Inquilab Logo

افسپا کیا ہے، کتنا ضروری اور کتنا غیر ضروری ہے

Updated: December 12, 2021, 9:06 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

قارئین کو یاد ہوگا کہ منی پور کی ایروم شرمیلا نے جو طویل بھوک ہڑتال کی تھی وہ بھی اسی قانون کے خلاف تھی۔ انہیں اپنا احتجاج ختم کرنا پڑا مگر قانون ختم یعنی رِپیل نہیں ہوا۔

Corpses of Nagaland victims buriedCorpses of Nagaland victims buried
ناگالینڈ کے مہلوکین کے جسد خاکی

ناگالینڈ میں فوج کے ہاتھوں ۱۴؍ عام ہندوستانی شہریوں کی ہلاکت کے بعد ایک بار پھر اُس قانون ’’افسپا‘‘ کو منسوخ کرنے کی بحث نے زور پکڑا ہے جو شورش زدہ علاقوں میں مسلح افواج کو حاصل خصوصی  اختیارات سے متعلق ہے۔ واضح رہے کہ (افسپا کا فل فارم ’’آرمڈ فورسیز اسپیشل پاورس ایکٹ‘‘ ہے)۔
  مذکورہ واقعہ کے بعد شمال مشرقی ریاستوں کے دو وزرائے اعلیٰ نے اس قانون کی منسوخی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس ماہ کے اواخر میں ناگالینڈ اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلایا جارہا ہے تاکہ افسپا کو ریاست سے ہٹانے کا باقاعدہ مطالبہ کیا جاسکے۔ 
 اس سے قبل کہ مَیں افسپا کی حمایت یا مخالفت میں اپنی رائے دوں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دو باتوں پر غور کرلیا جائے۔ پہلی بات یہ کہ مسلح افواج کو وہ کون سے اختیارات حاصل ہیں جو نوعیت کے اعتبار سے خصوصی اور بڑی حد تک غیر معمولی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اس قانون کے منسوخ کئے جانے کا مفہوم کیا ہے۔
 افسپا کے تحت فوج، پولیس یا نیم فوجی دستوں کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ اگر وہ کوئی خطرہ منڈلاتا ہوا دیکھیں تو نظم و ضبط اور امن و امان (پبلک آرڈر) کی حفاظت کیلئے گولی چلا سکتے ہیں۔ انہیں طاقت کے ایسے استعمال کا بھی اختیار ہے جس سے کسی کی موت کا خدشہ ہو۔ ایسا کرنے والے سپاہیوں کے خلاف عدالتی کارروائی نہیں ہوتی مگر مرکزی حکومت چاہے تو یہ ممکن ہے۔
  شورش زدہ علاقوں میں تعینات سپاہیوں کو یہ اختیار بھی ہے کہ اگر وہ کوئی ایسا ٹھکانہ دیکھیں جہاں سے حملہ کرنا ممکن ہو تو اُسے تباہ کردیں۔ انہیں اس بات کی بھی اجازت ہوتی ہے کہ وارنٹ کے بغیر کسی کو گرفتار کرلیں نیز گرفتاری کیلئے طاقت کا استعمال ضروری ہو تو اس سے بھی دریغ نہ کریں۔ شورش زدہ قرار دیئے گئے علاقوں میں جب سپاہیوں کو اتنی آزادی حاصل ہو تو اس کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے اس کا تصور مشکل نہیں۔
 یہ ہوا کہ ’’قانون کیا ہے؟‘‘ کا مختصر جواب۔ اب آئیے دوسری بات کی طرف کہ اس کے منسوخ کئے جانے کا کیا مفہوم ہوگا۔ اس کا مفہوم صرف اتنا ہوگا کہ اگر کوئی شخص کسی جرم کا مرتکب سمجھا گیا تو اس کے خلاف ایف آئی آر ہوگی، اس کے بعد پولیس تفتیش کرے گی، اگر اسے تفتیش کے دوران بنیادی ثبوت مل گیا تو اس کے خلاف چارج شیٹ داخل کی جائے گی اور ملزم کو عدالت میں حاضر کیا جائے گا  تاکہ اس کے خلاف مقدمہ چلے۔ اگر اُس پر عائد ہونے والا الزام درست ثابت ہوا تو اسے سزا ملے گی۔ منسوخی (Repeal) کا اتنا ہی مطلب ہے یعنی اگر جرم ہوا ہے تو عام مرحلہ جاتی عمل (پروسیجر) کے تحت عام عدالت میں مقدمہ چلے گا۔ 
 تکنیکی طور پر افسپا میں ایسی شق موجود ہے کہ اگر مسلح افواج کے کسی فرد یا رُکن کے خلاف چارج شیٹ داخل کی گئی تو وہ دہلی میں وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کو روانہ کی جائے گی جہاں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ مسلح افواج کو جو ’’خصوصی اختیار‘‘ حاصل ہے اُسے اس رکن یا سپاہی کےکیس میں جاری رکھا جائے یا نہیں۔
 اب یہ دیکھئے کہ عموماً کیا ہوتا ہے۔ یکم جنوری ۲۰۱۸ء کو راجیہ سبھا کے ممبران کو یہ اطلاع دی گئی تھی کہ ۱۹۸۹ء سے اب تک کسی بھی کیس میں خواہ وہ قتل کا ہو یا اذیت رسانی کا، اغوا کا ہو یا عصمت دری کا، مقدمہ چلانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ 
 فوج کا کہناہے کہ اس کی صفوں میں کوئی خاطی پایا گیا تو اس کے خلاف کارروائی کیلئے اس کا اپنا داخلی نظام (میکانزم) ہے مگر یہ فوجی نظم و ضبط یا ڈسپلن کا عام معاملہ نہیں اس لئے اس میکانزم کا اطلاق شہریوں پر ہونے والی حد سے بڑھی ہوئی کارروائی کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ بہرحال، کوئی حتمی نتیجہ نکالنے سے پہلے آئیے چند کیسیز کو دیکھتے چلیں۔ ۱۱؍ مئی ۲۰۰۶ء کوسی بی آئی نے تفتیش کے بعد پانچ فوجیوں اور راشٹریہ رائفلس کے سات سپاہیوں کے خلاف سری نگر کے چیف جیوڈیشیل مجسٹریٹ کی عدالت میں مقدمہ پیش کیا۔ سی بی آئی نے پُرزور طریقے سے کہا کہ یہ سراسر اور سفاکانہ قتل (کولڈ بلڈیڈ مرڈر) ہے اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران عمل میں آنے والی کارروائی نہیں اس لئے خاطیوں کا دفاع نہیں کیا جاسکتا۔ مگر، فوج نے افسپا کے تحت اُن کے خلاف مقدمے کو روک دیا۔ سپریم کورٹ نے کورٹ مارشل کا اشارہ دے کر فوج کے فیصلے کو درست ٹھہرایا۔
 ستمبر ۲۰۱۲ء میں پتھری بل میں پانچ شہریوں کے ہلاک کئے جانے کے بارہ سال بعد فوج نے اس کیس کو ملٹری جسٹس سسٹم میں لانے کا فیصلہ کیا اور جنرل کورٹ مارشل شروع کیا۔ ۲۴؍ جنوری ۲۰۱۴ء کو فوج نے پانچ سپاہیوں کے خلاف عائد کئے گئے الزامات کو خارج کردیاکیونکہ شواہد نہیں تھے۔ سری نگر چیف مجسٹریٹ کورٹ میں داخل کی گئی کلوزر رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ فوج نے نہ تو تفتیش کی نہ ہی اپنے طور پر مقدمہ چلایا (کورٹ مارشل) بلکہ ان پر عائد کئے گئے الزامات کو بغیر سماعت خارج کردیا۔ ایک اور کیس میں کشمیر کے مچھل سپاہیوں کو تین شہریوں کے قتل کا مجرم پایا گیا مگر فوجی عدالت نے کسی توضیح کے بغیر انہیں رہا کردیا۔ ۲۳؍ فروری ۱۹۹۱ء کو راجپوتانہ رائفلس کے سپاہی کونن اور پوشپورہ نامی دیہاتوں میں پہنچے، لوگوں سے کہا کہ وہ گھر کے باہر نکل آجائیں۔ جب وہ باہر آگئے تو سپاہی اُن کے گھروں میں گھس گئے۔ اس واقعہ کے خلاف بھی ایف آئی آر درج ہوئی مگر کچھ نہیں ہوا۔
 جو لوگ افسپا کے جاری رہنے کے حامی ہیں اُنہیں اپنی رائے پر ازسرنو غور کرنا چاہئے کہ اس کے تحت حاصل ہونے والے خصوصی اختیارات کا غلط استعمال بھی تو ہوا ہے۔ افسپا ختم ہونے سے یہ ہوگا کہ خاطی یا ملزم سپاہیوں کے خلاف جو کیس بنے گا اس کی سماعت عام عدالت میں ہوگی، اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔ فوج اُن سپاہیوں کو جو قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے پائے جائیں، کلین چٹ نہیں دے سکے گی۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہندوستانی شہریوں کے خلاف ہونے والے جرائم کی ہندوستانی کورٹ میں ہندوستانی جج کے ذریعہ شنوائی ہوگی۔ کیا اس میں کوئی قباحت ہے؟ n 

nagaland Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK