خواص مزاحمت اور آئندہ مظاہروں کی ہمت نہ کرسکیں۔ بقول معروف وکیل اور سول سوسائٹی کے ممتاز رُکن پرشانت بھوشن: ’’یہ سازش کی جانچ نہیں بلکہ جانچ کے نام پر پولیس کی سازش ہے۔‘‘ سوال یہ ہے کہ کیا پولیس کو اپنی شبیہ کی قطعاً فکر نہیں؟ 
 کل جب ان معاملات کی شنوائی ہوگی تو کیا ان میں اتنی طاقت ہوگی کہ چند روز بھی عدالت میں ٹھہر سکیں جبکہ ضمنی چارج شیٹ میں جو نام لئے گئے وہ کاغذ پر بھی نہیں ٹھہر سکے اور ۱۳؍ ستمبر کو انڈین ایکسپریس کی ویب سائٹ پر پی ٹی آئی کے حوالے سے پوسٹ ہونے والی خبر میں کہا گیا کہ جب اِن ناموں کی شمولیت پر سیاسی ردعمل سامنے آیا تو دہلی پولیس کے ذرائع یہ کہتے ہوئے ملے کہ ملزمین میں سے ایک نے اپنے بیا ن میں یہ نام لئے تھے۔ قارئین جانتے ہیں کہ ضمنی چارج شیٹ میں سیتا رام یچوری، پروفیسر اپوروانند، یوگیندر یادو، راہل رائے اور جیتی گھوش جیسے لوگوں کے نام درج کئے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کے خلاف ثبوت کہاں سے لائے جائینگے؟اور جب یہ معاملات معزز عدالت میں اوندھے منہ گر پڑیں گے تو پولیس کی کیا امیج باقی رہ جائے گی؟ 
 شاید پولیس کو اپنی امیج کی فکر ہے ہی نہیں، جسے آئینہ دکھانے کیلئے سابق اعلیٰ پولیس افسر جولیو ربیرو نے دہلی پولیس کمشنر ایس این سریواستو کے نام اپنے خط میں لکھا کہ پُرامن مظاہرین کے خلاف بی جے پی کے تین لیڈروں کو چیخنے چلانے اور دھمکانے کا جو لائسنس دیا گیا اُس کا جواز مشکل تو کیا ناممکن ہے، اگر یہ لوگ مسلم یا لیفٹسٹ ہوتے تو پولیس اُن کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرلیتی۔ ربیرو نے اپنے خط میں کپل مشرا، انوراگ ٹھاکور اور پرویش ورما کے نام درج کئے تھے جن کی اشتعال انگیز تقریریں دہلی فساد کا سبب بتائی جاتی ہیں۔ 
 دراصل دہلی پولیس جو کچھ بھی کررہی ہے وہی یوپی پولیس نے بھی کیا ( اس سلسلے میں صدف جعفر اور ایس آر داراپوری کے علاوہ درجنوں دیگر لوگوں کی مثالی سامنے ہیں اور یہ ایک ’پیٹرن‘ بنتا جارہا ہے) مگر اُسی یوپی پولیس کو ڈاکٹر کفیل احمد کے معاملے میں منہ کی کھانی پڑی جب رواں ماہ کے اوائل میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اُن پر این ایس اے کے اطلاق کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اُن کی فوری رہائی کا حکم دیا۔عمر خالد کو بھی سنگین الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ اگر وہ دہلی فساد کے اتنے ہی بڑے ’سازشی‘ تھے تو ان کی گرفتاری میں اتنا عرصہ کیوں لگا؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK