Inquilab Logo

اُترپردیش میں نئی یونیورسٹیوں کے قیام کا مقصد کیا ہے؟

Updated: May 31, 2020, 4:10 AM IST | Jamal Rizvi

یوپی میں تین نئی یونیورسٹیاں کھولنے کیلئے جن شہروں کا انتخاب کیا گیا ہے وہ ریاستی حکومت کے اس موقف کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کا مقصد اعلیٰ تعلیم کو عام کرنے سے زیادہ ان شہروں اور ان کے اطراف میں بسنے والے ذہنوں کی ایک خاص ڈھنگ سے تربیت کرنا ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اعظم گڑھ اور سہارنپور میں ایک معیاری یونیورسٹی کی ضرورت ہے تو علی گڑھ کے انتخاب کو کس نظر سے دیکھا جائے؟یہاں کی مسلم یونیورسٹی عالمی سطح پر ایک معیاری تعلیمی مرکز کی حیثیت رکھتی ہے

Aligarh Muslim Univeristy - Pic : INN
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی۔ تصویر : آئی این این

کورونا مہاماری کے دوران مہاجر مزدوروں کے تئیں غیر سنجیدہ رویہ اختیار کرنے پر چو طرفہ تنقید کا ہدف بننے والی یوگی حکومت نے ریاست میں تین نئی یونیورسٹیاں کھولنے کا اعلان کیا ہے۔اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے گزشتہ منگل کے روز اس سلسلے میں ایک میٹنگ کے بعد اپنے ٹویٹر ہینڈل پر یہ جانکاری پوسٹ کی۔ ان کی اطلاع کے مطابق علی گڑھ، اعظم گڑھ اور سہارنپورمیںاعلیٰ تعلیم کے فروغ کی خاطر یہ تین نئی یونیورسٹیاں کھولی جائیںگی۔ انھوں نے اپنے ٹویٹ میں یہ بھی بتایا کہ علی گڑھ میں راجا مہندر پرتاپ سنگھ یونیورسٹی کے قیام کیلئے زمین حاصل کر لی گئی ہے اور باقی دو مقامات اعظم گڑھ اور سہارنپور میں زمین حاصل کرنے کا عمل جاری ہے جو جلد ہی پورا ہو جائے گا۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کا یہ اعلان بہ ظاہر اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے متعلق ان کی حساسیت اور سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے لیکن اگر اس ریاست میں اعلیٰ تعلیم کے مسائل کی نوعیت کو مد نظر رکھ کر اس اعلان پر غور کیا جائے تو حقیقت حال کچھ دوسرا ہی تقاضا کرتی ہے۔
 تعلیم کے لحاظ سے اترپردیش کا شمار ملک کی ان ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں اس شعبہ کو ترقی دینے کیلئے ٹھوس اور کارگر اقدامات درکار ہیں۔یہ صورتحال ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک ہے ۔اس ریاست میں سرکاری پرائمری اسکولوں کے دگر گوں حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیںاور کم و بیش یہی حالات یہاں کی ان یونیورسٹیوں کے بھی ہیں جو ریاستی حکومت کے دائرہ کار میں آتی ہیں۔ ایسی صورت میں نئی یونیورسٹیاں کھولنے سے بہتر یہ تھا کہ ان یونیورسٹیوں کو درپیش مسائل حل کرنے کی جانب سنجیدہ توجہ دی جاتی، جو پہلے ہی سے اعلیٰ تعلیمی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ یہاں کی یہ یونیورسٹیاں بہ یک وقت کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہیں جو اُن کے تعلیمی معیار کو متاثر کر رہے ہیں۔ یہ مسائل ریاست کی حکومت سے مخفی نہیں ہیں لیکن ان کے تدارک کیلئے موثر اقدامات کرنے کے بجائے یوگی حکومت نئی یونیورسٹیاں کھولنے میں زیادہ دلچسپی دکھا رہی ہے۔یوگی حکومت کے اس اعلان سے پہلا تاثر یہ قائم ہوتا ہے کہ وہ ریاست میں تعلیم کے معیار کو اونچا اٹھانے کیلئے فکر مند ہیں ۔ اس کے علاوہ ریاست کے نوجوانوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا بھی ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ ملک کی اس اہم اور بڑی ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے انھیں ایسا سوچنا بھی چاہئے ۔ تین نئی یونیورسٹیاں کھولنے کے اعلان سے شاید وہ یہ ظاہر بھی کرنا چاہتے ہیں کہ ریاست میں اعلیٰ تعلیم کو فروغ دینے کیلئے وہ فکر مند ہیں لیکن ان کی اس فکر مندی میں صداقت اور دیانت داری سے زیادہ سیاسی مفاد کے حصول کا جذبہ کارفرما نظر آتا ہے۔ اگر وہ ریاست میں اعلیٰ تعلیم کے تئیں واقعی سنجیدہ ہیں تو انھیں ان یونیورسٹیوں کی کھوج خبر لینی چاہئے جو مختلف طرح کے مسائل سے جوجھ رہی ہیں اور یہ مسائل نہ صرف ان یونیورسٹیوں کے تعلیمی معیار کو بلکہ ان میں زیر تعلیم طلبہ کے مستقبل کو بھی متاثرکر رہے ہیں۔
 ان مسائل میں سب سے بنیادی اور اہم مسئلہ اساتذہ کی تعداد میں کمی کا ہے ۔ اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کی غرض سے یوجی سی نے جو ضابطے بنائے ہیں، ان کے مطابق ۳۰؍ طلبہ پر ایک ٹیچر کا تناسب قائم کیا ہے ۔ یوپی میں کئی یونیورسٹیوں میں اس تناسب کا کوئی نظم نہیں ہے اور ساتھ ہی ۷۰؍ طلبہ کی تدریس کا ذمہ ایک ٹیچر پر ڈال دیا گیا ہے۔کئی یونیورسٹیاں ایسی ہیں جہاں پڑھانے والے اساتذہ  میں سے ایک تہائی عارضی ملازمت یا کانٹریکٹ پر رکھے گئے ہیں۔ ایسے اساتذہ جو چھ ماہ یا ایک سال کی مدت کیلئے رکھے جاتے ہیں۔ان اساتذہ کا یونیورسٹی انتظامیہ خوب استحصال کرتی ہے۔ یہ اساتذہ پڑھانے کے علاوہ وہ دیگر کام بھی کرتے ہیں جو بعض اوقات ایک ٹیچر کو زیب نہیں دیتے لیکن چونکہ انھیں اپنی ملازمت کو باقی رکھنا ہوتا ہے لہٰذا وہ اس تکلیف اور ذلت کو بھی گوارہ کرلیتے ہیں۔ عارضی ملازمت یا کانٹریکٹ پر رکھنے جانے والے اساتذہ مسلسل ایک نفسیاتی کرب میں مبتلا ہوتے ہیں جس کا اثر کسی نہ کسی صورت میں ان کی تدریس پر بھی پڑتا ہے ۔اعلیٰ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے میں یہ مسئلہ کئی طرح کے ضمنی مسائل بھی پیدا کرتا ہے  لہٰذا نئی یونیورسٹیاں کھولنے کے اعلان سے کہیں زیادہ بہتر یہ ہوتا کہ یوگی حکومت پہلے سے کام کر نےوالی اسٹیٹ یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی مستقل تقرری کو ترجیح دے اور یوجی سی کے طے شدہ ضابطے کے تحت ۳۰؍ طلبہ پر ایک ٹیچر کے تناسب کو یقینی بنائے۔
 ریاست میں اعلیٰ تعلیم کو متاثر کرنے والا دوسرا مسئلہ یونیورسٹی سطح پر پھیلی وہ بدعنوانی ہے جو تعلیم کے تقد س کو متاثر کرتی ہے۔ اگر چہ یہ مسئلہ صرف یوپی کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی یونیورسٹی انتظامیہ کی بدعنوانی کے سبب اعلیٰ تعلیم کے معیار کو نقصان پہنچ رہا ہے تاہم یوپی کے وزیر اعلیٰ کے ذریعہ ریاست میں تین نئی یونیورسٹیوں کے قیام کے اعلان کے تناظر میں دیکھا جائے تو ریاستی حکومت کو پہلے اس مسئلہ پرتوجہ دینا چاہئے۔اس طرز کی بدعنوانی نے اعلیٰ تعلیمی سطح پر نااہلوں کا ایسا ہجوم تیار کر دیا ہے جو صرف مالی منفعت پر نظر رکھتے ہیں۔ اس ہجوم کے نزدیک اقدار حیات اور سماجی ذمہ داریوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور اس پر طرہ یہ کہ ایسے لوگ اپنے ہر عمل کیلئے کوئی نہ کوئی جواز تلاش کر لیتے ہیں۔ہندوستان کی نوجوان نسل فکر ی سطح پر جس بے سمتی کا شکار ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت میں اس طرز کی بدعنوانی کا نمایاں رول رہا ہے ۔
 اگر خصوصی طور سے اتر پردیش کے حوالے سے بات کریں تو اس ریاست میں اعلیٰ تعلیم کے معیار کو متاثر کرنے والا ایک مسئلہ یہاں کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جانے والا وہ فرسودہ نصاب ہے جو جدید دور کے تقاضوں کی تکمیل بہتر طریقہ سے نہیں کر سکتا۔ریاستی حکومت کو اس طرف سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اور یونیورسٹیوں کے نصاب کو کم از کم اس حد تک جدید بنانے کی ضرورت ہے جو طلبہ کے بہتر مستقبل کی راہ ہموار کر سکے۔ اس معاملے میں ریاست کی پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے حالات نسبتاً بہتر ہیں ۔ یہاں میڈیکل، انجینئرنگ اور دوسرے تکنیکی و سائنسی علوم کی تدریس کیلئے پرائیویٹ یونیورسٹیاں قدرے بہتر کارکردگی انجام دے رہی ہیں۔اس کے برعکس یہاں سرکاری یونیورسٹیوں میں بیشتر آرٹس یا سماجی علوم کے شعبوں میں ہی طلبہ داخلہ لیتے ہیں، مگر افسوس کہ یہاں بھی ان کی تدریس کیلئے موزوں اور کارگر نصاب کا فقدان ہی نظر آتا ہے۔ان علوم کی تدریس میں اکثر ان تحفظات کو ترجیح دی جاتی ہے جو ایک خاص آئیڈیالوجی کے مطابق نوجوان نسل کی تربیت میں معاونت کر سکیں۔ اس ریاست کی نوجوان نسل کے ذہنی رویے پر اگر نظر ڈالیں تو یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم نے انھیں ایک ذمہ دار اور حساس شہری بنانے سے زیادہ ایک خاص مذہبی فکر کے حامل ہجوم میں تبدیل کر دیا ہے۔ 
 یوپی میں تین نئی یونیورسٹیاں کھولنے کیلئے جن شہروں کا انتخاب کیا گیا ہے وہ بھی ریاستی حکومت کے اس موقف کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کا مقصد اعلیٰ تعلیم کو عام کرنے سے زیادہ ان شہروں اور ان کے اطراف میں بسنے والے نوجوان ذہنوں کی ایک خاص ڈھنگ اور ایک خاص مقصد کے تحت تربیت کرنا ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اعظم گڑھ اور سہارنپور میں ایک معیاری یونیورسٹی کی ضرورت ہے تو حکومت کے ذریعہ علی گڑھ کے انتخاب کو کس نظر سے دیکھا جائے؟یہاں کی مسلم یونیورسٹی نہ صرف ہندوستان بلکہ عالمی سطح پر ایک معیاری اور اعلیٰ تعلیمی مرکز کی حیثیت رکھتی ہے اور یہاں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو  پوری دنیا میںقدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس یونیورسٹی کے متعلق ریاستی حکومت کے سابقہ اقدامات پر نظر ڈالی جائے تو بہ آسانی یہ سمجھ میں آجاتا ہے کہ یہاں ایک نئی یونیورسٹی کے قیام کا مقصد اس اہم تعلیمی مرکز کی قدر و منزلت کو متاثر کرنا ہے۔یہ بھی پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ یوگی حکومت کے ذریعہ ان یونیورسٹیوں کے قیام کے بعد ریاست میں اعلیٰ تعلیم کے معیار میں کوئی بڑا بدلاؤ آئے گا۔ اس ضمن میں سدھارتھ یونیورسٹی کی مثال سامنے ہے جسے سابقہ اکھلیش حکومت نے بنایا تھا لیکن  یہاں اب بھی حصول تعلیم کا معقول اور موثر بندوبست نہیں ہو سکا ہے۔ ریاستی حکومت اگر واقعی اعلیٰ تعلیم کے متعلق سنجیدہ ہوتی تو اسے پہلے سے موجود یونیورسٹیوں کے ان مسائل کا کوئی ٹھوس حل تلاش کرنا چاہئے تھا جو تعلیمی معیار کو متاثر کرتے ہیں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK