Inquilab Logo

بتاؤں کیا کہ میرا مدعا یوں بھی ہے اور یوں بھی

Updated: September 19, 2020, 9:55 AM IST | Shahid Latif | Mumbai

کورونا کی وجہ سے نافذ کیا گیا لاک ڈاؤن یا تو ختم ہوچکا ہے یاقریب الختم ہے، اس لئے ضروری ہے کہ اس کے زیر سایہ گزرنے والے چھ مہینوں پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے اور کچھ حساب سود و زیاں کرلیا جائے۔ لاک ڈاؤن میں یہ بھی ہوا کہ محدود وسائل کے ساتھ نباہ کرنے کا موقع میسر آیا ورنہ ہزار وسائل بھی کم دکھائی دیتے تھے۔ معلوم ہوا کہ آئے دن کی شاپنگ نہ ہو تو اس سے نیند نہیں اُچٹتی۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

اگر اس حقیقت کو فراموش کیا جاسکتا ہو کہ وطن عزیز میں لاک ڈاؤن صرف چار گھنٹے کے نوٹس پر نافذ کیا گیاتھا، اگر اس سچائی کو بھلایا جاسکتا ہو کہ ملک میں نافذ ہونے والا لاک ڈاؤن اپنی نوعیت کا سخت ترین لاک ڈاؤن تھا، اگر اس دوران لازمی اشیاء کے حصول میں پیش آنے والی مشکلات کو بھلایا جاسکتا ہو، اگر عبادت گاہوں میں عبادت موقوف ہونے کے درد کو دبایا جاسکتا ہو، مہاجر مزدوروں کی حالت زار سے صرف نظر کیا جاسکتا ہو، اگر لاکھوں کروڑوں خاندانوں کی گزر اوقات کے شدید مسئلہ کو بالائے طاق رکھا جاسکتا ہو، اگر اپنوں سے دور ہونے کی حقیقت کو ذہن سے محو کیا جاسکتا ہو، اگررشتہ داروں اور دوستوں کی تجہیز و تکفین میں شریک نہ ہوپانے کی بے بسی کو پس پشت ڈالا جاسکتا ہو، اگر کورونا کی وجہ سے اور اس کے بغیر محض اس لئے کہ بروقت طبی مدد نہیں مل سکی، ہزاروں اموات کو نظر انداز کیا جاسکتا ہو، اگر کورونا کو ایک خاص فرقے سے جوڑنے کی مذموم کوشش کو ذہن سے نکالا جاسکتا ہو، لاک ڈاؤن کے سبب مسلسل گھر میں رہنے سے پیداشدہ نفسیاتی مسائل کو درگزر کیا جاسکتا ہو، اگر کورونا کے مریضوں کے ساتھ اچھوتوں جیسے سلوک کے واقعات کو بھلایا جاسکتا ہو اور اگر سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کی درگت کو فراموش کیا جاسکتا ہو تو: تو کہا جاسکتا ہے کہ لاک ڈاؤن اچھا تجربہ تھا۔
 لاک ڈاؤن اچھا تجربہ اس لئے تھا کہ عام دنوں میں زندگی کی بھاگ دوڑ کسی کو خود سے ملاقات کا موقع نہیں دیتی۔ اس دوران یہ موقع میسر آیا۔ لوگوں نے دیکھا اور حیران ہوئے کہ، مثال کے طور پر، سر کے بال اتنے سفید پہلے نہیں تھے!، نچلے منزلہ پر جو نئے پڑوسی آئے ہیں وہ تو پرانے شناسا ہیں !، محلے میں جو کنواں تھا، وہ پاٹ دیا گیا اور ہمیں خبر تک نہ ہوئی، استفسار پر معلوم ہوا کہ یہ تو دس سال پرانا واقعہ ہے، تکنالوجی کو ہم نے ہمیشہ بڑی زحمت سمجھا مگر کبھی سوچا نہیں تھا کہ ایسے دن بھی آئیں گے جب عزیزوں اور دوستوں سے ’’عکسی ملاقات‘‘ ( ورچوئل میٹنگ کا اُردو متبادل، گوارا کرلیجئے) اسی تکنالوجی کے سبب ممکن ہوسکے گی!، کبھی یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ ممبئی کی لوکل ٹرینوں کی پٹریوں کو پہلے اونگھتے، پھر سوتے اور پھر خراٹے لیتا ہوا دیکھ سکیں گے، کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ ممبئی جیسے شہروں کی سڑکیں ، جو ہمہ وقت موٹر گاڑیوں سے اَٹی رہتی ہیں ، اتنی سنسان ہوجائینگی کہ ان پر پرندہ پر بھی مار سکے گا اور پرندوں کے غول کے غول تفصیلی میٹنگ یا چوٹی کانفرنس بھی کرسکیں گے، کسی نے خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا کہ جنگلوں میں بہت اندر پائے جانے والے حیوان سڑکوں کے کنارے آکر اور ’’انسان سے بے خوف ہوکر‘‘ سستائیں گے، اٹکھیلیاں کریں گے اور ایک دوسرے سے سوال کریں گے کہ یہ سڑکیں کب بنیں ؟
  یہ سب لاک ڈاؤن کے ان چھ مہینوں میں ممکن ہوسکا ہے۔ 
 لاک ڈاؤن میں یہ بھی ہوا کہ لوگوں کو احساس ہوا کہ زندگی جو ’’ویسی‘‘ ہے وہ ’’ایسی‘‘ بھی ہوسکتی ہے، انسان کی ہمہ جہت ترقی ایک نادیدہ جرثومے سے دم بخود رہ سکتی ہے، نئے مگر سنگین خطرہ سے دوچار ہوسکتی ہے، ایک نادیدہ جرثومہ دُنیا بھر میں مشہور ہوسکتا ہے، اُسے ایک سے دوسرے شخص تک پہنچنے کیلئے چند ثانیے بھی درکار نہیں ہوتے مگر ویکسین کی تیاری کو مہینوں لگ سکتے ہیں ، ہر فکر پر ایک فکر غالب آسکتی ہے، اچھا بُرا ہر منصوبہ دھرا کا دھرا رہ سکتا ہے، بڑی سے بڑی میٹنگ ملتوی ہوسکتی ہے، طیارے پرواز بھول سکتے ہیں ، گفتگو کے ہزار موضوع ایک اور صرف ایک موضوع پر سمٹ سکتے ہیں اور عالمی گاؤں اُس درخت سے مشابہ ہو سکتا ہے جس کے قریب سے گزرنے کیلئے بڑےبوڑھے یہ کہہ کر منع کرتے تھے کہ اس پر آسیب کا بسیرا ہے۔
 لاک ڈاؤن میں یہ بھی ہوا کہ محدود وسائل کے ساتھ نباہ کرنے کا موقع میسر آیا ورنہ ہزار وسائل بھی کم دکھائی دیتے تھے۔ معلوم ہوا کہ آئے دن کی شاپنگ نہ ہو تو اس سے نیند نہیں اُچٹتی، شادی بیاہ میں لاکھوں روپے خرچ نہ کئے جائیں تب بھی شادی ہوجاتی ہے، ہوٹل کے کھانے نہ ملیں تب بھی شکم آباد رہ سکتا ہے، سیر سپاٹے نہ کئے جائیں تب بھی طبیعت ہشاش بشاش رہ سکتی ہے، ہر مہینے دو مہینے پر نئے کپڑے نہ سلوائے جائیں تب بھی اپنی شان پر بٹہ نہیں لگتا، گاڑی لے کر نہ نکلیں بلکہ اپنے پیروں پر بھروسہ کریں تب بھی مسافت طے ہوتی ہے اور یہ بھی علم ہوا کہ جن اشیاء کو ہم نے اشیائے ضروریہ سمجھ لیا ہے اُن میں کئی ’’کم ضروری‘‘ اور چند ’’غیر ضروری‘‘ ہیں ، ان کے بغیر گزر اوقات کا تہیہ کرلیا جائے تو گھریلو بچت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
 لاک ڈاؤن نے عوام کے صبر کو اور عوام نے خود اپنے صبر کو آزمایا، اس نے شہری ڈسپلن کو بھی آزمایا چنانچہ وہ لوگ جو قطار میں کھڑا رہنے کے قائل نہیں تھے، وہ دکانوں کے آگے بنے ہوئے دائروں میں کھڑے رہے، لاک ڈاؤن نے سمجھایا کہ زندگی ایسی بھی ہوسکتی ہے اور خدانخواستہ ایسی ہی رہے تب کیا ہوگا، ا س نے یکسوئی عطا کی اور غیر یکسوئی کی زندگی کا عیب اُجاگر کیا، اس نے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ نہایت محدود وسائل والی زندگی کیسی ہوتی ہے! لاک ڈاؤن نے دوسروں سے ہمدردی کو پروان چڑھایا، ان کے دُکھ درد پر دست تعاون دراز کرنے کی توفیق دی جبکہ ملازمت اور کاروبار کی مصروفیات کے دوران تو دوسروں کا دُکھ درد دکھائی بھی نہیں دیتا، اس نے ’’تڑپ اے دل، تڑپنے سےذرا تسکین ہوتی ہے‘‘ کے پس پشت فلسفہ سمجھاتے ہوئے تڑپنے کی ادا سکھائی، اس نے وسائل کے محتاط استعمال کی فکر عطا کی اور جذبہ ٔ شکر کو مستحکم کیا، اس نے یہ بھی بتایا کہ نہ تو مصروفیات میں غرق رہنا درست ہے نہ ہی اتنا فارغ رہنا ٹھیک ہے کہ گھر بھائیں بھائیں کرتا ہوا محسوس ہو، ا س نے ماحولیاتی تحفظ کا پیغام دیا، صحت کی قدر کرنے کی فکر عطا کی، اپنوں اور غیروں کی مزاج پرسی کی ضرورت پر زور دیا، اس نے جتنا پریشان کیا اتنی ہی راحت بھی دی ، یہ الگ بات کہ سود و زیاں کو آنکنے کا ہر شخص کا اپنا زاویۂ نظر اور اپنا تجربہ و مشاہدہ ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK