Inquilab Logo

عوام کا کیا فیصلہ ہے؟

Updated: February 21, 2020, 3:13 PM IST | Shamim Tariq

پچیس تیس سال پہلے ہندوستان میں الیکشن کے دوران جو کیفیت ہوتی تھی وہ عام لوگوں کے ذہنوں  سے محو نہیں ہوئی ہے مگر اب کسی حد تک حالات میں بہتری پیدا ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایات اور الیکشن کمیشن کی مسلسل نگرانی کے اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں اس کے باوجود دولت اور طاقت کے علاوہ اقتدار کا کھیل امیدواری حاصل کرنے کے علاوہ الیکشن جیتنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔

عوام کا کیا فیصلہ ہے؟ ۔ تصویر : آئی این این
عوام کا کیا فیصلہ ہے؟ ۔ تصویر : آئی این این

جرائم پیشہ افراد کا دبدبہ ہندوستانی پارلیمانی جمہوریت کو ہی نہیں ہندوستانی معاشرے کو بھی گھن کی طرح کھائے جارہا ہے۔ آج الیکشن لڑنا ہی نہیں مقدمہ لڑنا بھی ایک عام آدمی کے بس سے باہر ہوچکا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں ناراضگی کا اظہار کیا ہے کہ ۲۰۰۴ء میں پارلیمنٹ کیلئے منتخب کئے جانے والے ایسے ممبران کی شرح ۲۴؍ فیصد تھی جن کیخلاف مجرمانہ معاملات درج تھے اور اب ۲۰۱۹ء میں یہ شرح بڑھ کر ۴۳؍ فیصد ہوگئی ہے۔ اسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ریفارمس (اے ڈی آر) کی ایک رپورٹ کے مطابق ایسے ممبران پارلیمنٹ جنہوں نے اعتراف کیا ہے کہ ان کیخلاف مجرمانہ ریکارڈ ہیں سب سے زیادہ بی جے پی کے ہیں۔ بی جے پی کے ۱۱۶؍ ممبران کے بعد کانگریس کے ۲۹؍ ممبروں کا نمبر ہے۔ دوسری پارٹیاں بھی ایسے ممبران سے پاک نہیں ہیں۔ یہی حال ریاستی اسمبلیوں میں بھی ہے مگر اب سیاسی پارٹیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے ہدایت دی ہے کہ سیاسی پارٹیاں ان امیداوروں کیخلاف مقدمات کی تفصیل ویب سائٹس، اخبارات اور فیس بک ٹویٹر وغیرہ پر عام کریں جن کیخلاف مجرمانہ معاملات درج ہیں۔ یہی نہیں وہ یہ بھی بتائیں کہ انہوں نے ایسے مجرمانہ ریکارڈ والوں کو اپنا امیدوار کیوں بنایا ہے؟ اگر کسی پارٹی نے ۷۲؍ گھنٹوں کے اندر اپنے امیدواروں کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو مہیا نہیں کی تو الیکشن کمیشن سپریم کورٹ سے شکایت کرسکتا ہے جس کی بنیاد پر کارروائی ہوگی۔
 اب تک یہ ہوتا تھا کہ سیاسی پارٹیاں یہ دیکھتی تھیں کہ کون امیدوار مجرمانہ ریکارڈ کے باوجود اس حیثیت میں ہے کہ الیکشن جیت سکتا ہے اور وہ ایسے لوگوں کو اپنا امیدوار بنا لیتی تھیں مگر اب ان کے لئے ایسا کرنا مشکل ہوگا۔ البتہ جرائم، اقتدار اور دولت کے اتحاد سے پیدا ہونے والی خرابیوں کے ختم ہونے کے امکانات اب بھی نہیں ہیں۔ گزشتہ انتخاب میں بعض امیدواروں نے مخالف پارٹی یا حریف امیدوار کو دولت کے سہارے ہموار کرلیا تھا اور پھر ان کی جیت یقینی ہوگئی تھی۔ بعض امیدواروں نے ڈرا دھمکا کر بھی مدمقابل کو مقابلے سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا تھا۔ بے شک ایسے امیدوار پولیس اور الیکشن کمیشن میں شکایت کرسکتے ہیں مگر عملاً کسی با اثر شخص کیخلاف پولیس میں معاملہ درج کرانا ممکن نہیں ہے اس لئے سپریم کورٹ کی حالیہ ہدایت کے استقبال کے باوجود اس سلسلے میں مزید اقدامات و ہدایات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ پچیس تیس سال پہلے ہندوستان میں الیکشن کے دوران جو کیفیت ہوتی تھی وہ عام لوگوں کے ذہنوں  سے محو نہیں ہوئی ہے۔ جھگڑے فساد، گروہی تصادم کے علاوہ طلاق بھی ہوجاتی تھی۔ وہ طوفانِ بدتمیزی بپا ہوتا تھا کہ اللہ کی پناہ۔ مگر اب کسی حد تک حالات میں بہتری پیدا ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایات اور الیکشن کمیشن کی مسلسل نگرانی کے اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں اس کے باوجود دولت اور طاقت کے علاوہ اقتدار کا کھیل امیدواری حاصل کرنے کے علاوہ الیکشن جیتنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔
 ۲۰۱۸ء میں سپریم کورٹ نے ایک حکم صادر کیا تھا کہ ہر سیاسی پارٹی اور امیدوار اپنے خلاف درج مقدمات یا فوج داری کی دفعات کے تحت درج کی گئی شکایات کی تشہیر کرے تاکہ عوام کو معلوم ہوسکے کہ وہ جس امیدوار کو ووٹ دینے والے ہیں یا جو شخص ان کے پاس امیدوار بن کر آیا ہے وہ کیسا ہے؟ مگر اس حکم پر عمل نہیں ہوا۔ بالآخر کسی نے الیکشن کمیشن کیخلاف توہین عدالت کا مقدمہ دائر کردیا کہ اس نے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہیں کیا۔ اس مقدمے پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے لکھا کہ سیاسی پارٹیاں یہ وضاحت نہیں کرتیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو اپنا امیدوار بناتی ہیں جن کیخلاف مجرمانہ معاملات درج ہوتے ہیں۔ معاشرے میں اچھے لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے یا ان کو نظر انداز کرکے مجرمانہ ریکارڈ کے لوگوں کو امیدوار بنایا جانا وضاحت طلب ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ سوال بہت جائز ہے۔ اس نے جو شرط عائد کی ہے اس پر عمل درآمد ہونا چاہئے مگر اسی سے متعلق ایک سوال یہ بھی ہے کہ موجودہ سیاسی کلچر اور عوامی مزاج کیا کسی ایسے شخص کو الیکشن میں امیدوار کی حیثیت سے سرگرم ہونے کا موقع دے گا جو اگرچہ جذبۂ خدمت خلق سے معمور ہو، باصلاحیت ہو مگر دولت اور حمایت میں کام کرنے والے ٹولے سے خالی ہو؟ معاشرہ کے ایسے لوگ بھی جو نہایت بے ضرر اور معصوم سمجھے جاتے ہیں الیکشن کے موقع پر کتنے مشتعل اور متشدد ہوجاتے ہیں اس کا اندازہ ان سب کو ہے جو الیکشن کے ماحول پر نظر رکھتے ہیں۔ الیکشن کو رقم اینٹھنے اور امیدواروں کا مذاق اڑانے یا ان کی کردار کشی کرنے کا موسم سمجھا جاتا تھا۔ یہ رجحان اب بھی ختم نہیں ہوا مگر الیکشن کمیشن کے بعض ضابطوں کے سبب اس میں کمی ضرور آئی ہے۔ اس کا مکمل خاتمہ تبھی ممکن ہے جب کارڈ تقسیم کرنے اور انتخابی مہم چلانے کا حق الیکشن کمیشن امیدواروں یا سیاسی پارٹیوں سے چھین کر اپنے ہاتھ میں لے لے۔ یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے کہ وہ ہر امیدوار کی تفصیل اس کی سیاسی وابستگی اور اس کے عزائم کو ایک ساتھ رائے دہندگان تک پہنچائے۔ ہر حلقے میں دو چار یا دس بیس مقامات پر تمام امیدواروں کو ایک ہی اسٹیج سے اپنی بات کہنے کا موقع دے۔ امیدوار الگ الگ ووٹنگ کارڈ تقسیم کریں گے تو ہر امیدوار کے ساتھ ایسے لوگوں کا ٹولہ جمع ہوتا جائے گا جو بامعاوضہ کام کرتے اور معاوضے کے مطابق اپنی رائے بناتے ہیں۔
 اس میں دو رائے نہیں کہ ہندوستان میں جمہوریت کی جڑیں بہت گہرائی تک پیوست ہیں مگر اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ مغرب کے جمہوری ملکوں کے مقابلے ہندوستان کے عوام میں ضابطہ شکنی کا رجحان بہت زیادہ ہے اور یہی ضابطہ شکنی انھیں قانون شکنی یا مجرمانہ ریکارڈ کے لوگوں کی ہمنوائی پر آمادہ کرتی ہے۔
 سپریم کورٹ نے بلاشبہ بہت اچھے احکامات صادر کئے ہیں اور اس نے جو کچھ محسوس کیا ہے وہ بھی بہت صحیح ہے اس کے باوجود یہ احکامات اس جمہوری بیماری کا مکمل علاج نہیں ہے جو مسلسل خطرناک ہوتی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر کیا یہ نہیں پوچھا جاسکتا کہ جس پارٹی نے بھوپال سے ایک ایسی خاتون کو امیدوار بنایا جو برسوں سے جیل میں تھی اس نے یقیناً بہت برا کیا مگر رائے دہندگان کی جس اکثریت نے اس کو جتایا کیا وہ بے قصور ہے؟ اس سلسلے میں عوام کا کیا فیصلہ ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ کیا ہمارے ادارے غنڈوں کے بل پر چلائے جارہے ہیں؟ اس رجحان کے ہوتے ہوئے سپریم کورٹ کا حکم کیسے نافذ ہوگا؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK