Inquilab Logo

ہم آگے نہیں بڑھ رہے، پیچھے جارہے ہیں

Updated: January 24, 2021, 2:24 PM IST | Aakar Patel

مقام ِ افسوس ہے کہ ملک میں جن موضوعات پر گفتگو ہونی چاہئے، اُن پر نہیں ہورہی ہے۔ اپنا محاسبہ بھی نہیں ہورہا ہے۔ معاشی سطح پر ٹھہرے ہوئے ہوتے تو شاید اتنا دُکھ نہ ہوتا، ہم تو پچھڑ رہے ہیں۔ بی جے پی نے ترقی کی صرف الیکشن جیتنے میں۔

Picture.Picture :INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

ہم معاشی سست رفتاری کی سلسلہ وار ۱۳؍ ویں سہ ماہی میں داخل ہوچکے ہیں۔ جی ڈحی پی ۲۰۔۲۰۱۹ء کے مقابل ۲۱۔۲۰۲۰ء میں کم ہوئی ہے۔ سال گزشتہ تو جی ڈی پی پھر بھی بہتر تھی، اب نہیں ہے۔ جنوری ۲۰ء میں ہم جہاں تھے، وہاں پہنچنے کیلئے ہمیں شاید ایک سال لگے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے زیادہ عرصہ درکار ہو، ہم نہیں جانتے کہ کتنا وقت لگے گا۔   یاد رہنا چاہئے کہ مسئلہ کووڈ۔۱۹؍ کی وجہ سے شروع نہیں ہوا۔ پہلے سے موجود تھا۔ شرح نمو میں تخفیف جنوری ۲۰۱۸ء سے شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد، اس میں مزید تخفیف ہوتی رہی۔ حکومت نے کچھ اعدادوشمار میں ردوبدل بھی کیا مگر اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ نہ تو خود حکومت کو نہ ہی معیشت کو۔ یہ تین سال پر محیط سلسلہ وار تخفیف ہے۔ ہماری معاشی ترقی کی جو اُمیدیں وابستہ کی گئی تھیں اُن پر پانی پھر گیا ہے۔ آپ چاہیں جتنی تقریریں کرلیں مگر اس حقیقت کو نہیں بدل سکتے کہ ۳۹؍ مہینوں سے معاشی سست رفتاری تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔  بڑے زوروشور سے چین اور امریکہ سے مقابلے کی باتیں کرنا اور پھر بنگلہ دیش کی فی کس جی ڈی پی سے بھی پیچھے چلے جانا ملک میں اعتماد سازی کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔اگر وباء نہ پھیلی ہوتی اور اس کی وجہ سے لاک ڈاؤن نہ لگایا گیا ہوتا تب بھی ہم بحران میں تھے۔ حکومت کو اس کا سبب نہیں معلوم، نہ ہی وہ معلوم کرپارہی ہے کہ جنوری ۲۰۱۸ء کے بعد سے صورتحال کیوں بدلی ہوئی ہے۔ بیرونی ادارے اور مبصرین نے اس کی وجوہات پر روشنی ڈالی ہے مگر اُن پر حکومتی اداروں میں جس غوروخوض کی ضرورت ہے وہ نہیں کیا گیا۔ اس کا سبب ہر خاص و عام کے علم میں ہے۔ آخر راجہ سے کون کہے گا کہ اس کے راج پاٹ کا حال بُرا ہے؟ کوئی کہنے کی جرأت کرے تو بُرا کہلائے، ردعمل کا شکار ہو اور ردعمل کے طور پر کم از کم اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایسی صورت میں ہم معاشی سست روی کے ساتھ ہی شب و روز گزار رہے ہیں اور اسی راہ پر گامزن ہیں جس نے ہمیں اس تباہی کے دہانے پر پہنچایا۔ تباہی کی نشانیاں ہمارے آس پاس بکھری ہوئی ہیں۔ وہ سارے مواقع جو ٹرمپ کی امریکہ فرسٹ پالیسی کی وجہ سے اور پھر کووڈ کی وجہ سے چین کے ہاتھ سے نکل گئے تھے وہ ہم تک نہیں پہنچے، بنگلہ دیش اور ویتنام کی جھولی میں جاگرے۔ فی کس جی ڈی پی کے معاملے میں ہمارا پڑوسی بنگلہ دیش ہم پر سبقت لے گیا۔ اس کی فی کس جی ڈی پی میں برآمدات کی وجہ سے اضافہ ہوا، جس میں مسلسل تیزی دیکھی گئی جبکہ ہم ۲۰۱۴ء سے اب تک وہیں رُکے ہوئے ہیں جہاں تھے۔ درآمدات میں صفر اضافے کے چھ سال گزر جانے کے باوجود ہم کچھ نہیں کر پارہے ہیں۔ بنگلہ دیش کی سبقت کا ایک سبب اس کے ورک فورس میں خواتین کی شرکت ہے۔ تھامسن رائٹرس فاؤنڈیشن کی رپورٹ میں، خواتین کیلئے دُنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں ہم چوتھے مقام پر تھے (۲۰۱۱ء) مگر ۲۰۱۸ء میں سب سے پچھڑ گئے۔ آخری مقام پر پہنچ گئے۔ اور شاید اب بھی وہی ہیں۔
 محنت مزدوری میں خواتین کی کمی کے متعدد پیچیدہ اسباب ہیں لیکن ان سے نمٹنے میں حکومت کی پسپائی اور حالات کو بہتر بنانے میں بالخصوص موجودہ حکومت کی ناکامی کافی حد تک ذمہ دار ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے معیشت مجروح ہوئی تھی جو گزشتہ چند ماہ میں سدھر سکتی تھی مگر اس کیلئے ضروری اقدام نہیں کئے گئے۔ جب ۲۰۲۱ء کے وسط میں اُس وقت ختم ہونے والی سہ ماہی کے نتائج سامنے آئیں گے تب مودی صاحب کہیں گے کہ ہم دُنیا کی سب سے تیز رفتار معیشت ہیں۔ اور اگر تب تک معاشی سرگرمیوں میں ۲۵؍ فیصد کا اضافہ ہوا تو کہیں گے کہ یہ اُن کا کرشمہ ہے۔ اِس دوران اکنامسٹ نے رپورٹ دی کہ ۲۰۲۰ء میں مکیش امبانی کی دولت میں ۳۵۰؍ فیصد اضافہ ہوا جبکہ اڈانی کی دولت میں ۷۰۰؍ فیصد۔ ان صاحبان کی دولت بڑھ رہی ہے اور ہمارا یعنی عوام کا روزگار چھن رہا ہے۔ اس سلسلے کے اعداددوشمار زیادہ بھی ہوسکتے تھے مگر نہیں ہیں کیونکہ بہت سے لوگوں نے خود کو روزگار مارکیٹ سے علاحدہ کرلیا ہے۔ جو لوگ برسرکار نہیں ہیں وہ فی الحال سرگرمی کے ساتھ روزگار کے متلاشی نہیں ہیں، اس لئے اُن کا شمار نہیں ہورہا ہے اور وہ بے روزگار نہیں مانے جارہے ہیں۔ اگر ان کا بھی شمار ہو تو بے روزگاری کی شرح مزید زیادہ ہو۔ ممکن ہے کہ بے روزگاری کی شرح ۱۵؍ فیصد یا اس سے بھی ,زیادہ ہوچکی ہو۔ آپ چاہے جس زمرے کی بات کریں، خواہ بینک کے قرضوں میں اضافہ کی بات ہو یا آٹوموبائل کی فروخت کی، گراف اوپر نہیں اُٹھ رہا ہے کسی بھی شعبے میں۔ اور اوپر اُٹھنا تو دور کی بات، ہر جگہ تخفیف دکھائی دے رہی ہے۔ اس صورتحال نے ہم کو کئی سال پیچھے کردیا ہے، شاید ایک دہائی پیچھے کردیا ہو۔
 ان تمام حقائق کو پس پشت ڈال کر بی جے پی کا سیاسی جوش و خروش ہے کہ کم نہیں ہوتا۔ ۲۰۱۹ء میں پارٹی نے مغربی بنگال کی تقریباً آدھی سیٹیں جیت لی تھیں اور اگر اس سال کے اواخر میں وہ ریاستی الیکشن جیت لے تو حیرت نہ ہو۔ الیکٹرول بانڈس کی وجہ سے اس کے پاس جو وسائل ہیں اور مودی کو کارپوریٹس کا جو غیر معمولی تعاون حاصل ہے، وہ کسی اور پارٹی کو حاصل نہیں۔ تمام پارٹیوں کے وسائل کو جوڑ لیا جائے تب بھی وہ بی جے پی کے وسائل کے برابر نہیں۔ اس لئے، بی جے پی کیلئے الیکشن جیتنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ ایک اور ریاست اس کی فتوحات کی فہرست میں شامل ہوجائیگی اور اگر اس بار نہیں تو آئندہ یقیناً ایسا ہوگا۔ 
 معاشرہ ٹوٹ رہا ہے۔ اس میں ایسی دراڑیں پڑ گئی ہیں کہ جن کی مرمت بھی مشکل ہوگی۔ مَیں یہ ساری باتیں اس لئے نہیں کررہا ہوں کہ خدانخواستہ مَیں مایوس ہوں بلکہ اس لئے کہ انسان کو حقیقت پسند ہونا چاہئے۔ بالائی سطح سے معاشرہ کی خرابی ہورہی ہو تو اس کو روکنا ویسے بھی مشکل ہوتا ہے۔ یہاں تو روکنے کی کوشش بھی دکھائی نہیں دیتی۔ 
 معاشی زوال سے لے کر قومی سلامتی تک، اور بے روزگاری سے لے کر سماجی کشیدگی تک، مودی حکومت کو کسی بھی معیار یا کسوٹی پر پرکھ لیجئے، اس کی ناکامی صاف جھلکتی ہے۔ وطن عزیز آئندہ بھی شاید اُسی راہ پر گامزن رہے جو اس نے ۲۰۱۴ء میں اپنے لئے منتخب کی تھی۔ مودی کی مقبولیت جو کبھی کم نہیں ہوتی وہ آئندہ بھی جوں کی توں رہے گی اور وہ روزانہ عوام کو خوشخبری دیں گے کہ اُنکی قیادت میں ملک وہ سب کررہا ہے جو ماضی میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ n 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK