Inquilab Logo

انکائونٹر : کیا کبھی سوالوں کے جواب ملیں گے؟

Updated: July 12, 2020, 10:04 AM IST | Mubasshir Akbar

وکاس دوبے کے انکائونٹر نے کئی ایسے سوال کو جنم دیا ہے جن کے جواب بہت ضروری ہیں ، ساتھ ہی کچھ حقائق کو بے نقاب ہونے سے بھی روک دیا ہے ، کیا یوگی حکومت ان تمام سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی ہمت کرسکے گی ؟

Vikas Dubey - Pic : INN
وکاس دبے ۔ تصویر : آئی این این

کانپور میں ۸؍پولیس اہلکاروں کے سفاکانہ قتل  کے ملزم گینگسٹر وکاس دوبے کو  پولیس تصادم کے دوران ماردیا گیا ۔ کانپور لانے کے دوران وکاس دوبے کا مبینہ طور پر بھاگنا اور اس کے بعد اس کا انکاؤنٹر میں مارا جانا یو پی پولیس پر کئی طرح کے سوال کھڑے کر رہا ہے۔ اپوزیشن نے بھی اس طرح کے سوال  کئے ہیں کہ اس انکاؤنٹر سے کسے بچانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ وکاس دوبے کو لے کر پہلے سے ہی یہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اسے انکائونٹر میں ہلاک کیا جاسکتا ہے۔ اس کا ثبوت آئی پی ایس امیتابھ ٹھاکر کا وہ ٹویٹ بھی ہے جو اب کافی تیزی کے ساتھ وائرل ہو رہا ہے۔امیتابھ ٹھاکرنے یہ تک لکھ دیا ہےکہ ’’پولیس کو اتنی ہڑبڑی کی ضرورت کیا تھی ؟ اسے کانپور تک تو آنے دیتے ، یہ کسے بچانے کیلئے کیا جارہا ہے ؟‘‘  ممکن تھا کہ اگر اسے کانپور تک پہنچنے دیا جاتا تو کئی سوالوں کے جواب مل سکتے تھے ، شاید اسی لئے اسے مبینہ طور پر ٹھکانے لگانا ہی مناسب سمجھا گیا۔
 ۱۸۰۰؍ سے زائد انکاؤنٹر کرنے اور سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی زندگیوں کو اجیرن کرنے والی یوگی جی کی پولیس  وکاس دوبے کو نہیں پکڑ سکی اور نہ ہی وہ اس کے انکائونٹر دستے کے ہاتھ آیا۔ اس نے پوری یوپی پولیس کو چکمہ دینے کے بعد ایم پی میں جاکر اپنی گرفتاری پیش کی جو یوگی جی کی پولیس کے لئے کسی ہزیمت  سے کم نےنہیں ہے۔واضح رہے کہ یہ وہی وکاس دوبے ہے جس نے ۱۹؍سال قبل بی جے پی کے ریاستی وزیر سنتوش شکلا کو دن دہاڑے پولیس تھانے میں ہی قتل کر دیا تھا۔ اس وکاس دوبے کو گرفتار کرنے کے لیے نصف شب میں پولیس دستے کو بھیجنے کی جو غلطی یوگی انتظامیہ نے کی اس کی اسے بہت بڑی قیمت چکانی پڑی۔  بیکرو گاؤں میں جس وقت ۸؍ پولیس اہلکاروں کا بہیمانہ قتل ہوا صوبے میں اور مرکز دونوں جگہ بی جے پی کی ایسی حکومت ہے جسے وہ خود ہی آزادی کے بعد کی سب سے طاقتور حکومت قرار دیتی  ہے اس کے باوجود وکاس دوبے کا بال تک بیکا نہیں ہوا اور وہ یہ بھیانک واردات انجام دینے کے بعد روپوش بھی ہوگیا۔۸؍ پولیس اہلکاروں کے قتل کے  بعد سے فرار وکاس کا اجین میں پایا جانا بھی کسی فلمی ٹوئسٹ سے کم نہیں تھا کیوں کہ وہ اسی مدھیہ پردیش  سے گرفتا رکیاگیا جہاں کے وزیر داخلہ انتخابات کے وقت کانپور کے امور کے انچارج تھے۔اس کی گرفتاری بھی اور اب انکائونٹر کسی بڑے ڈرامے اہم سین محسوس ہو رہا ہے کیوں کہ وکاس دوبے جیسا مرکزی کردا  ر اگر ختم کردیا جائے تو پھر ڈرا مے میں یا تو ڈراپ سین ہو جاتا ہے یا پھر کسی بہت بڑے انکشاف کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ وکاس دوبے کے انکاؤنٹر سے بہت سے ان لوگوں کو چین کی نیند آئے گی جن کے کبھی نہ کبھی وکاس کے ساتھ تعلقات رہیں ہوں گے، چاہے دوستی والے یا دشمنی والے، کیونکہ وکاس کے ساتھ بہت سی فائلیں بند ہوجائیں گی۔ اب سب سے بڑا سوال پولیس محکمہ پر ہے کہ کسی بدمعاش کا قد اتنا بڑاکیسے ہوا، اس کی اتنی ہمت کیسے ہوئی کہ ان کے آٹھ اہلکاروں کو ہلاک کر دے، ہلاک کر کے ان کی ریاست سے فرار ہونے میں بھی کامیاب ہوجائے اور وہ پولیس اپنے ساتھیوں کے ملزم کو جیل کی قید میں بند رکھ کر قانونی سزا دلوانے سے محروم رہ جائے۔ سوال عوام سے بھی ہے کہ کیا اسے ایسے عمل پسند ہیں، جس میں مجرم اور ملزمین بغیر عدالتی کارروائی کے مڈبھیر میں مارے جائیں، اگر نہیں تو وہ پولیس کی نااہلی پرسوال ضرور اٹھائیں، کیا عوام کا عدلیہ پر سے اعتماد کم ہوگیا ہے۔ عدلیہ کو بھی اس پرغور کرنا ہوگا کہ کیا مجرم عدالت کے موجودہ قوانین کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور برسوں تک ان کو سزا نہیں ہوتی، تاریخ پر تاریخ پڑتی رہتی ہے اور مجرموں کا جرم کا کاروبار ایسے ہی چلتا رہتا ہے۔ اس پر قدغن لگانے کا کام ابتدائی طور پر تو پولیس کا ہی ہے لیکن اگر وہ ناکام نظر آتی ہے تو عدالتیں اس معاملے میں مداخلت کرسکتی ہیں لیکن کیا ہمارا سماج اور نظام حکومت عدالتوں کی اتنی فعالی برداشت کرنے کی قوت برداشت رکھتے ہیں ؟ یہ اہم سوال ہے۔ 
 وکاس دوبے کو اتر پردیش پولیس نے مدھیہ پردیش پولیس سے اپنی تحویل میں لیا تھا جس کے بعد قانونی طور سے اس کی حفاظت کرنا اتر پردیش پولیس کی ذمہ داری تھی لیکن یہ ممکن نہیں ہو سکا ۔ گاڑی  الٹ جانا   اور وکاس کے بھاگنے کی کوشش کرنا اور اسے گولیوں سے بھون دینا سب پہلے سے منصوبہ بند محسوس ہو تا ہے۔ ہمیں تو یہی محسوس ہو تا ہے کہ پولیس نے اس کی بھرپور پلاننگ کرلی تھی اور اس کے بعد اسے عملی جامہ پہنایا گیا۔ اگر وکاس دوبے اجین میں گرفتار نہ ہوا ہوتا تو اس کا کچھ روز قبل ہی انکائونٹر کردیا جاتا  لیکن اجین پہنچ کر اس نے ایک طرح سے اپنے لئے کچھ دن کی زندگی حاصل کرلی تھی لیکن یہ  پولیس کی تحویل میں قتل کا معاملہ ہے جس  پرپولیس کی گرفت ہونی چاہئے۔ قانون نیز قانونی عمل کو یقینی بنائے رکھنے کیلئے سپریم کورٹ کواز خود اس کا نوٹس لیتے ہوئے ضروری کارروائی کرنی چا ہئے، قومی حقوق انسانی کمیشن کو بھی  اس معاملے میں حرکت میں آنا چاہئے۔  جرم چاہے جتنا سنگین ہو اور مجرم چاہے جتنا خونخوار اور شاطر ہو، قانونی کارروائی اور عدالتی عمل کے بغیر اسے سزا دینا آئین ،قانون اور مہذب سماج کے اصولوں کے خلاف ہے  ۔ وکاس دوبے اور اس کے  ساتھیوں نے جو بہیمانہ حرکت کی تھی اس کی پاداش میں ان کو پھانسی کی سزا ملنی چا ہئے تھی لیکن اس سے قبل ہی    انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا  ۔  انکائونٹر کے قبل وکاس دوبے کے مکان جو جس طرح زمیں بوس کیا گیا تھا اس پر بھی سوال اٹھنےچاہئیں کیوں کہ اس واقعہ سے قبل کہیں بھی یہ نظیر نہیں ملتی کہ کسی مجرم کو  پکڑنے میںناکامی کے بعد اس کے مکان کو منہدم کردیا گیا ہو ۔ یہاں تک کہ عدالتوں نے بھی ایسا کوئی حکم دینے سے گریز کیا ہے۔ پھر کیا ضرورت پڑ گئی تھی کہ پورے کے پورے مکان کو مسمار کردیا گیا۔ اس پر سوشل میڈیا پر کئی سوال بھی اٹھے کہ وکاس دوبے کے خلاف پولیس اپنا غصہ نکالنے کے  ساتھ ساتھ وہ تمام ثبوت ختم کررہی ہے جس سے سفید پوشوں پر انگلیاں اٹھ سکتی تھیں۔ اس گھر میں بلاشبہ کئی ثبوت ہوں گے جنہیں گھر کے  انہدام کے ساتھ ساتھ ختم کردیا گیا۔
 وکاس دوبے کی پہنچ ایک ساتھ کئی سیاسی پارٹیوں میں تھی ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ گزشتہ ۲۰؍ سال چاہے جس پارٹی کی سرکار رہی ہو کسی نے بھی اس پر ہاتھ ڈالنےکی جرأت نہیں کی۔ اب بھی اس کا بال بیکا نہیں ہو تا اگر وہ پولیس اہلکاروں کو کھلے عام قتل نہ کردیتا ۔  اس کے اسی کام نے اس کا کام تمام ہونے کا راستہ صاف کردیا لیکن  اس طرف سبھی کا دھیان جانا بہت ضروری ہے کہ ایسے انکائونٹرس کے بعد سب سے زیادہ انگلیاں پولیس پر ہی اٹھتی ہیں  اور پولیس ہی اگر چاہے تو سیاست میں اور سماج میں جرائم کی آمیزش کو روک سکتی ہے لیکن  اس صورتحال میں جہاں اسے کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے، کسی سوال کا جواب ملے یہ ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔ اس صورت میں عدالت کو اپنا کام کرنا ہوگا کیوں کہ عدلیہ ہی قانون کی بالادستی کو دوبارہ قائم کرنے کا کام کرسکتی ہے۔ موجودہ حالات میں عدالتوں کو از خود نوٹس لیتے ہوئے پولیس اور انتظامیہ سے کچھ تلخ سوال پوچھنے چاہئیں تاکہ وہ  باتیں سامنے آسکیں جو وکاس دوبے کے انکائونٹر کے بعد پردے کے پیچھے چلی گئی ہیں۔ 
  سماج وادی پارٹی کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ  اکھلیش یادو نے بلاشبہ یہ درست تبصرہ کیا ہے کہ کار نہیں پلٹی بلکہ سرکار کو پلٹنے سے بچالیا گیا ہے۔ کیا یہاں پر یہ سوال کرنا اہم نہیں ہے کہ پولیس نے اس کا انکائونٹر کر کے بہت سے بڑے چہروں کے نقاب بچا لئے ہیں جس میں صرف سیاست داں اور وزراء ہی نہیں پولیس کے اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں۔ خود کانگریس اور سماج وادی پارٹی کی جانب سے بھی یہ موضوع اٹھایا گیا  کہ وکاس دوبے کا انکائونٹر کرکے کئی چہروں کو بے نقاب ہونے سے  بچایا گیا ہے اس لئے اب ضروری ہے کہ اس معاملہ کی جانچ سپریم کورٹ کے کسی موجودہ جج سے کروائی جائے تاکہ حقیقت سامنے آسکے اور پولیس، سیاستداں اور جرائم کا جو گٹھ جوڑ ہے اسے بھی بے نقاب کیا جاسکے۔ اگر یوپی کی یوگی حکومت واقعی ریاست کو جرائم سے پاک کرنا چاہتی ہے اورمجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہتی ہے تو اس کے پاس وکاس دوبے کے انکائونٹر کا بہت بڑا بہانہ ہے کہ وہ اس کے ذریعے کم از کم سیاست کو جرائم اور مجرموں سے پاک کرنے کا سلسلہ شروع کردے لیکن کیا واقعی یوگی آدتیہ ناتھ اتنا بڑا قدم اٹھاسکیں گے ؟ کیا وہ یوپی کی سیاست کو، جس میں مجرموں سے گٹھ جوڑ ایک فیشن بن گیا ہے ، آلائش سے پاک کرسکیں گے؟ ہمارے خیال میں ایسا ممکن نہیں ہے کیوں کہ اب تک کسی بھی لیڈر نے اتنی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ نہیں کیا ہے کہ مجرم جو انہیں الیکشن میں فتح دلانے کی کلید ہوتے ہیں ، اپنے ہاتھوں سے ختم کرنے کا پروانہ جاری کریں۔ اسی لئے ہمارا یہ اندیشہ بالکل درست ہے کہ اس انکائونٹر کو بھلانے میں عوام کو ، پولیس کو اور سیاستدانوں کو بہت زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ اس کے بعد پھر کسی بڑی واردات کا انتظار کیا جائے گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK