دوسروں کو تکلیف پہنچا کر سکون حاصل نہیں ہوسکتا، اس کی بہترین مثال یہ افسانہ۔
صبح کا وقت تھا۔ نرم دھوپ آہستہ آہستہ ’فاروق ولا‘ کے صحن کو اپنی آغوش میں لے رہی تھی۔ زینب مہرو کا سامان ادھر سے ادھر رکھ رہی تھی۔ ’’نازیہ بھابھی، دیکھو میں نے اپنی مہرو کے لئے کتنا پیارا رانی ہار بنایا ہے۔ شہزادی لگے گی میری بیٹی!‘‘ ہر لفظ میں تفاخر جھلک رہا تھا۔ زینب سب کو اپنی بیٹی کی شادی کے لئے بنایا گیا ہار دکھانے لگی، جو واقعی قابل تعریف تھا۔ ’’ارے زینب، تمہاری ہونے والی بہو زرمینہ کے گھر والوں نے اپنی بیٹی کو کیا دیا ہے؟‘‘ ایک رشتے کی خالہ، جو شادی میں شرکت کے لئے پہلے ہی پہنچ چکی تھیں، نے منہ میں پان رکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’ غریب لوگ ہیں خالہ، زرمینہ کی چار چھوٹی بہنیں ہیں۔ جیسے تیسے بس بیٹی کو اپنے گھر بار کی کرنا چاہتے ہیں۔ ایک سے ایک رشتہ آیا تھا میرے ایاز کے لئے، امیر اور خوبصورت لڑکیوں کا، مگر اس کے ابّا نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ہمارے گھر کی بہو زرمینہ ہی بنے گی۔‘‘ اس کے دل میں وہی پرانی خلش چھپی تھی.... جس کا ذکر وہ کئی دفعہ کرچکی تھی کہ اسے ایاز کے لئے اتنے رشتے رد کرنے پڑے۔ صرف اسی لئے کہ کچھ سال پہلے ایاز کے ابّا، فاروق صاحب نے اپنے عزیز دوست کی اچانک حادثاتی موت کی وجہ سے ان کی بڑی بیٹی زرمینہ کو اپنی بہو بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔ ان کا دوست متوسط طبقہ سے تھا جس کی پانچ بیٹیاں تھیں۔ جبکہ فاروق صاحب خاندانی بز نس مین تھے۔ ایک بیٹا ایاز، جو تابعدار بھی تھا اور اپنے والد کی طرح اچھی فطرت کا مالک بھی۔ دوسری طرف ماہ مہر، جو بالکل اپنی ماں کی طرح خودغرض اور خود پسند تھی۔ اپنے آپ پر اور والد کی دولت پر اسے بہت غرور تھا۔ دوسروں کو کمتر سمجھنااس کی بھی عادت بن چکی تھی۔ فاروق صاحب کے دوست کی حادثاتی موت کے دو سال بعد جیسے ہی مہرو کے لئے ایک اچھا رشتہ آیا، دونوں کی شادیاں ایک ساتھ طے کر دی گئیں۔ زینب نے بہت مخالفت کی، مگر فاروق صاحب بھی اپنے ارادے کے پکے تھے۔ بنا کسی جہیز یا دوسری فرمائش کے انہوں نے اپنے بیٹے کے لئے زرمینہ کا رشتہ قبول کرلیا۔ اسی وجہ سے زینب اور مہرو زرمینہ کے گھر والوں کو نیچا دکھانے کا ایک موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھیں۔ اب بھی زینب وہی فعل انجام دے رہی تھی، ’’وہ تو میری اعلیٰ ظرفی ہے کہ اس کو اپنی بہو بنارہی ہوں، ورنہ ان متوسط طبقہ کی لڑکیوں کی شادیاں اتنے اچھے گھروں میں ہونا ایک خواب کی طرح ہوتا ہے۔‘‘ زینب کے اس تبصرے پر باقی خواتین بھی حامی بھرنے لگیں۔ اور پھر اپنی اپنی تیاریوں میں لگ گئیں۔
شام ڈھلی تو پورا گھر روشنیوں سے جگمگا اٹھا۔ مہرو کی رخصتی تو ایاز اور زرمینہ کا نکاح بھی تھا۔ گھر میں پیر رکھنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ شور و غل اس قدر تھا کہ سامنے والے کی آواز بھی سنائی نہیں دے رہی تھی۔ شادی والے گھروں کی رونقیں دیکھنے والی ہوتی ہیں اور آج ’فاروق ولا‘ میں بھی رونق اپنے عروج پر تھی۔ مہمانوں کی آمد اور مہندی کی مہک پورے گھر کو اپنے حصار میں لئے ہوئے تھی۔ بچے ادھر سے ادھر بھاگ رہے تھے، مرد حضرات باہر کے کاموں میں مصروف تھے، خواتین بھی کبھی یہ کام کرتیں تو کبھی وہ کام، مگر کام اور تیاریاں تھیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔ لڑکیاں بھی جھنڈ میں بکھری باتیں کررہی تھیں، ان کے لہلہاتے شوخ رنگ آنچلوں سے پورے گھر میں بہار کا سماں بندھا ہوا تھا۔ اکتوبر کی سرد گرم شام خوشیوں اور قہقہوں سے بھیگی ہوئی تھی۔ ایسی رونقیں بہار کا حصہ ہوتی ہیں مگر اس خزاں کے مہینے کے درمیان بھی آج اس گھر میں بہار کے پھول مہک رہے تھے۔
مہرو تیار ہونے کے بعد جب بیٹھک میں پہنچی تو فضا جیسے پر مسرت ہوچکی تھی۔ کچھ تو اس کا قدرتی حسن بھی تھا اور اس میں بیو ٹیشن نے چار چاند لگادیئے تھے۔ بڑی بڑی خمدار پلکیں، اسٹائلش ہیئر اسٹائل، اور کھڑی ناک، جو گلابی بلش لگانے سے اور بھی خوبصورت لگ رہی تھی۔ اس کا جوڑا بھی خاص امپورٹ کروایا گیا تھا۔ ہلکا نیون بلیو گھیر دار لہنگا جس پر بڑا ہی دلکش اور نازک سنہری کام کیا ہوا تھا۔ ساتھ میں خوبصورت باریک کامدار دوپٹہ۔ وہ اتراتے ہوئے کار میں جا بیٹھی۔ کمرے میں موجود ہر آنکھ اسے رشک بھری نظروں سے دیکھتی رہ گئی۔ تھوڑی دیر بعد جب ہال میں پہنچ کر مہرو کی نظر اپنی ہونے والی بھابھی پر پڑی تو اس نے نخوت سے سَر جھٹکا اور منہ موڑ لیا۔ سادہ سے میک اَپ جو کسی خالہ زاد بہن کا کیا ہوا تھا، اور جو اس کی آنکھوں کے نیچے موجود حلقوں کو چھپانے میں بھی ناکام رہا تھا۔ لہنگے کا رنگ ہلکا گلابی تھا جس پر موٹا موٹا سنہری کام تھا جو بظاہر بھدا لگ رہا تھا۔ مہرو جانتی تھی کہ یہ جوڑا زرمینہ کی امی کی طرف سے آیا تھا۔ اس کے امپورٹڈ اور دیدہ زیب لہنگے کے سامنے زرمینہ کے لہنگے کی چمک کچھ اور ماند پڑ چکی تھی۔ جب زینب نے اسے زرمینہ کا جوڑا بتایا تھا تو مہرو نے اسے دیکھتے ہی نخوت سے کہا تھا، ’’کیسے لوگ ہیں امی، اپنی بیٹی کو جہیز نہیں دے رہے تو ایک ڈھنگ کا جوڑا تو دے ہی سکتے ہیں!‘‘ دونوں ماں بیٹی اس بات کا طعنہ زرمینہ کی امی کو بھی دے چکی تھیں۔ مگر وہ کر بھی کیا سکتی تھیں، زرمینہ کے بعد چار اور بیٹیاں بیاہنے کو باقی تھیں اور پھر اس دار فانی میں شوہر کا ساتھ بھی میسّر نہ تھا۔ سو چپ رہیں اور ان کے طعنوں کو سنتی رہیں۔
مہرو کو زرمینہ سے دور ایک کرسی پر بٹھایا گیا۔ کیمرہ مین کو جیسے ہر لمحے کو ایک تصویر میں قید کرنے کا حکم ملا تھا۔ ’کلک.... کلک....‘ کی آواز ہر دو سیکنڈ کو اس شور و غل میں گونج اٹھتی۔ مہرو ہر پوز میں اپنی تصویر کھنچوا رہی تھی۔ دوسری طرف زرمینہ خاموش اپنی جگہ بیٹھی مہندی سے رچے اپنے ہاتھوں میں چمکتے کنگن کو گھور رہی تھی، جو زینب نے بیٹی اور بہو دونوں کے لئے بنائے تھے۔ مگر دونوں میں زمین اور آسمان کا فرق تھا۔ مہرو والا بلا کا خوبصورت اور جاذب نظر تھا، جبکہ زرمینہ کا معمولی سا تھا۔ دو آنسو اس کے گورے گالوں پر لڑھکتے اس کی ہتھیلی میں جا گرے۔ افراتفری اور ہنگامہ میں زرمینہ کے رونے کی آواز معدوم ہوچکی تھی۔ دیکھنے والا اسے روایتی رونا سمجھ رہا تھا جبکہ اصل معاملہ کچھ اور تھا۔ امی کی دی ہوئی نصیحت ہر سانس میں موجود تھی۔ اسے صبر کرنا تھا۔
شادی خانہ کے اوپر کھلا آسمان نظر آرہا تھا۔ ہلکے ہلکے ستارے ٹمٹماتے ہوئے ابھر رہے تھے۔ ہر چیز مہرو کی پسند کے مطابق تھی۔ سجاوٹ والی لمبی پھولوں کی بیل سے اوپر کی طرف ’ماہ مہر-افضل‘ لکھا تھا۔ زرمینہ اور ایاز کا نام مہرو اور افضل کے نام کے ساتھ صرف اسٹیج پر بنے کارڈ پر لکھا تھا۔ ایک لمبی تقریب کے بعد رخصتی کا شور اٹھا اور جلد ہی سارا معاملہ نمٹ گیا۔
شادی کے بعد زرمینہ کا اصل امتحان شروع ہوا تھا۔ زینب اور مہرو ہر وقت زرمینہ کو جہیز نہ لانے کا طعنہ دیتی رہتیں، ہمیشہ اسے احساس کمتری دلاتی رہتیں۔ لیکن وہ جانتی تھی کہ اگر طنز کا جواب طنز سے دیا، تو گھر میں روز کے ہنگامے ہوں گے۔ یا پھر ایاز اور اس کا رشتہ بھی خراب ہوسکتا تھا۔ اگر ایسا ہوا تو اس رسوائی سے اس کی چھوٹی بہنوں کے لئے مسائل کھڑے ہوسکتے تھے۔ اپنی بیوہ ماں اور چھوٹی بہنوں کی شکلیں دیکھ کر زرمینہ نے صبر کی چادر اوڑھ رکھی تھی۔ سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیا تھا۔ جب بھی اس کے دل کو تکلیف پہنچتی تو وہ اللہ کے سامنے روتے ہوئے اپنا دل ہلکا کرلیا کرتی۔ نرم مزاج، خوش اخلاق اور صاف دلی کی وجہ سے زرمینہ نے پورے گھر کا دل جیت لیا تھا۔ وہ ویسی ہی تھی، اتنی سادہ اور معصوم۔
دوسری طرف مہرو کی زندگی میں ایک کے بعد ایک طوفان آتے جا رہے تھے۔ پہلا ایک سال تو بہت اچھا گزرا۔ پھر افضل کی نوکری چلی گئی اور کمپنی سے لیا ہوا قرض جو اس نے بزنس کرنے کے لئے لیا تھا، وہ بھی کندھوں پر آگیا۔ بزنس بھی کامیاب نہیں ہوسکا۔ افضل کے گھر والے اس شادی سے خوش نہیں تھے۔ اس کی امی اپنی بھانجی، جو خود نوکری کرتی تھی، کو اپنی بہو بنانا چاہتی تھی۔ مگر افضل کی پسند مہرو ہی تھی، وہ بضد تھا۔ اس کے آگے اس کے گھر والوں کو ہار ماننی پڑی۔
فاروق صاحب اور زینب اپنی بیٹی کی زندگی ایسی تو نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے ہر طرح سے اس کی مدد کرنی چاہی۔ دو سال تک مہرو اور افضل انہی کے گھر رہے۔ افضل نے ہاتھ پیر چلانے سے انکار کر دیا تو فاروق صاحب نے اسے اپنے کسی دوست کے توسط باہر ملک بھیج دیا۔ اور یوں افضل باہر ملک جاب کرنے چلا گیا۔ جبکہ مہرو اب بھی اپنی امی کی طرف ہی رہ رہی تھی.... کچھ مہینوں بعد افضل نے فون کرکے واپس ملک لوٹنے سے انکار کر دیا۔ وہ وہاں مستقل ہونا چاہتا تھا۔ اور اپنی ایک کلیگ سے شادی کرنا چاہتا تھا۔
مہرو کا ایک حسین اور پرفیکٹ زندگی جینے کا خواب چکنا چور ہوچکا تھا۔ اب وہ کسی کی غریبی یا قسمت پر بات نہیں کرتی تھی، بس چپ رہتی۔ ’فاروق ولا‘ اب زینب کی مغرور آواز سے نہیں بلکہ اس کی خاموشی سے گونجتا تھا۔
دونوں ماں بیٹی کو اب سمجھ آیا تھا کہ دنیا مکافات عمل ہے۔ انہوں نے زرمینہ کے ساتھ برا سلوک کیا تھا اب اس کا خمیازہ تو انہیں بھگتنا ہی تھا۔ زرمینہ کو اس کے صبر کا پھل مل چکا تھا۔ وہ اپنے گھر میں خوش تھی، بہار کا موسم اس کی زندگی میں اتر چکا تھا۔ جبکہ مہرو کی زندگی اس کی حرکتوں کی وجہ سے خزاں کا پرتو بن چکی تھی۔