Inquilab Logo

معیشت کی بحالی کب؟

Updated: October 09, 2021, 2:21 PM IST

ریزرو بینک نے مالی سال ۲۰۲۲ء کے لئے ہندوستانی معیشت کی شرح نمو ۹ء۵؍ بتائی ہے جبکہ تجارتی و معاشی تنظیم ’’فِکی ّ‘‘ کا اندازہ ہے کہ یہ شرح ۹ء۱؍ رہے گی۔

Shaktikanta Das. Picture:INN
آر بی آئی کے گورنر شکتی کانت داس ۔ تصویر: آئی این این

 ریزرو بینک نے مالی سال ۲۰۲۲ء کے لئے ہندوستانی معیشت کی شرح نمو ۹ء۵؍ بتائی ہے جبکہ تجارتی و معاشی تنظیم ’’فِکی ّ‘‘ کا اندازہ ہے کہ یہ شرح ۹ء۱؍ رہے گی۔ یہ اندازے بڑے ماہرین معاشیات کے مجموعی تجزیئے کی بنیاد پر پیش کئے جاتے ہیں اس لئے ان کے اندازوں کی تہہ تک پہنچنا اور ان کی صحت جانچنا کارے دارد ہوتا ہے۔ یہ ایک عام مبصر کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ عام مبصر اپنے گردوپیش کے حالات کو بنیاد بناتا ہے اور اپنے اندازے خود لگاتا ہے۔ اسے مہنگائی بڑھتی ہوئی محسوس ہو، مارکیٹ میں ڈیمانڈ کم دکھائی دے یا بے روزگاری منہ چڑاتی ہوئی نظر آئے تو معیشت کے تعلق سے اس کی رائے خراب ہوجاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر اوقات ماہرین کے اندازے ناکام ہوجاتے ہیں اور عام مبصرین کی بات صحیح ثابت ہوتی ہے۔
 اب یہی دیکھ لیجئے کہ گزشتہ سال چند ماہرین کا کہنا تھا کہ معیشت کی بحالی انگریزی حرف ’’وی‘‘ جیسی ہوگی (اسے وی شیپ ریکوری کہتے ہیں)۔ اس میں معیشت جتنی تیزی سے زوال پزیر ہوئی اُتنی ہی تیزی سے بحال ہونے لگتی ہے۔ گزشتہ سال سے اب تک ایسا نہیں ہوا۔ بحالی یا ریکوری ہوئی تو وی شیپ کے بجائے ’’کے شیپ‘‘ محسوس ہورہی ہے۔ اس میں معیشت کے چند شعبے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ تیز رفتار اور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں یہی ہوا ہے۔ چند شعبے مثلاً ادویہ سازی، غذائی اجناس وغیرہ میں تیزی آئی مگر دیگر تمام شعبے ہانپتے کانپتے رہے۔ واضح رہے کہ ایک بحالی یا ریکوری ’’یو شیپ‘‘ ہوتی ہے یعنی زوال کے بعد بہت دھیمی رفتار سے آگے بڑھتے ہوئے بالکل ’’یو‘‘ کے انداز میں کچھ عرصے کے بعدبحالی کی طرف گامزن ہوتی ہے۔ہمارا خیال ہے کہ اب جو تہواروں کا سلسلہ شروع ہوا ہے، یہ ایک کسوٹی ہے جس میں خاص طور پر یہ نوٹ کرنا ہوگا کہ آیا بازاروں میں خریدوفروخت میں تیزی آتی ہے یا ٹھہرا ٹھہرا سا ماحول برقرار رہتا ہے۔ اگر بازار میں خریدوفروخت میں اضافہ ہوا تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہوگا کہ صارفین کا اعتماد بحال ہورہا ہے۔ مگر یہ بھی مشروط ہے۔ اگر جوش وخروش تہواروں تک محدود رہا تو ہم ایسوں کی رائے ایک بار پھر بدل جائیگی۔  یاد رہنا چاہئے کہ بازار اصل کسوٹی ہے۔ خریدوفروخت سے ڈیمانڈ اور سپلائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اگر ڈیمانڈ میں اضافہ ہے تو سپلائی کیلئے پیداوار میں اضافہ ہوگا، صنعتی سرگرمیاں تیز ہوں گی اور معیشت کی رگوں میں خون کی گردش بڑھے گی۔  مسئلہ یہ ہے کہ معیشت کو کئی محاذوں پر مشکلات کا سامنا ہے۔ افراطِ زر، بے روزگاری، کورونا کی ’’نت نئی لہریں‘‘ اور صارفین کے اعتماد میں کمی۔ نیتی آیوگ گورننگ کونسل کی چھٹی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے معیشت کی رفتار میں تیزی لانے کیلئے مرکز اور ریاستوں کے درمیان بہتر تال میل کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ اس سے یقینی فائدہ ہوسکتا تھا مگر معاشی جدوجہد میں اشتراک و تعاون کی کیفیت اُس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتی جب تک سیاسی اشتراک و تعاون کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔ اگر ریاستوں سے مرکز کے تعلقات میں دراڑیں پائی جائیں تو متحدہ معاشی جدوجہد کا امکان مفقود ہی رہے گا جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ معیشت کی بحالی کیلئے پورا ملک متحد ہو۔ کیا ایسا ہورہا ہے؟ ہمارے خیال میں اس کا جواب نفی میں ہے۔کسانوں کی تحریک بھی یہ سمجھاتی ہے کہ جس زرعی شعبے سے معیشت کو سنبھالا ملتا رہا ہے، اس پر بھی سوالیہ نشان ہے!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK