Inquilab Logo

اپنی جمہوریت کو سنبھالنا ہوگا

Updated: January 25, 2020, 9:41 AM IST | Editorial

کل، ہمارا ملک یوم جمہوریہ منائے گا۔ اس سے محض چند روز قبل عالمی سطح پر اس خبر کا مشتہر ہونا لمحہ ٔ فکریہ ہے کہ’’ اکنامسٹ‘‘ کی انٹیلی جنس یونٹ کے تیار کردہ ۱۶۵؍ ملکوں کے جدول میں ہندوستان ۱۰؍ مقام کھو کر ۵۱؍ ویں مقام پر پہنچ گیا ہے۔

جمہوریت کو سنبھالنا ہوگا ۔ تصویر : آئی این این
جمہوریت کو سنبھالنا ہوگا ۔ تصویر : آئی این این

 کل، ہمارا ملک یوم جمہوریہ منائے گا۔ اس سے محض چند روز قبل عالمی سطح پر اس خبر کا مشتہر ہونا لمحہ ٔ فکریہ ہے کہ’’ اکنامسٹ‘‘ کی انٹیلی جنس یونٹ کے تیار کردہ ۱۶۵؍ ملکوں کے جدول میں ہندوستان ۱۰؍ مقام کھو کر ۵۱؍ ویں مقام پر پہنچ گیا ہے۔ یہ ۵۱؍ ویں پوزیشن بھی اُس انتخابی عمل کی مرہون منت ہے جس کے دوران ملک کے عوام اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں۔ جن معیارات پر کسی ملک کو پرکھا جاتا ہے اُن میں سے ایک کسوٹی انتخابات کی بھی ہوتی ہے۔ اگر اس کسوٹی کو منہا کردیا گیا تو وطن عزیز کی ریٹنگ اور بھی کم ہوجائیگی۔ واضح رہے کہ اس جدول کیلئے کسی ملک کی جمہوریت کو جن پیمانوں سے گزارا جاتا ہے وہ ہیں: انتخابی عمل اور تکثیریت، حکومتی کارکردگی، سیاسی شراکت، سیاسی کلچر اور حقوق انسانی۔ اس میں انتخابی عمل کی وجہ سے ہمارا اسکور بڑھتا ہے۔ 
  افسوس کا مقام ہے کہ وہ ملک جمہوریت کے جائزہ میں کوئی قابل قدر پوزیشن حاصل نہیں کرپاتا ہے جسے دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے پر فخر ہے اور جس کا اظہار سیاستدانوں کی تقریروں میں ہوتا رہتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اپنی جمہوریت کو بچانے میں کامیاب رہے ہیں اور ہمارا حال اُن پڑوسی ملکوں جیسا نہیں ہے جہاں فوج قابض ہوکر جمہوریت کا گلا گھونٹ چکی ہے یا آمریت کا دور دورہ ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جمہوری قدروں کے فروغ میں ہمارا جو کردار ہونا چاہئے تھا نہیں ہے۔ کیا یوم جمہوریہ پر اور عام دنوں میں بھی یہ عہد نہیں کیا جانا چاہئے کہ ہم جمہوری قدروں کو اپنے سینے سے لگا رکھیں گے اور جمہوریت کے کسی بھی جائزے یا تجزیئے میں اُن ملکوں کے ساتھ شمار کئے جانے کے خواہشمند رہیں گے جنہیں اولین دس مقامات حاصل ہوتے ہیں؟
 اکنامسٹ کی انٹیلی جنس یونٹ کے مطابق انسانی حقوق کی پامالی ایک بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ہندوستان کودس مقام نیچے گر جانے کی ہزیمت اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس جائزے میں جن تین باتوں کو خاص طور پر موضوع بنایا گیا ہے وہ کشمیر کا خصوصی درجہ ہٹانے، امتیازی شہریت ترمیمی قانون نافذ کرنے اور این سی آر کے ذریعہ ملک کی کم و بیش ۲۰؍ملین (مسلم) آبادی کی شہریت پر سوالیہ نشان لگانے سے متعلق ہیں۔ حالیہ تجزیہ میں ہندوستان کی جو ریٹنگ (۶ء۹۰) ہے وہ ۲۰۰۶ء کے بعد سب سے کم ہے۔ اگر کشمیر کو جن حالات سے گزارا گیا اور اب بھی گزارا جارہا ہے، وہ حالات نہ پیدا ہوئے ہوتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔ کشمیر میں دفعہ ۳۷۰؍ کے بے اثر کئے جانے کے بعد سے حفاظتی دستوں کی مسلسل موجودگی، انٹرنیٹ اور موبائل کنکشن کی معطلی، نقل و حمل کی تحدید اور اہم سیاستدانوں نیز لیڈروں کا نظر بند کیا جانا وغیرہ بھی اہم محرکات ہیں جن کے سبب ہمیں اُس صورتحال کا سامنا ہے جو ۱۰؍ مقام لڑھکنے سے متعلق ہے۔ 
 زیر بحث تخفیف کے اہم محرکات میں شہریت ترمیمی قانون کا روبہ عمل لایا جانا اور اس کے سبب پیدا شدہ حالات ہیں۔ ہانگ کانگ میں جو احتجاج جاری ہے وہ ہندوستان میں شروع ہونے والے احتجاج کے پہلے سے جاری ہے مگر وہاں اتنی اموات نہیں ہوئیں جتنی ہندوستان میں ہوئی ہیں۔ وزیر داخلہ امیت شاہ کا بار بار یہ کہنا بھی ملک کی جمہوریت پر بار ہے کہ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کا فیصلہ واپس نہیں لیا جائیگا۔ یہ طرز عمل اس لئے ٹھیک نہیں کہ ملک کے بیشتر حصوں میں اس کے خلاف احتجاج جاری ہے جس میں وقت کے ساتھ کمی نہیں آئی بلکہ احتجاج کا دائرہ وسیع ہوا اور اسے ہر فرقے اور طبقے کی حمایت حاصل ہورہی ہے۔ عوام کے ایک بڑے طبقے کی نہ سننا جمہوریت نہیں ہے، اس لئے ڈیموکریسی انڈیکس میں ہمیں کم از کم اُتنا مقام بھی نہیں مل سکا جتنا کہ سالہائے گزشتہ میں ملتا رہا ہے۔ اسے نظرانداز کرنے  کے بجائے اس  پر سنجیدہ غوروخوض کی ضرورت ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK