Inquilab Logo

ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا فرمایا ہے

Updated: January 17, 2020, 9:54 AM IST | Dr. Ashfaque Ahmed Virk

قرآن معظم جہاں متنوع برکات کا سرچشمہ ہے وہیں اس کی کثیرالجہتی کی بھی اپنی شان ہے۔ انہی میں ایک جہت قرآن کے تخلیقی حسن اور ادبی اسلوب کی بھی ہے۔ اس کی ایک مثال سورۂ اخلاص ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنا بھرپور اور جامع تعارف بیان فرما دیا ہے۔ اسی طرح حضرت انسان کا ایک بھرپور خاکہ بھی تین آیات میں بیان کردیا ہے جس سے انسان کے ماضی، حال ، مستقبل اور اس کے مزاج و ترجیحات کی ایک تصویر نظروں کے سامنے آ جاتی ہے۔

قرآن مجید میں حضرتِ انسان کا مختصر اور جامع تصور بیان کیا گیا ہے۔ تصویر: پی ٹی آئی
قرآن مجید میں حضرتِ انسان کا مختصر اور جامع تصور بیان کیا گیا ہے۔ تصویر: پی ٹی آئی

 ’’بیشک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔‘‘
 قرآن معظم میں قادرِ مطلق کا یہ خاص اسلوب ہے کہ جہاں لوگوں کی توجہ کسی خصوصی مسئلے یا نکتے کی طرف مبذول کروانا مقصود ہو وہاں کسی چیز کی قسم کھا کے بات کی جاتی ہے۔ یہ ویسے بھی انسانی فطرت ہے کہ جب کوئی حلف لے کر یا قسم کھا کے بات کرے، اس کا ذہن فوری متوجہ ہوجاتا ہے۔ یہاں تو بہ یک وقت چار چیزوں کی قسم کھا کے فرمایا جارہا ہے کہ ہم نے اس انسان کو بہترین انداز میں تخلیق کیا ہے۔ یہ بات اس ہستی کی طرف سے کہی جارہی ہے جس کے ایک کُن کہنے سے پوری کائنات وجود میں آجاتی ہے، جو اس دھرتی کے سینے، مہیب پہاڑوں اور لامحدود سمندروں کو جمانے اور پھر انہیں روئی کے گالوں کی طرح اڑانے اور پلک جھپکتے خشک کرنے کی قدرت رکھتی ہے۔
 اب ذرا ’احسن تقویم‘ کے مفہوم کی جامعیت پر غور فرمائیے۔ آج تو کوئی عام سی کمپنی بھی اگر اپنے کسی معمولی سے پروڈکٹ کے بارے میں کوئی دعویٰ کرے تو وہ بالعموم سچ ثابت ہوتا ہے، جبکہ یہاں تو یہ دعویٰ کرنے والی ہستی خود رب ِ کائنات کی ذات ہے اور جس پروڈکٹ کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے وہ حضرتِ انسان ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اس دنیا کی بڑی سے بڑی فرم یا کمپنی اپنی کسی بہتر سے بہتر پروڈکٹ کے بارے میں احسن ِ تقویم جیسے دعوے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ ایسی بڑائی صرف مالک ِ اوّل و آخر ہی کو زیبا ہے۔
 آئیے! ذرا اس مشت ِ خاک کو احسنِ تقویم کے چاک پہ چڑھا کر اشرف المخلوق بنا ڈالنے کی حقانیت پہ بھی ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ انسان کی عظمت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ رب ِ کائنات نے فرشتوں کو اسے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ زمین پہ اس کے لئے جمادات و نباتات و حیوانات کا پورا نظام ترتیب دیا۔ پانیوں اور ہواؤں کو اس کے تصرف میں دیا۔ بقول شاعر مشرق
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل، یہ گھٹائیں 
یہ گنبدِ افلاک، یہ خاموش فضائیں 
یہ کوہ، یہ صحرا، یہ سمندر، یہ ہوائیں 
تھیں پیشِ نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں 
 آئیے ذرا حضرت ِ انسان کے ظاہری و باطنی کمالات پہ ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ قادر ِ مطلق نے روئے زمین پر آج تک کروڑوں ، اربوں ، کھربوں انسان پیدا کئے ہیں ۔ اس طرح کہ سب کے خون کا رنگ ایک ہے۔ سب کے پاس ایک جیسا جسمانی ڈھانچہ ہے۔ سب کو دو آنکھیں ، دو کان، دو ہاتھ، دوٹانگیں ، ایک ناک، ایک سر اور ایک منہ سے نوازا ہے لیکن صناعی کا معجزہ ملاحظہ ہوکہ ایک کی شکل دوسرے سے نہیں ملتی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جو جسمانی ساخت مقرر کردی ہے، اس سے ہٹ کے کسی انسانی ڈھانچے کا بنانا تو بہت دور کی بات، کوئی اور ڈھانچہ ذہن میں آ ہی نہیں سکتا، یعنی انسان کے جو جو اعضاء جسم کے جس جس حصے پر لگا دیئے گئے ہیں ، ان میں کسی قسم کی تبدیلی احاطۂ خیال میں بھی نہیں آسکتی۔ یہ ہے تخلیق کا کمال۔ یہ ہے احسنِ تقویم!
 یہ تو ہے انسان کی جسمانی ساخت کا معاملہ اور جہاں تک اس کی ذہنی استطاعت کا تعلق ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ اس نے اپنے اسی ذہن کو استعمال میں لاتے ہوئے کائنات کی تسخیر کا لامحدود سلسلہ شروع کررکھا ہے۔کہیں وہ دھرتی کا سینہ چیر کے معدنیات کے خزانوں کا وارث بن گیا، اور کہیں سمندر کی کوکھ سے اناج اُگانے کا رواج قائم کرنے میں کامران ٹھہرا۔ کہیں وہ پرندوں سے بہتر پرواز کرتا ہوا چاند اور مریخ میں سیندھ لگا آیا اور کہیں اس نے کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائل فون، فیکس اور برق رفتار طیاروں کے طلسم سے انسانی سوچ سے بھی وسیع دنیا کو ایک گاؤں کی طرح سکیڑ کر رکھ دیا۔ بقول اقبال؎
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے ، لب پہ آ سکتانہیں 
محو ِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
وہ اپنی ایجادات کے زعم میں اتنا آگے نکل گیا کہ خالق کائنات سے یوں مکالمہ کرتا نظر آیا
تو شب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفریدی ایاغ آفریدم
بیابان و کهسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
آپ نے رات بنائی، میں نے چراغ بنایا۔ آپ نے مٹی پیدا کی، میں نے اس سے پیالہ بنا لیا۔ آپ نے بیاباں ، کوہسار اور وادیاں پیدا کیں ، میں نے خیابان، گلزار اور باغ بنائے
 یہ انسانی ذہن ہی کا کمال ہے کہ ہر طرف نئی سے نئی ایجادات کا غلغلہ ہے اور اس کا ولولہ ہے کہ کسی طور ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ کائنات ہے کہ اس کے لامختتم عزائم کے سامنے لرزہ براندام ہے۔ محققین بتاتے ہیں کہ ان ساری ماراماریوں کے باوجود ابھی انسانی ذہن کا دسواں حصہ بھی استعمال نہیں ہوا۔ اسے کہتے ہیں خلقت کا حُسن…اس کا نام ہے احسنِ تقویم۔
اب ذرا حضرت انسان کے بارے میں سورۂ بنی اسرائیل کی یہ آیت ملاحظہ ہو
 ’’اور انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔‘‘  (بنی اسرائیل:۱۱)
 انسان بحیثیت مجموعی اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرنے میں سہل پسند واقع ہوا ہے۔ اپنے فرائض سے چشم پوشی اختیار کرتا ہے اور محنت سے جی چراتا ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی نے انسان کی کامیابی کا نسخہ سیدھے سادے الفاظ میں یوں بیان کیا تھا
فرشتوں سے بہتر ہے انسان ہونا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
حکیم الامت نے بھی حضرت ِ انسان کی دائمی کامیابیوں کے لئے یہی نسخہ تجویز کیا تھا کہ
سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دُور سے گردوں کے ستارے
ناپید ترے بحر تخیل کے کنارے 
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے 
تعمیر خودی کر، اثرِ آہِ رسا دیکھ 
خورشید ِجہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں 
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں 
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں 
جنت تری پنہاں ہے ترے خونِ جگر میں 
اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ! 
 یہ ’تعمیر ِ خودی‘ اور ’کوشش ِ پیہم‘ کیا ہے؟ یہ وہی ایجنڈا ہے جو خالقِ کائنات نے انسان کی پیدائش کے ساتھ اسے تفویض کررکھا ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ انسان ہر دور میں اس ایجنڈے کو فراموش کرتا رہا۔ خالقِ کائنات بار بار اسے مختلف پیغمبروں اور آسمانی صحیفوں کے ذریعے یاددلاتا رہا۔ ہر زمانے میں انسان کو شرک اور فرموداتِ ربانی کی خلاف ورزی سے منع کیا جاتا رہا اور محنت اور صبر کے میٹھے پھل کی ترغیب دی جاتی رہی لیکن یہ وقتی اور ظاہری مفادات کے حصول کے نشے میں ہمیشہ عجلت پسندی کا شکار نظر آیا۔ اس نے نفس اور شیطان کی پیروی میں ہمیشہ اپنے فرائض ِ منصبی کو پس ِ پشت ڈالے رکھا۔ اس نے اپنے لکھے رزق کا انتظار (اور محنت) کرنے کے بجائے رشوت ، ملاوٹ، لوٹ مار اور بے ایمانی کو ترجیح دی۔ اسے جہاں ذرا اختیار ملا، کچھ شوکت نصیب ہوئی، یہ خدا کا شکر بجالانے کے بجائے خود خدا بن بیٹھا۔ کہیں سے ذرا تکلیف پہنچی تو اسے اپنے کئے کا پھل یا خدا کی طرف سے آزمائش سمجھ کر برداشت کرنے کے بجائے خدا کا شاکی بن گیا۔
 زبان سے ہمیشہ یہ ایاک نعبد وایاک نستعین پکارتا رہا جبکہ عملاً درباروں ، مزاروں اور دنیاداروں سے مدد طلب کرتا نظر آیا۔ خدا کے دیئے رزق، اولاد ، عزت کو دوسروں سے منسوب کرتا دکھائی دیا۔ پیغمبروں کے اعمال اور قرآنی اقوال سے رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے خود کو عقلِ کُل سمجھتا رہا۔ زندگی بھر آخرت کے بجائے طالب ِ دنیا بنا رہا۔ کبھی دکھ اور تکلیف میں بھی خدا یاد نہیں آتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس کے ازالے کے لئے بھی دنیاوی سہارے ڈھونڈ لئے۔ بقول اکبر الہ ٰ آبادی
مصیبت میں بھی اب یادِ خدا آتی نہیں اُن کو
دعا منہ سے نہ نکلی پاکٹوں سے عرضیاں نکلیں 
 حضرت انسان کی اسی جلدبازی، عجلت پسندی، محدود سوچ اور کمزور عقیدے ہی کے پیش نظر ارشاد فرمادیا گیا
 ’’زمانے کی قسم! انسان درحقیقت خسارے میں ہے۔‘‘ العصر:۱۔۲
 یہاں زمانے کی قسم کھا کے واضح کر دیا گیا کہ انسان اپنی اسی جلدبازی، ڈھٹائی، ہٹ دھرمی اور کمزوریٔ ایمان کی بناء پر سراسر گھاٹے کی طرف جا رہا ہے۔ ساتھ ہی یہ وعید بھی سنادی کہ اب بھی اگر اس کی بچت کی کوئی صورت ہے تو وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی قدرت ِ کاملہ پر پختہ ایمان اور صبر و توکل ہی کی بناء پر ممکن ہے۔
  آج اگر انسان کو دنیا میں خواری کا سامنا ہے تو انہی صفات سے محرومی کی بناء پر ہے۔ وہ ایک اللہ کو اپنا دست گیر ، داتا اور مشکل کشا ماننے کے بجائے جگہ جگہ سرجھکاتا دکھائی دیتا ہے۔ علامہ اقبال نے اس پیچیدہ مرض کا بڑا شافی علاج بتایا تھا کہ؎
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
 وہ خدا جو فرماتا ہے کہ میں انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں ، میں وہ بات بھی جانتا ہوں جو اس کے دل کےنہاں خانے میں پوشیدہ ہے ، وہ جو فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی اور رک رک کر نکلتے پانی سے پیدا کیا، پھر زمین پہ اکڑ اکڑ کر کیوں چلتے ہو؟ کیا آسمانوں کو گرا دوگے یا زمین کو پھاڑ دوگے؟
 ان تمام حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ ذات ِ باری تعالیٰ نے انسان کو بڑی محبت سے، بہتر توقعات کے ساتھ بہترین ساخت پر پیدا کیا اور اس کو عاجزی، ایمان، صبر اور خیر کی تلقین کی۔ لیکن انسان اپنی جلدبازی، عجلت پسندی اور کمزور ایمان کی بناء پر شیطان کے بہکاوے میں آ کے گمراہی، تکبر، شرک اور دنیاداری کی دلدل میں جاپڑا۔ مرزا غالبؔ نے انسان کی اسی ابتری کے پیش نظر یہ سوال اٹھایا تھا کہ
ہیں آج کیوں ذلیل، کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخیٔ فرشتہ ہماری جناب میں 
 خاکہ نگاری اشاروں کا فن ہے، جس میں چند جملوں میں کسی شخصیت کے عیوب و محاسن کا احاطہ کردیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کے ان تین جملوں میں بھی حضرتِ انسان کا مختصر اور جامع تصور بیان کردیا گیا ہے کہ تمہارے ساتھ خدا کے احسان کا کیا عالم ہے اور خود اپنے ساتھ اس کا سلوک کتنا عجیب ہے؟ اور اس کا نتیجہ کیسا خوفناک ہے؟
 اقبالؔ نے اپنے ایک شعر میں مسلمانوں کی عظمت ِ رفتہ اور ذلت ِ موجودہ کا سبب کس خوبصورتی سے بیان کردیا؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

islam Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK