Inquilab Logo

ویلنٹائن ڈے! حقیقت خرافات میں کھو گئی

Updated: February 14, 2020, 3:04 PM IST | Shamim Tariq

ویلنٹائن ڈے پر کی جانے والی بےہودہ رسوم اور خرافات کا خاتمہ تشدد کے ذریعہ کیا ہی نہیں جاسکتا اس کا خاتمہ تو تبھی ممکن ہے کہ ہم لوگوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجائیں کہ اصل زندگی دوسروں کو زندگی عطا کرنے میں ہے۔

ویلنٹائن ڈے! حقیقت خرافات میں کھو گئی ۔ تصویر : آئی این این
ویلنٹائن ڈے! حقیقت خرافات میں کھو گئی ۔ تصویر : آئی این این

ویلنٹائن ڈے دنیا کے ہر ملک اور ہر خطے میں منایا جاتا ہے مگر اب اس کی روح مر چکی ہے۔ اس کی ابتدا کے بارے میں مختلف روایتیں اور حکایتیں مشہور ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں روم کے بادشاہ نے ایک فرمان جاری کیا تھا کہ کوئی سپاہی شادی نہ کرے کیونکہ اس کی زندگی روم کے تخت کیلئے وقف ہے۔ اس خلافِ فطرت قانون کا ردِ عمل ہوا اور ایک پادری ’’ ویلنٹائن‘‘ نے ان سپاہیوں کی شادی کروائی جو اس فرمان کے خلاف تھے یا شادی کرنا فطری طلب تصور کرتے تھے۔ بادشاہ کے فرمان کی خلاف ورزی کرنے کا جو نتیجہ ہوسکتا تھا سو ہوا اور ویلنٹائن کو قید میں ڈال دیا گیا۔ پھانسی کی سزا بھی سنائی گئی۔ جیل میں بھی ویلنٹائن نے اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ قیدیوں کی خدمت اور ان کی ضرورتوں کی تکمیل کرتا رہا۔ اس دوران اس نے جیلر کی بیٹی کی بھی خدمت کی جو اندھی تھی۔ ویلنٹائن کی خدمت یا معالجے سے جیلر کی بیٹی اچھی ہوگئی اور شاید ویلنٹائن کی طرف راغب بھی ہوئی۔ ۱۴؍ فروری کو ویلنٹائن کو پھانسی دی گئی اور مرنے سے پہلے اس نے جیلر کی بیٹی کو ایک خط لکھا جس کا آخری جملہ Your Valentine تھا۔
 ویلنٹائن کے دور میں روم میں عیسائیت کی تبلیغ ممنوع تھی۔ رومی شہنشاہ کلاڈیس دوم ایک ایسے مذہب کا ماننے والا تھا جس کو عیسائیت کفر قرار دیتی تھی۔ ویلنٹائن کی قربانی کے سبب پورا ملک عیسائی  ہوگیا اور ۱۴؍ فروری ۲۷۰ء کو ویلنٹائن کو پھانسی پر چڑھائے جانے کے تقریباً ۲۰۰؍ سال بعد پاپائے روم نے ویلنٹائن کو سَنت کا درجہ دے کر ۱۴؍ فروری کو بھی St. Valentine Day کے  طور پر منانے کا حکم صادر کیا۔ اس موقع پر لوگ اپنے عزیز و اقارب سے ملاقات کرتے تھے۔ بچوں کو تحائف دیتے تھے اور ایسی ملاقاتوں سے لوگوں کی باہمی محبت و تعلق میں استحکام پیدا ہوتا تھا۔ 
 مگر دورِ وسطیٰ میں ویلنٹائن ڈے کو رومانوی تصور سے آراستہ کردیا گیا اور یہ کام کیا انگریزی شاعر چاسر (Chaucer) نے۔ چاسر کو ایک عرصے تک انگریزی شاعری کا بابا آدم تصور کیا جاتا تھا مگر اب ثابت ہوچکا ہے کہ اس سے پہلے بھی انگریزی شاعری کا وجود تھا مگر اس دور کی شاعری پر علاقائیت اس درجہ غالب تھی کہ وہ آج کی انگریزی شاعری سے قطعی مختلف معلوم ہوتی تھی،  اس کے باوجود چاسر جدید انگریزی شاعری کا بابا آدم کہلانے کا مستحق ہے کہ اس کے بعد ہی انگریزی شاعری نئے مزاج اور نئے معیار سے آشنا ہوئی۔
 ویلنٹائن ڈے میں رومان کا تصور شامل کئے جانے سے ایک نئی تہذیب کی ابتدا ہوئی۔ لوگ ۱۴؍ فروری کو برملا اپنی محبت کا اظہار کرنے لگے۔ شادی کی پیشکش کی جانے لگی۔ رومان اور محبت کے معاملات میں تنازعات کے معاملات طے کئے جانے لگے حتیٰ کہ ایسے ہائی کورٹ کا تصور کیا گیا جہاں خواتین جج ہی محبت کے معاملات کا تصفیہ کریں۔ آج ویلنٹائن ڈے دُنیا کے مختلف ملکوں میں کسی نہ کسی شکل میں منایا جاتا ہے مگر ویلنٹائن نے محبت، خدمت خلق اور خلاف فطرت فرمان کو مسترد کرنے کا جو پیغام دیا تھا وہ کہیں بھی باقی نہیں ہے۔ حق کی اشاعت کیلئے جان کی بازی لگانے والے تو کیا ادنیٰ سا نقصان اٹھانے کی ہمت کرنے والوں کا بھی خاتمہ ہوتا جارہا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف ملک و معاشرہ کے ہر طبقے میں ویلنٹائن ڈے کے اثرات سرایت کرتے جارہے ہیں اور دوسری طرف ویلنٹائن ڈے منانے کا اہتمام کرنے والوں کے خلاف بعض ملکوں میں تشدد کے واقعات بھی ہورہے ہیں۔ اپنے نتائج کے اعتبار سے یہ دونوں ہی معاملے غلط ہیں اور ان سے کسی بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اللہ کی مخلوق کی بے غرض اور خوشدلی سے خدمت انجام دینے والوں کی یوں تو ہر جماعت اور ہر ملک میں کمی ہے مگر مسلم معاشرے میں معاملات کو درست کئے بغیر یا معاشرے سے کٹ کر گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
 ویلنٹائن ڈے کی موجودہ رسم یا تصور میں یقیناً ہمارے لئے کوئی کشش نہیں ہے۔ مگر محبت، خدمت خلق اور خلافِ فطرت قانون یا فرمان کے ٹھکرا دینے کے جس جذبے پر اس کی بنیاد رکھی ہوئی ہے اس سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ اس جذبہ کی معاشرے کو ضرورت بھی ہے۔ ویلنٹائن ڈے کا موجودہ یا رائج تصور یہ ہے کہ محبت کا اظہار کیا جائے، اظہارِ محبت میں ڈرامائی صورت اختیار کی جائے، شادی کا پیغام دیا جائے، محبوب کو ریسٹورنٹ یا ہوٹل میں مدعو کیا جائے مگر یہ حقیقت تقریباً سب ہی کے ذہن سے محو ہوچکی ہے کہ ویلنٹائن نے جیلر کی لڑکی کی اتنی خدمت کی تھی کہ وہ اچھی ہوگئی تھی۔ ایامِ قید میں بھی وہ ساتھی قیدیوں کو راحت پہنچانے کی کوشش کررہا تھا اور خلافِ فطرت قانون یا فرمان کو مسترد کرنے میں بھی اس نے اپنی جان کی  پروا نہیں کی تھی۔ یہ کوئی معمولی خصوصیات نہیں ہیں۔ ان کا شمار تو مقصد حیات میں ہونا چاہئے۔
 ہمارے یہاں جو حکایتیں مشہور ہیں یا جو روایتیں ہمارے معاشرے میں بہت گہرائی تک پیوست ہیں وہ سب قابل نفرت یا غلط نہیں ہیں البتہ دیکھنا یہ ضروری ہے کہ وہ ابتدا میں کیا تھیں اور بعد والوں نے انھیں کیا بنا دیا۔ عشق ایک پاکیزہ جذبہ ہے جس کی مثال اس چشمہ کی طرح ہے جو خود بھی پُرآب ہوتا ہے اور جدھر سے گزرتا ہے اس کو بھی پُر آب اور شاداب و سیراب کردیتا ہے۔ اس کی راہ میں گندگی بھی آتی ہے تو صاف ہوجاتی ہے مگر ہوس کی مثال وہ نجاست ہے جو خود بھی نجس ہوتی ہے اور جس سے چھو جائے اس کو بھی نجس کردیتی ہے۔ 
 خود ویلنٹائن نے جس جذبے کا مظاہرہ کیا تھا وہ عشق تھا۔ اب ویلنٹائن سے منسوب دن پر جس جذبہ کا اظہار کیا جاتا ہے وہ ہوس ہے۔ غالب نے ’’ ہر بوالہوس نے عشق پرستی شعار کی ‘‘ کہہ کر انسانی زندگی یا انسانی نفسیات کی بہت اہم حقیقت کی طرف اشارہ کیا تھا۔ ویلنٹائن ڈے پر کی جانے والی بےہودہ رسوم اور خرافات کا خاتمہ تشدد کے ذریعہ کیا ہی نہیں جاسکتا اس کا خاتمہ تو تبھی ممکن ہے کہ ہم،  لوگوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجائیں کہ اصل زندگی دوسروں کو زندگی عطا کرنے میں ہے۔ تنہا ایک سوال اس دن کی روح کو اُجاگر کرنے کے لئے کافی ہے کہ ویلنٹائن کا وہ کون سا جذبہ تھا جس نے اس ملک کو عیسائی ملک میں تبدیل کردیا جہاں عیسائیت کی تبلیغ ممنوع تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس خدمت کو خدمت نہیں کہا جاسکتا جس کا مقصد تبلیغ مذہب ہو جیسا کہ آج کل مشنریز کررہی ہیں مگر یہ بھی صحیح ہے کہ بے غرض خدمت اور بے لوث محبت کے دور رس اثرات ہر زمانے میں مرتب ہوتے رہے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK