Inquilab Logo

اِس رات کے پردے میں سحر دیکھ رہا ہوں

Updated: May 21, 2022, 11:18 AM IST | Shahid Latif | Mumbai

حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے۔ بدلنا ان کی سب سے بڑی خصوصیت ہے اس لئے دانشمند وہ ہے جو بدلے ہوئے حالات کا تجزیہ کرکے ان حالات سے مثبت انداز میں مقابلہ کا لائحہ عمل مرتب کرے ۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

ایک شخص ہے جو سیلاب کی زد پر ہے اور موجوں کا سینہ چیر کر محفوظ  مقام پر پہنچنا چاہتا ہے۔ ہرچند کہ منہ زور موجوں سے لوہا لینا بہادری ہے مگر سیلاب کے پیش نظر حکمت کا تقاضا کچھ اور ہے۔یہ شخص حکمت کو بالائے طاق رکھ کر بہادی سے کام لیتا ہے اور موجیں اُسے بہا لے جاتی ہیں۔ اس کے برخلاف، دوسرا شخص ہے۔ وہ بھی سیلاب کی زد پر ہے، بہادر وہ بھی ہے مگر حکمت کے تقاضوں کو بھی سمجھتا ہے۔ وہ نام نہاد بہادری کے بجائے حکمت سے کام لیتے ہوئے ایسا راستہ تلاش کرتا ہے جہاں سیلاب کا زور کم ہو اور محفوظ راستہ بھی موجود ہو۔ وہ سیلاب کی پُرشور موجوں کو منہ چڑاتا ہوا محفوظ راستے سے باہر نکل جاتا ہے اور سیلاب سے اپنے تحفظ میں کامیاب ہوجاتا ہے۔  قوموں کی زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ نہ تو نشیب میں رہ کر فراز کا مزاج دانشمندی ہے نہ ہی فراز پر رہ کر نشیب سے لاعلمی فراز کے شایاں ہے۔ کامیابی کی راہ وہاں سے کھلنی شروع ہوتی ہے جہاں سے عقل و شعور کی روشنی میں راستے کی تلاش کا سنجیدہ اور خوش آئند آغاز کیا جاتا ہے۔ آزادی کے ۷۵؍ سال بعد، ہزاروں ہولناک فسادات کے بعد، اپنے علمی مرتبے سے دوری کے بعد، سماجی اور معاشی استحکام سے محرومی کے بعد، اعلیٰ سرکاری مناصب گنوا دینے کے بعد، سیاسی طور پر حاشئے پر آنے کے بعد اور قدم قدم پر آزمائش کے حالات پیدا ہونے کے بعد ہی سہی، اَب ایسا لگتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان اس قول ِ فیصل کی معنویت کو سمجھنے کے قابل ہوگئے ہیں کہ حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے۔ یہ قابل ستائش رجحان ہے۔ کل تک حکمت کی باتیں کرنے والوں سے کہا جاتا تھا کہ آپ بزدلی پیدا کرنے کے درپے ہیں۔ اب ایسی کوئی بات سننے میں نہیں آتی۔ وقت بدلا، حالات بدلے اور نہایت درجہ کی خرابی ٔ حالات کے بعد، کم از کم، یہ مضمون نگار اس بات کو محسوس کررہا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے سوچنے سمجھنے کے ڈھنگ میں تبدیلی آئی ہے۔ اگر اُنہوں نے ۱۹۹۲ء کے بعد تعلیم کو اولین ترجیح دی تھی جس کے گرانقدر اور حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں تو ۲۰۱۴ء کے بعد سے غوروفکر اور تدبر کا نرم سایہ اُن پر دراز ہوا ہے۔ گزشتہ آٹھ برسوں میں ان کی جانب سے کئی ایسے مواقع پر صبرو تحمل اور حکمت کا مظاہرہ ہوا ہے جن پر اختلاف رائے کی وجہ سے مسئلہ تو کیا حل ہوتا، نئے مسائل پیدا ہوجاتے تھے۔
 یہ خو شگوار تبدیلی اظہر من الشمس ہے۔ اس کی مثالیں دینا ضروری نہیں، پھر بھی صرف دو مثالوں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔پہلی مثال ہے گزشتہ آٹھ برسوں میں ہونے والے انتخابات میں مسلمانوں کا رجحان۔ یہ رجحان بہت اہم اور ناقابل تردید ثابت ہوا۔ اگر سیکولر پارٹیاں منقسم نہ ہوتیں اور ارتکاز ووٹ (پولرائزیشن) کی سیاست نے حالات کو یکسر نہ بدلا ہوتا تو متحدہ مسلم ووٹ کچھ اس طرح اثر انداز ہوتا کہ سب کو چونکا دیتا۔ حالیہ مہینوں میں یوپی کے انتخابات میں مسلم ووٹ اس قدر متحد تھا کہ ارتکاز اور اتحاد کے معاملے میں یادَو ووٹ بھی اس کی برابری نہیں کرسکا۔ نتائج کے منظر عام پر آنے کے بعد بہت سوں نے مایوسی کا اظہار کیا مگر اس میں مایوس ہونے کی بات نہیں تھی۔ جس پارٹی کو انہوں نے اپنے ووٹوں کیلئے منتخب کیا تھا اس کی حاصل شدہ نشستوں کی تعداد میں ۷۰؍ سے زائد سیٹوں کے اضافے کا سہرا کس کے سر بندھتا ہے؟ آپ کہیں گے مسلمانوں کے سر بندھتا ہے۔ مَیں اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر کہوں گا کہ مسلمانوں کی حکمت اور اتحاد کے سر بندھتا ہے۔ مسلم ووٹ اس قدر متحد نہ ہوتا تو ۷۰؍ سے زائد سیٹوں کا اضافہ ناممکن تھا۔  دوسری مثال: شہریت ترمیمی قانون کے وقت پُرامن احتجاج کے جمہوری حق کا نہایت عمدگی سے استعمال بھی حکمت ہی کے زیر اثر تھا۔ خواتین کو گھر سے نکل کر مظاہرہ گاہوں تک جانے کی اجازت دے کر مسلم مردوں اور سربراہان ِ خاندان نے بھی حکمت ہی کا ساتھ دیا۔ اس کا اثر بھی سامنے آیا۔ دہلی کا ’’شاہین باغ‘‘ سرخیوں میں جگہ پانے لگا اور اسے دیگر قوموں کی بھی حمایت حاصل ہوئی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ملک کی دیگر ریاستوں کے شہروں میں بھی شاہین باغ بن گئے جو سبوتاژ کی کوششوں کے باوجود اتنی کامیابی کے ساتھ جاری و ساری رہے کہ آج تک ان کی مثال دی جاتی ہے۔  اس میں شک نہیں کہ ’’شاہین باغات‘‘ کے بہت سے مظاہرین کو احتجاج کی ’’قیمت‘‘ چکانی پڑی مگر تب تک تاریخ مرتب ہوچکی تھی۔ جب یہ تاریخ لکھی جائے گی تو ’’شاہین باغات‘‘ کی سب سے بڑی خوبی سنہری حروف میں لکھی جائیگا کہ اشتعال دلانے کی کوشش کے باوجود ہر جگہ یہ احتجاج نہایت پُرامن طریقے سے جاری رہا۔    مثالیں اور بھی ہیں مگر مَیں سمجھتا ہوں کہ ہمارے قارئین اتنے باشعور ہیں کہ ان سطور کو پڑھتے وقت کئی دیگر مثالیں اُن کے ذہنوں میں ازخود نمودار ہوجائینگی۔ اس لئے آئیے اُس آخری بات کی طرف جس کیلئے یہ مضمون قلمبند کیا جارہا ہے۔ وہ یہ کہ زیر بحث حکمت اور تدبر ہی کی وجہ سے بڑی تعداد میں برادران وطن کو یہ احساس ہورہا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو راندۂ درگاہ اور تختۂ مشق بنانے کی سیاسی کوششوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے۔ آپ چاہیں تو یوٹیوب چینلوں اور اکا دکا نیوز چینلوں پر بھی مبصرین کی رائے سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے مختلف مباحثوں کے دوران نہ صرف یہ اعتراف کیا کہ مسلمان سنجیدگی اور حکمت و تدبر کے ساتھ حالات کا مقابلہ کررہے ہیں بلکہ یہ بھی کہا کہ اُن کےساتھ ناانصافی ہورہی ہے۔ مضمون نگار یہ نہیں کہتا کہ یہ اعترافات کافی ہیں اور ان کی وجہ سے مسلمانوں پر ہونے والی زیادتیوں کا سلسلہ موقوف ہوجائیگا یا اُن کے حقوق حاصل ہوجائینگے۔ ایسا کہنا حقیقت سے منہ چرانے جیسا  ہوگا مگر اشتعال سے اعتدال کی طرف اور جوش سے ہوش کی طرف جو قدم بڑھے ہیں اُن کی برکت سے حالات کا بدلنا یقینی ہے۔ مبصرین کے مذکورہ اعتراف میں بدلتے ہوئے رجحان کی گواہی مضمر ہے۔ برادران وطن میں ہمدرد اور ہمنوا افراد کی تعداد میں یہ اضافہ بلاشبہ  بڑی کامیابی ہے بالخصوص ایسے دور میں جب سیاسی جماعتیں اپنی زبان سے لفظ ’’مسلم‘‘ کہنا بھی گوارا نہیں کررہی ہیں۔  مگر، اس خوش آئند رجحان  پر مزید محنت درکار ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK