Inquilab Logo

کیا کہیں اسے؟ بربادیوں کا جشن؟

Updated: June 03, 2020, 11:05 AM IST | Parvez Hafeez

وباء سے اب تک ۵؍ ہزار لوگ مرے ہیں لیکن سیکڑوں میل کا سفر پیدل طے کرتے ہوئےکتنے مزدور ہلاک ہوئے اس کا کوئی ریکارڈ ہے کیا؟ شرامک ٹرینوں میں بھی اب تک۸۰؍ مزدور دم توڑ چکے ہیں۔مظفر پور کے پلیٹ فارم پر مردہ ماں کو جگانے کی کوشش کرتے ہوئے بچے کاویڈیو بھی شاید سرکار کے سوئے ہوئے ضمیرکو جگانے میں ناکام رہا ہے۔

Modi and Trump - Pic :  INN
مودی اور ٹرمپ ۔ تصویر : آئی این این

 اس وقت سارا ملک عالمی وباکورونا وائرس کے لپیٹ میں ہے لیکن اس عظیم طبی بحران اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہوئے اقتصادی بحران کے موسم میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی نریندر مودی حکومت کی دوسری میعاد کی پہلی سالگرہ کا جشن منارہی ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں میں بند ہیں اور جلسے اور ریلیاں ممکن نہیں ہیں۔ اس لئے بی جے پی گودی میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ مودی سرکار کے پچھلے بارہ مہینوں کی حصولیابیوں کا ور چوئل پرچار کررہی ہے۔
 اس موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی نے قوم کے نام ایک کھلا خط لکھا ہے۔ اس خط میں انہوں نے اپنے متعدد کارناموں کی فہرست پیش کی ہے جن میں درج ذیل چار کو انہوں نے’’ تاریخی‘‘قرار دیا ہے: تین طلاق کی تنسیخ کا قانون، آرٹیکل۳۷۰؍ کا خاتمہ، رام مندر پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اور شہریت ترمیمی قانون۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ ان چاروں ’’حصولیابیوں‘‘کا براہ راست یا بالواسطہ اثر اگر کسی پر پڑا ہے تو وہ ہیں ملک کے بیس بائیس کروڑ مسلمان۔ مجھے نہیں علم ہے کہ ملک کے غیر مسلم شہریوں کو ان نئے قوانین سے کوئی فائدہ ہونے والا ہے یا نہیں لیکن مسلمانوں کے لئے یہ صدمۂ جانکاہ سے کم نہیں ہیں۔ تین طلاق دینے والے مسلم شوہر کو جیل بھیج دینے سے نہ تو دکھیاری ہندو پتنیوں کو کوئی راحت مل گئی اور نہ ہی ملک کی واحد مسلم اکثریت والی ریاست کشمیر کی خود مختاری ختم کرنے اور اس کا رتبہ گھٹا دینے سے ملک کے دیگر صوبوں کا وقار بڑھ گیا۔ مودی جی کے ان کارناموں سے نہ دیش کی غریبی دور ہوگی اور نہ ہی روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔ یہ فیصلے بی جے پی کی سیاسی اور نظریاتی کامیابی تو ہو سکتے ہیں لیکن ان سے دیش کاوکاس نہیں ہوگا۔  
 یہ تمام فیصلے دراصل ملک میں اکثریتی طبقے کی بالا دستی majoritarianism))قائم کرنے کے اقدام ہیں۔ یہ آر ایس ایس کے ہندوتوا کے ایجنڈا کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہوں گے لیکن ان سے ملک میں فرقہ وارانہ بھائی چارہ، قومی اتحاد، مساوات، سماجی انصاف اور اقتصادی ترقی کو تو ہرگز فروغ نہیں ملے گا۔
 مودی جی کے پہلے پانچ برسوں میں ہی ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو پارہ پارہ کیا گیا اور بے گناہ مسلمانوں کو لنچنگ کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ویڈیو میں قاتلوں کی شناخت ہونے کے باجود کسی کو سزا نہیں ملی۔ پہلے تشدد کی ان کارستانیوں میں قصبوں اور گاؤں کے چھوٹے موٹے بھگوا داری شامل ہوتے تھے۔ پچھلے سال مودی جی کی اقتدار میں واپسی کے بعد بی جے پی نے ’’ سب کا ساتھ‘‘ کا دکھاوا بھی ختم کردیا۔ اب پارٹی کے بڑے بڑے سورما کھل کرمسلم دشمنی کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں۔ مرکزی جونیئر وزیر خزانہ انوراگ ٹھاکر راجدھانی دہلی میں انتخابی ریلی میں’’ دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو‘‘کا نعرہ بلند کرتے ہیں اور چند دن بعد ہی ان کے مشورہ پر عمل کرکے ایک لڑکا جامعہ ملیہ کے ایک اسٹوڈنٹ کو پولیس کی موجودگی میں گولی مار کر زخمی کردیتا ہے لیکن ٹھاکر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے۔کپل شرما پولیس افسر کی موجودگی میں سی اے اے مخالف احتجاج بند کروانے کے لئے الٹی میٹم دیتا ہے اور دوسرے دن شمال مشرقی دہلی میں مسلم کش فسادات شروع ہوجاتے ہیں۔ مشرا کو گرفتار کرنےکے بجائے دہلی پولیس اسے سیکوریٹی فراہم کرتی ہے۔۱۹۸۴ء کے سکھ مخالف دنگوں کے بعد سے راجدھانی دہلی  میں اتنے بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری نہیں ہوئی تھی اور وہ بھی اس دن جس دن ٹرمپ دہلی میں موجود تھے۔ دہلی کا تشدد مودی جی کی دوسری اننگ کے پہلے سال کا شاید سب سے شرمناک واقعہ تھا۔ جب وزیر اعظم خود مظاہرین کی پہچان ان کے کپڑوں سے کرنے کی بات کہے تو انسان فریاد کس سے کرے؟
   سی اے اے کروڑوں حقیقی مسلم شہریوں کو Stateless بنانے کی ایک سازش ہی توہے۔کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ جو مودی سرکار افغانستان اور پاکستان کے ستائے ہوئے ہندوؤں کی اتنی غمخوار بنتی ہے اس کا دل حالات کے ستائے ہندوستانی مہاجر مزدورں کے لئے بالکل نہیں دکھتا ہے۔پچھلے ایک سال میں مودی سرکار نے اپنے مخالفین اور ناقدین کو کچلنے کیلئے طاقت کا بیجا استعمال کیا ہے۔ صرف حکومت کی جابرانہ پالیسیوں پر تنقید کرنے اور غیر آئینی شہریت قانون کے خلاف پرامن احتجاج کرنے کی پاداش میں متعددطلباء، طالبات، وکلا، ڈاکٹرز، صحافی اورانسانی حقوق کے کارکنوں کو پکڑ کر جیلوں میں بند کردیا گیااور ان کے خلاف دہشت گردی  کی ’یو اے پی اے ‘ جیسی دفعہ کے تحت مقدمے ٹھونک دیئے ہیں۔ حکومت اپنے خلاف بلند ہونے والی ہر آواز کو دبانے کے لئے پولیس اور عدلیہ کو استعمال کررہی ہے۔ جمہوری اقدار کی ایسی بیخ کنی ایمر جنسی کے بعد سے اب تک نہیں دیکھی گئی تھی۔ خواہ کشمیر کا مسئلہ ہو یا دہلی کے خونی دنگے، سپریم کورٹ جو حکومت کے غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدام پر لگام لگا سکتی تھی وہ بھی اپنے فرض کی ادائیگی سے غافل نظر آتی ہے۔ 
 فروری میں احمدآباد کے اسٹیڈیم میں مودی جی نے ایک لاکھ گجراتیوں کو ڈونالڈ ٹرمپ کو نمستے کہنے کیلئے اکٹھا کردیا تھا۔ وہ اس کامیابی کا کریڈٹ لینا کیسے بھول گئے؟پچھلے۷۳؍ برسوں میں کسی وزیر اعظم کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ کسی امریکی صدر کے مجوزہ انتخابی مہم کے آغاز کیلئے ہندوستان کی دھرتی فراہم کردے۔ شیو سینا کا یہ الزام کہ ملک میں کورونا ٹرمپ کی احمدآباد کی ریلی کی وجہ سے آیا اگر درست بھی ہے تو کوئی پروا نہیں۔ جب دوست سپر پاورکا صدر ہو تو اتنی قربانی شاید ناگزیر  ہے۔ ملک میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد دو لاکھ تک پہنچنے والی ہے اور پانچ ہزار سے زیادہ لوگ اس وبا کے ہاتھوں جان گنوا چکے ہیں۔ دس کروڑ لوگ از سرنو بے روزگار ہوگئے ہیں۔سب سے زیادہ مصائب کا شکار تو وہ مہاجر مزدور ہوئے ہیں جو ممبئی، دہلی، سورت اوربنگلور جیسے شہروں میں کام کررہے تھے اور بلائے ناگہانی کی طرح نافذ کئے گئے اچانک لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہیں پھنس کر رہ گئے۔ان بدنصیبوں کی اجتماعی نقل مکانی ابھی بھی جاری ہے۔ کورونا سے اب تک ۵؍ ہزار لوگ مرے ہیں لیکن سیکڑوں میل کا سفر پیدل طے کرتے ہوئے سڑک اور ریل حادثوں میں اور فاقہ کشی سے پچھلے دو ماہ میں کتنے مہاجر مزدور ہلاک ہوئے ہیں اس کا کوئی ریکارڈ ہے کیا؟ سرکار کی بدنظمی،نااہلی اور شقی القلبی کا تو یہ عالم ہے کہ بعد از خرابی بسیار چلائی گئی شرامک اسپیشل ٹرینوں میں بھی اب تک۸۰؍ بھوکے پیاسے اور بیمار مزدور دم توڑ چکے ہیں۔ مظفر پور کے پلیٹ فارم پر مردہ ماں کو جگانے کی کوشش کرتا ہوا بچے کاویڈیو بھی شاید مودی سرکار کے سوئے ہوئے ضمیرکو جگانے میں ناکام رہا ہے ورنہ سالگرہ منانے کا فیصلہ منسوخ کردیا گیا ہوتا

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK