Inquilab Logo

قرآن مجید کےغیرمحدود علمی و اَدبی محاسن

Updated: August 07, 2020, 9:13 AM IST | Bashir Ahmed Kashmiri

قرآن کریم اللہ کا آخری پیغام ہے جو اس نے اپنے آخری نبی ﷺ پر بذریعہ حضرت جبریلؑ نازل کیا ہے۔ یہ اللہ کی جانب سے ایک آفاقی اور بیش قیمت ہدایت نامہ ہے۔

Quran Kareem - Pic : INN
قرآن کریم ۔ تصویر : آئی این این

قرآن کریم اللہ کا آخری پیغام ہے جو اس نے اپنے آخری نبی ﷺ پر بذریعہ حضرت جبریلؑ نازل کیا ہے۔ یہ اللہ کی جانب سے ایک آفاقی اور بیش قیمت ہدایت نامہ ہے۔ قرآن پاک کا اسلوب اگرچہ خطابی ہے لیکن اس میں ہر طرز کے تخاطب پائے جاتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ کلام اپنے اندر مکمل ضابطہ ٔ حیات سموئے ہوئے ہے اور تمام علوم و فنون کا منبع بھی تصور کیاجاتاہے۔ محققین کی رائے کے مطابق پورے قرآن کریم میں الحمد سے لے کر والناس تک کوئی بھی غیر فصیح لفظ پایا نہیں جاتا، بلکہ ہر لفظ اپنے مقام پر فصاحت و بلاغت کی ایک عمدہ مثال ہے اور ہر لفظ اپنی ترتیب کے اعتبار سے اس طرح موزوں ہے کہ اس کے تغیر و تبدل سے نہ صرف یہ کہ فصاحت وبلاغت متاثر ہوجائے بلکہ یہ ایک غیر ممکن اورعبث عمل ہوگا ۔
 قرآن کی اتنی حیرت انگیز خوبیاں ہی، جن کا انکشاف پہلے سے ہوتاآرہاہے اور آگے بھی جاری رہے گا، اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ یہ کلام الٰہی ضرور اللہ ہی کی طرف سے نازل ہوا ہے اوراس کے برحق ہونے میں کوئی شک کاشائبہ ہوہی نہیں سکتا۔ یہ کلام انسانوں کی فلاح ونجات کا ایک واحد ذریعہ ہے،  اول سے آخر تک نوع انسانی کے لئے سر چشمہ ٔ ہدایت ہے  اور یہ کلام حقائق کائنات اور سچی پیشین گوئیوں سےپردہ ہٹا کر ایک معجزہ کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آتاہے، جن میں روم کی فتح، فتح مکہ کی خبر، یہودیوں کی بزدلی، تمنائے موت، قرآن کی حفاظت اور بہت سارے علمی اور تاریخی حقائق کا انکشاف خاص طور سے قابل ذکر ہے چنانچہ یہ ایک چیلنج کے طور پربھی پیش کیا گیا۔  قرآن پاک کا چیلنج ان  کے لئے ہے جو آزادی انتخاب کا حق رکھتے ہیں اوراپنی ذہنی استطاعت و توفیق کے مطابق اچھے برے کی تمیز کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں:
’’فرما دیجئے: اگر تمام انسان اور جنات اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ اس قرآن کے مثل (کوئی دوسرا کلام بنا) لائیں گے تو (بھی) وہ اس کی مثل نہیں لاسکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں۔‘‘(اسراء :۸۸)
قرآن کریم کی یہ للکار۱۴؍ صدیوں سے زیادہ عرصے سے ہنوز باقی ہے جبکہ قرآن کی ایک سورہ لانے کی مجال انسانیت کی نہیں۔ اس طرح انسانیت کی اس عدم صلاحیت اور محدود و معقولیت کانتیجہ بھی واضح کردیا گیاہے کہ: 
’’اگر تم ایسا نہ کر سکو اور ہرگز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔‘‘ (البقرۃ :۲۴ ) 
ملک الشعراء کا قبول اسلام
 اور یہ عمل تمہارے بس کی بات نہیں، تاریخی شواہد سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم کے نزول کے بعد بڑے بڑے ادباء وشعراء کی زبانوں پرمہر لگ گئی۔ اس کی ایک عمدہ مثال جاہلی دور کے شاعر معلقات لبید بن ربیعہ ہے جس کے شعروں پر اس کے معاصرین نے کئی بار سجدۂ  تہنیت کیا اور اُسے خراج تحسین سے نوازا، اور وہی شاعر قرآن پاک سے مسحور ہو کر شاعری ہی ترک دیتے ہیں اور اسلام قبول کرتے ہیں۔ اپنے دور میں ملک الشعراء کہلانے والے اس شاعر سے بعد از قبول اسلام کے بعض شعراء نے طبع آزمائی پر زور بھی دیا تو لبید نے تعجب سے پوچھا: ’’ابعد القرآن؟‘‘ یعنی قرآن پاک کی فصاحت وبلاغت کے بعد میرے نزدیک کسی اور شاعرانہ کلام کی گنجائش اور ضرورت نہیں۔ 
قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت کا ایک عملی مظاہرہ سیرت نبوی ﷺ میں ہمیں اس وقت دیکھنے کو ملتا ہے جب آپ ﷺ نخلہ کی وادی سے گزررہے تھے اور جنوں کی ایک ٹولی نے اللہ کے کلام کو سنا اور ان کی زبان سے برجستہ یہ نکلا: إنا سمعنا قرآنا عجبا، (بیشک ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔ سورہ جن:۱)
قرآنی علوم کا اصل مخزن
 بہر صورت یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہےکہ قرآن پاک کی ہر سورہ بجائے خود نہایت حسین نظم ونسق اورفنی و ادبی اعتبار سے ایک دلآویز اورنادر مجموعہ ہے۔ درحقیقت قرآنی علوم کا اصل مخزن الفاظ کی تشکیل، آیتوں کی ترتیب اور سورتوں کا نظم ہے۔ قرآن پاک کی یہی توفیقی ترتیب و ترکیب انسانی عقل و ذہن کوجمال وکمال سے نوازتی ہے اور یہ بات تو مسلم ہے کہ جس قدر علوم و فنون کی وسعت ہوتی ہے اسی قدر فہم قرآن کے دوران دانش و خرد کی وسعت پر قبضہ حاصل ہوتا ہے۔ اس پرمولانا فراہی کاقول صادق آتاہے کہ نظم قرآن کے کئی ظاہری و باطنی پہلو ہی تعمق نظر اور وسعت علم کے متقاضی ہیں، اور نظم قرآن کاعلم درحقیقت قرآنی ترکیب وترتیب کاعلم ہے۔ (تدبر القرآن ) جلد ۱/ ص : ۱۸۰)
قرآن کریم کے ادبی محاسن 
پھر دوسری جانب قرآن پاک کے جملوں کے دروبست میںوہ شوکت، سلامت اور شیر ینی ہے کہ اس کی کوئی نظیر ہی نہیں۔ اس کی  ایک مثال یوں ہے کہ قاتل سے قصاص لینا اہل عرب میں بڑے فخر اور تعریف کاباعث تھا اور اسی چیز کی افادیت کوپیش کرنے کے لئے عربی زبان میںکئی ضرب المثل مشہور تھے مثلا : القتل احیاء للجمیع (قتل اجتماعی زندگی ہے ) القتل القی للقتل (قتل سے قتل کی روک تھام ہوتی ہے ) اور اکثرواالقتل لیقل القتل ( قتل زیادہ کرو تاکہ قتل کم ہو جائے ) اور ان محاورات کو اتنی مقبولیت حاصل تھی کہ یہ ہر آدمی کی زبان پرجاری تھے، اور فصیح سمجھے جاتے تھے۔ قرآن پاک نے بھی اس مفہوم کو ادا کیاہے لیکن کس لا جواب انداز سے ملاحظہ ہو: ولکم فی القصاص حیاۃ ’’اور تمہارے لئے قصاص میںزندگی ہے۔‘‘ اس جملہ کی جامعیت، اختصار، معنویت کو جس کسی  پہلو سے دیکھا جائے بلاغت کاایک واضح شاہکار  ہے جس کے آگے اول الذکر کے محاورات ہیچ اورسجدہ ریز دکھائی دیتے ہیں۔
ابلاغ و ترسیل کا مکمل آئینہ
 قرآن پاک کا منفرد اسلوب تمام شاہکاروں سے افضل اور جداگانہ ہے۔  اس ضمن میںیہ بات قابل ذکر ہے کہ علمائے  بلاغت نے اسلوب کی تین قسمیں متعین کی ہیں:  (۱) خطابی (۲)  ادبی، اور (۳) علمی۔ ان تینوں کے مجالات مختلف ہیں اور ہر ایک کی خصوصیات جدااور مواقع مختلف ہیں اور پھر ایک عبقری کے لئے بھی ان تینوں اسالیب کو ایک ہی عبارت میں سمانا غیر ممکن ہے۔ چونکہ ہماری تقریر کا انداز ہماری ادبی نثر سے مختلف ہوتاہے اور ایک علمی مقالہ کا اسلوب بالکل جداہوتاہے لیکن قرآن حکیم کا اعجاز یہ ہے کہ وہ ان تینوں اسالیب کو ساتھ لئے ہوئے ہے۔ اس میں زور خطابت،علمی متانت اور ادبی شگفتگی ساتھ ساتھ رہتی ہے اور کسی ایک میںکوئی کمی محسوس نہیںہوتی۔
بہرحال قرآن مجید، پیغام رسالت کے ابلاغ و ترسیل کامکمل اور صاف وشفاف آئینہ ہے جس کی تعبیر میں اخلاقی تعمیر ہے، نسل انسان کے ہر طبقہ کے لئے  بھر پور ہدایت کے ساتھ آسائش وآرائش کاسامان فرحت موجود  ہے۔ بے شک یہ آسمانی ادب کابہترین اورمکمل شاہکار اور نثری و شعری اصناف میں وجدانی تصاویر کا ایک عالمی مرقع ہے۔ 
ہمہ گیر دستور حیات
یہی وہ واحد مستند ، باوثوق، جامع اورمحفوظ دستاویز ہے جو نزول کے بعد سے  ہر دور میں تازہ اور ہمہ گیر دستور حیات بناہوا ہے۔ قرآن حکیم وہ ابدی کتاب ہے جس کا مخاطب اللہ تعالی نے قیامت تک آنے والے ہر انسان کو بنایا ہے پس یہ کتاب کسی زمانے، جگہ، قوم یا طبقے کے ساتھ مخصوص نہیںہے بلکہ تمام انس و جن کی رہنمائی اور بھلائی اس کا مقصود ہے۔ قرآن سب کو مخاطب کرکے یہ دعوت دیتاہے جن میںان کے لئے دین و دنیا کی سعادتیں مضمر ہیں ۔ اس کے بیان کردہ صحیح عقائد، عبادات، پرحکمت نظام حیات،  بلند مرتبت احکام اور اخلاق عالیہ ہی کے ذریعے سے ان کی زندگیاں درست اور شاہراہ مستقیم پرگامزن ہوسکتی ہیں ۔ قرآن حکیم کانزول سارے عالم کے لئے ہوا ہے۔ یہ کتاب و سنت کے نصوص اور اجماع امت کی رو سے ایک حقیقت ہے اور اس ضمن میں وہ تمام آیات جو قرآن کی آفاقیت کی مظہر ہیں ان کا احاطہ تو یہاں ممکن نہیں ہے لیکن قرآن مجید کی عالمگیریت پر دلالت کرنے والی بعض آیات کی طرف اشارہ کرنا موزوں موگا:
 البقرۃ :  ۱۸۵ ، النساء : ۱ ، ۷۹، ۱۷۰ ، ۱۷۴ ، الاعراف: ۵۸، یونس: ۵۷، ۹۹، ۱۰۴، ۱۰۸، یوسف: ۱۰۴، بنی اسرائیل:  ۸۹، ۹۴، ۱۰۵، ۱۰۶، الانبیاء : ۱۰۷ ، الحج : ۱، ۵، ۲۷ ، ۴۹، ۷۳ ، ص : ۸۷، القلم : ۵: التکویر : ۲۷ ، اور ایک قاری کے لئے یہ آیت ہی اسکی آفاقیت کے لئے کافی ہوجاتی ہے کہ : ان ہوالاذکر للعلمین ( الکتکویر: ۲۷ ) اس سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ قرآن تمام عالموں ( یعنی مخلوق تامہ ) کے لئے رہنمائی کے لئے آیا ہے ۔
 قرآن اِلٰہی کلام ہے اسلئے انسانی ادب سے بہت بلند ترآسمانی ادب کا  شاہکار ہے۔ فصاحت و بلاغت اور قواعد و محاورات کا خزینہ بیش بہا ہے۔  موزوں و مناسب الفاظ اور اثر انگیز  آیتوں کا مسحور کن معجزہ، طویل سورتیں ہوں یا مختصر تمام آیات رشدوہدایت کی علمبردار ہیں۔ قرآن کا ادبی اعجاز عربی ادب کا بے مثال کارنامہ ہے جس پر فصاحت و بلاغت کامعیار منحصر ہے۔ بقول جاحظ: ’’یہ قرآن بلاغت کے اس مرتبہ پر فائز ہے جس پر بلاغت کے تمام قسموں کا احاطہ ہوجاتاہے  بالآخر یہ کہ یقیناً کلام الٰہی  بلاغت و فصاحت، سلاست و متانت کا ادبی کمال ہے،  جس کی تحقیق  روز قیامت تک جاری وساری رہے گی

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK