Inquilab Logo

حقوق انسانی پر امریکہ کی رائے زنی اور ہمارا ردعمل

Updated: April 17, 2022, 8:21 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

ہمارے ملک کے حالات پرگزشتہ دو سال میںامریکی کمیشن برائے بین الاقوامی آزادیٔ مذہب کی سفارشات منظور نہیں کی گئیں۔ دیکھنا ہے کہ اس سال کمیشن کی رپورٹ کیا کہتی ہے جو آئندہ ماہ پیش ہوگی۔

human rights
حقوق انسانی

امریکہ کا کمیشن برائے بین الاقوامی آزادیٔ مذہب اپنے انگریزی مخفف یو ایس سی آئی آر ایف کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ ایک آزاد اور دو طرفہ امریکی وفاقی ایجنسی ہے جو بیرونی ملکوں میں آزادیٔ مذہب کے حق کا جائزہ لیتی ہے کہ کہاں اس حق کے استعمال کی بھرپور اجازت ہے اور کہاں اسے سلب کیا جارہا ہے۔ اس کالم میں سہولت کی خاطر مَیں اس ایجنسی کو صرف کمیشن لکھوں گا کیونکہ اس کا نام بھی طویل ہے اور مخفف بھی کچھ کم طویل نہیں۔ مختلف ملکوں کا جائزہ لینے کے بعد کمیشن اپنی سفارشات صدر امریکہ، وزیر خارجہ اور امریکی کانگریس کو روانہ کرتا ہے۔ اس کے بعد کمیشن ا س بات کا بھی جائزہ لیتا ہے کہ اس کی سفارشات پر کتنا عمل کیا گیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ کمیشن کے آزاد ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ امریکہ کی وفاقی حکومت کا حصہ نہیں ہے۔ رہا دو طرفہ ہونا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں ڈیموکریٹ اور ری پبلکن پارٹیوں کو نمائندگی حاصل رہتی ہے۔
 ۲۰۲۰ء میں اس ادارے نے ہندوستان کو ۱۳؍ ملکوں کی ایک مختصر فہرست میں شامل کیاتھا۔ یہ فہرست اُن ملکوں سے متعلق تھی جو اس ادارے کے خیال میں ’’خصوصی تشویش‘‘ کا باعث ہیں۔ ان میں ہندوستان کے علاوہ جن دیگر ملکوں کو شامل کیا گیا تھا اُن میں پاکستان، برما، چین، ایریٹیریا، ایران، نائیجیریا، شمالی کوریا، روس، سعودی عرب، شام، تاجکستان، ترکمانستان اور ویتنام شامل تھے۔ اس فہرست میں ہندوستان کو بھی شامل کیا گیا جس کے تعلق سے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اس کا سبب سی اے اے اور این آر سی جیسے قوانین یا ضابطوں کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف امتیاز،   آزادیٔ مذہب کے حق پر قدغن، بڑے جانور کے تحفظ کے نام پر  تشدد اور ہجومی تشدد ہے۔ کمیشن نے سفارش کی تھی کہ حکومتِ امریکہ مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزی کے پیش نظر ’’ہندوستانی حکومت کی ایجنسیوں اور افسران پر ہدف بند پابندیاں عائد کرے، اُن کے اثاثوں کو منجمد کرے اور امریکہ میں اُن کے داخلے پر پابندی لگائے۔ یاد رہنا چاہئے کہ ۲۰۰۲ء کے گجرات فسادات کے بعد ریاست کے وزیر اعلیٰ کا نام’’امریکی ویزا ممنوع‘‘ کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا ۔ یہ کارروائی مذکورہ کمیشن کی سفارش پر ہی ہوئی تھی۔   گزشتہ سال ہندوستان کو خصوصی تشویش والے ملکوں کی فہرست میں شامل کرنے کے تعلق سے کچھ انحرافی آوازیں بھی پائی جارہی تھیں۔ ری پبلکن کمشنر گیری بائر اور تنزین ڈورجی (تبتی پناہ گزیں) کا کہنا تھا کہ ہندوستان کے حالات سے اُنہیں بھی تشویش ہے مگر امریکہ کو چاہئے کہ ہندوستان پر پابندیاں عائد کرنے کے بجائے اُسے اپنے ساتھ لینے (یعنی افہام و تفہیم سے کام لینے) کی کوشش کرے۔ اسی لئے پابندیاں لگانے کی سفارش کو انتظامیہ نے منظور نہیں کیا۔
  ۲۰۲۱ء میں کمیشن نے ایک بار پھر ہندوستان کو ’’خصوصی تشویش کے ملکوں‘‘ میں شامل کرنے کی یہ کہتے ہوئے سفارش کی تھی کہ آزادیٔ مذہب کے حق کے معاملے میں ہندوستان سے اب بھی منفی اطلاعات ہی مل رہی ہیں۔ اس بار کمیشن نے دہلی فسادات، سی اے اے کے مظاہرین کا ہراساں کیا جانا، ایمنیسٹی انٹرنیشنل (جس سے یہ مضمون نگار وابستہ ہے) کی سرگرمیوں کا معطل کیا جانا اور بابری مسجد کیس سے تمام ملزمین کا بَری کیا جانا جیسے اسباب کا ذکر کیا گیا تھا اور انہی بنیادوں پر ایک بار پھر ہندوستان کو خصوصی تشویش کے ملکوں میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی مگر جو بائیڈن انتظامیہ نے اس سفارش کو قبول نہیں کیا۔ اس بار کوئی انحرافی آواز نہیں سنی گئی مگر ایک کمشنر جانی مو‘ر نے لکھا: ’’میں ہندوستان کو پسند کرتا ہوں، وارانسی میں گنگا کے گھاٹوں پر میں نے صبحیں گزاری ہیں، پرانی دلی ّ کے گلیاروں میں وقت گزارا ہے، آگرہ کے فن تعمیرات کے درمیان ٹھہرا ہوں، دھرم شالہ میں دلائی لامہ کے مندر کے قریب چائے کی چسکیاں لی ہیں، اجمیر کی درگاہ پر حاضری دی ہے اور گولڈن ٹیمپل کو حیرت و مسرت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ دیکھا ہے۔ اتنا ہی نہیں، اُن عیسائی بھائیوں اور بہنوں سے ملاقات بھی کی ہے جو غریب مستحقین کی خدمت کرتے ہیں، عام دنوں میں بھی اورسخت حالات میں بھی۔ اُن کا یہ عمل بے لوث ہوتا ہے۔ ہندوستان کو خصوصی تشویش کے ملکوں میں شامل نہیں کیا جانا چاہئے۔ یہ دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے جس میں آئین کو بالادستی حاصل ہے۔ اس کی کثیر جہتی اور متنوع مذہبی زندگی عظیم ترین تاریخی برکت ہے، یہ ملک کسی دوراہے پر نہیں آیا ہے، اس کی جمہوریت، جو اَب بھی جوان ہے اور ملک کے ہر گوشے میں دکھائی دیتی ہے، ووٹوں کے ذریعہ اپنے لئے مشکل حالات پیدا کررہی ہے ۔ اگر یہ سوال ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہندوستان کے جمہوری ادارے اپنی ثروت مند تاریخ سے ماخوذ اپنی اقدار کی حفاظت کو یقینی بنائیں ۔ اس ملک کو چاہئے کہ سیاسی اور فرقہ وارانہ تنازعات کے خلاف مزاحمت کرے ۔ اس ملک اور اس کی حکومت کے پاس سماجی تانے بانے کی حفاظت اور تمام شہریوں کو یکساں حقوق کی فراہمی کے معاملے میں حاصل کرنے کیلئے بہت کچھ ہے اور کھونے کے لئے کچھ نہیں ہے ۔ ہندوستان ایسا کرسکتا ہے اور اسے کرنا چاہئے۔‘‘ 
 اب آئندہ ماہ مذکورہ کمیشن ۲۰۲۲ء کے لئے اپنی سفارشات پیش کرے گا چنانچہ یہ وقت ہے کہ ہم امریکی خارجہ سکریٹری کے معروضات کو سمجھیں جو اُنہوں نے حالیہ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران پیش کئے جس میں ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ موجود تھے۔ اس موقع پر امریکی خارجہ سکریٹری نے کہا کہ ہم ان مشترکہ اقدار کے عنوان پر اپنے ہندوستانی شراکت داروں سے گاہے گاہے گفتگو کرتے ہیں اور اسی حوالے سے چند حالیہ قابل تشویش واقعات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ان واقعات میں کچھ سرکاری، پولیس اور جیل افسران کے ذریعہ ہونے والی حقوق انسانی کی پامالی بھی شامل ہے۔
 ہندوستانی حکومت نے اس امریکی بیان کا نوٹس لیا اور بڑی جرأت کے ساتھ لیا مگر اس جوابی بیان سے امریکہ میں ہمارے تعلق سے جو کچھ بھی سوچا اور کہا جارہا ہے اُس پر کوئی بات نہیں ہوئی ۔n 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK