Inquilab Logo

کیا اشارہ کرتے ہیں یہ عدالتی تبصرے

Updated: September 11, 2021, 11:34 AM IST | Shamim Tariq

اعلیٰ عدالتوں میں جو معاملات زیر سماعت ہیں اور جن کی سماعت کے دوران فاضل جج صاحبان کے جو تبصرے عوام تک پہنچے ہیں وہ یہی اشارہ کرتے ہیں کہ اس ملک میں غیر مذہبی اور غیر فرقہ وارانہ مسئلہ کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دیا جارہا ہے۔ یہ صحتمند ہندوستانی معاشرے کیلئے اچھا نہیں ہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

سپریم کورٹ کی ایک آئینی بینچ نے اور الگ الگ معاملات میں الہ آباد ہائی کورٹ کی دو یک رکنی بینچوں نے جو تبصرے کئے ہیں وہ یوں تو سب کے لئے دور رس نتائج کے حامل ہیں مگر یہ تبصرے خاص طور سے مسلم اقلیت کو دعوتِ فکر دیتے ہیں۔ آئینی بینچ نے کورونا کی پہلی لہر کے دوران تبلیغی جماعت اور اس کے مرکز نظام الدین (دہلی) سے متعلق میڈیا میں نشر کی جانے والی خبروں پر سخت رویہ اپناتے ہوئے جہاں یہ کہا کہ (۱) تبلیغی جماعت کے خلاف فرضی خبریں نشر یا شائع کی گئیں (۲) یہ خبریں مذہبی منافرت پر مبنی تھیں اور (۳) ان کی وجہ سے ملک کی شبیہ داغدار ہوئی یا ہوتی ہے،  وہیں کچھ دوسری باتیں بھی کہیں مثلاً (۱) ویب پورٹل پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں ہے وہ صرف وی آئی پی کی آواز سنتے ہیں (۲) اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے لئے تو قانون ہے مگر ویب پورٹل کے لئے کچھ کرنا ہوگا (۳) بے لگام ٹوئیٹر، فیس بک اور یوٹیوب جیسے سوشل میڈیا کے الگ الگ پلیٹ فارمس کو بھی لگام دینے کی ضرورت ہے۔  اس تبصرے کے جواب میں سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ اصل مسئلہ آزادیٔ اظہار کے حق اور شہریوں کے صحیح اطلاعات اور خبریں حاصل کرنے کے حق کے ٹکرائو کا ہے۔ مہتا نے ایسے آئی ٹی قانون یا ضابطے کی طرف اشارہ کیا جس کے تحت ملزم ٹھہرایا جانے یا بدنام کیا جانے والا شخص یا ادارہ متعلقہ میڈیا کے خلاف شکایت درج کراسکے۔ (۲) قانون کے تحت میڈیا کے لئے لازم ہوگا کہ وہ ۱۵؍ دنوں کے اندر اپنی خبر کی تصحیح یا تردید کرے یا جواب دے، اور (۳) اگر ۱۵؍ دنوں تک کسی شکایت پر توجہ نہیں دی جاتی تو انتظامیہ کارروائی کرسکتا ہے۔ نظام الدین مرکز اور تبلیغی جماعت کے متعلق اڑائی جانے والی جھوٹی خبروں کے حوالے سے جہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ سپریم کورٹ نے حق اور سچائی کا پاس کیا ہے وہیںہماری اپنی تنظیموں سے یہ پوچھا جانا بھی ضروری ہے کہ خود انہوں نے یا عام لوگوں میں سے کتنے لوگوں نے میڈیا کو لکھا کہ وہ غلط کررہے ہیں؟ مقصد سچے لوگوں کو بدنام کرنا نہیں ہے بلکہ یہ یاد دہانی کرانا ہے کہ ہر ضلع اور تعلقہ کی سطح پر ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو افواہوں اور جھوٹی خبروں کا ازالہ کریں۔ اس کے لئے دو کام اور کرنے ہوں گے۔ ایک تو اپنی کارکردگی میں شفافیت لانا اور ایسے لوگوں کو خود سے دور رکھنا جو ہر اسٹیج کو اپنی تشہیر کے لئے استعمال کرنے کا فن جانتے ہیں۔ پورٹل، ٹوئیٹر اور فیس بک ایسے ہی لوگوں کے تصرف میں ہیں یا خود پسندی کے مرض میں مبتلا غیر سنجیدہ لوگوں کے استعمال میں۔ ’’آنکھ کے اندھے نام نین سکھ‘‘ قسم کے لوگوں نے بھی صورتِ حال بگاڑنے میں فیاضی کا مظاہرہ کیا ہے جو یہ سمجھے بغیر بیانات دیتے رہتے ہیں کہ معاملہ کیا ہے اور ان کے بیانات کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ میڈیا، ویب پورٹل، فیس بک پر جھوٹی خبروں کو پھیلانے کا موقع یہ لوگ بھی فراہم کرتے ہیں۔
 دوسرا معاملہ یہ ہے کہ الہ باد ہائی کورٹ کی یک رکنی بینچ نے ایک مدرسہ کی اپیل پر کئی ایسے سوالات اٹھائے ہیں جن سے خود حکومت کے بنائے ہوئے قانون اور فیصلوں پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ یوپی میں حکومت کے منظور شدہ مدارس کی تعداد انیس ہزار کے قریب اور حکومت کے فنڈ سے چلنے والے مدارس کی تعدداد ۵۶۰؍ ہے۔ منظور شدہ مدارس میں ۸۵۰۰؍ جدید کاری کے مرحلے سے گزر چکے ہیں جہاں طلبا کی تعداد کے لحاظ سے دو یا تین استاذ کا تقرر حکومت کے خرچ پر ہوتا ہے۔ ابتدائی مدارس اور دینی تعلیم کے مدارس میں جو فرق ہے شاید وہ فاضل جج حضرات کے سامنے نہیں لایا گیا۔ لایا جائے گا تو ان سوالات کے جوابات مل جائیں گے جو فاضل جج نے اٹھائے ہیں، البتہ سرکاری فنڈ لینے والے مدارس کی انتظامیہ کو یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ ایسے مدارس میں تقرری اور دیگر امور میں مالی بدعنوانی کا ایک بھی معاملہ عدالت کے سامنے آیا تو لامحالہ اس کی ضرب تمام مدارس پر پڑے گی۔
  یہ واقعہ ہے کہ حکومت کا فنڈ لینے والے مدارس کے انتظامیہ سے ان مدارس میں کام کرنے والوں کو کافی شکایتیں ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ مدارس کے کردار اور حکومت کے قانون و ضابطے پر بات کرتے ہوئے اس بے اطمینانی پر بھی گفتگو کی جائے جو مدارس کے عملہ میں پھیلتی جارہی ہے اور جس کی اہم وجہ اقربا پروری اور من مانی ہے۔ کئی مدارس میں انتظامیہ کی جانب سے بدسلوکی، بدزبانی اور بدعنوانی کی خبریںبھی موصول ہوئی ہیں جن میں کتنی صداقت ہے یہ ہمیںنہیں معلوم مگر ایسا ہے تو یہ نہایت افسوسناک ہے۔ ظاہر ہے یہ خبریں یا شکایتیں حکومت تک پہنچتی ہوں گی اور عدلیہ میں بھی پہنچ سکتی ہیں۔ ان شکایتوں کا کوئی اچھا نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی ہی ایک اور یک رکنی بینچ نے گائے کے بارے میں کچھ باتیں کہی ہیں اور اسی دن ایک امام صاحب نے کچھ مشورے بھی دے دیئے ہیں۔ ان کو مشورہ دیتے وقت تازہ گوشت کی فراہمی یا عید قرباں کے فرض کی ادائیگی میں ڈالی جانے والی رکاوٹوں کا بھی ذکر کرنا چاہئے تھا۔ یہاں ہر شخص برادرانِ وطن کے مذہبی جذبات کا خیال رکھنے کا قائل ہے مگر گوشت خوروں کے حقوق کا لحاظ نہیں رکھا جارہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ مذہبی جذبات کو مجروح کئے بغیر بھی اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ سستے داموں تازہ گوشت حاصل کرنا تو پہلے ہی ایک مسئلہ تھا، اب عید قرباں پر بھی مسائل بڑھتے جارہے ہیں جبکہ ناپاک جانور کھانے والوں کے لئے یہاں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ کوئی مذہبی مسئلہ ہے نہ جذباتی۔  مختصر یہ کہ اعلیٰ عدالتوں میں جو معاملات زیر سماعت ہیں اور جن کی سماعت کے دوران فاضل جج صاحبان کے جو تبصرے عوام تک پہنچے ہیں وہ یہی اشارہ کرتے ہیں کہ اس ملک میں غیر مذہبی اور غیر فرقہ وارانہ مسئلہ کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دیا جارہا ہے۔ یہ صحت مند ہندوستانی معاشرے کے لئے اچھا نہیں ہے۔ اس ماحول اور رجحان کو بدلنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK