Inquilab Logo

کہاں ہیں پروفیسر ہیگنس؟

Updated: November 22, 2020, 5:46 AM IST | Prof Syed Iqbal

ہم نے اپنی زندگی سے تہذیب ، خوش اخلاقی اور گریس کو ایسا غائب کردیا ہے کہ اب ہمیں ایک پروفیسر ہیگنس کی ضرورت ہے۔ پروفیسر ہیگنس برنارڈ شاہ کے ڈرامےکا ایک کردار ہے۔ اسی ڈرامے پر ’مائی فیر لیڈی ‘ نامی فلم بھی بنی تھی۔ پروفیسر ہیگنس ایک پھول بیچنے والی اجڈسی لڑکی کو اتنا شائستہ اور مہذب بنا دیتے ہیں کہ جب اسے شاہی حلقوں میں متعارف کروایاجاتا ہے تو ہر کوئی پوچھنے لگتا ہے کہ یہ محترمہ کس شاہی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں؟ آج پروفیسر ہیگنس کہیں مل جائیں تو ہم ان سے درخواست کریں گے کہ ہمیں شاہانہ آداب تو نہیں لیکن ڈھنگ کا انسان بنادیجئے

Pro Higgins in Drama
ڈرامے کے ایک منظر میں پروفیسر ہیگنس

 برسوں پہلے اشوک کمار کے اعزاز میں ایک پروگرام منعقد ہوا تھا جس میں دلیپ کمار مہمان خصوصی  کی حیثیت سے مدعو تھے۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور اشوک کمار سامعین کے درمیان پہلی صف میں بیٹھے تھے۔ جب ان کا نام پکارا گیا تو وہ دھیمے دھیمے  دھیمے اسٹیج کی طرف بڑھنے لگے۔ دلیپ کمار یہ دیکھ کر  فوراً اپنی نشست سے اُٹھے اوران کا استقبال کرنے سیڑھیوں تک آگئے ۔ ان کا ہاتھ تھاما، ان کی نشست تک لے گئے اوراس وقت تک اپنی نشست کے پاس کھڑے رہے جب تک کہ صاحب اعزاز بیٹھ نہیں گئے۔ دلیپ کمار کا ایک سینئر اداکار کیلئے یہ احترام بے مثال تھا اور اپنے ساتھی فنکار کی یہ تعظیم  ان کی  شائستگی کی بھی دلیل تھی۔ اس بات کو ہال میں موجود سارے مہمانوں نے محسوس کیا اور اشوک کمار کے ساتھ دلیپ کمار کیلئے بھی اتنی ہی تالیاں بجائیں۔ انگریزی میں اسے Graceکہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا جذبہ  یا عمل ہے جس کے ظاہر ہوتے ہی فضا میں گویا روشنی پھیل جاتی ہے اورہرشخص کا موڈ اچانک خوشگوار ہونے لگتا ہے۔ افسوس ! یہ تہذیبی قدریں آج خال خال نظر آتی ہیں۔ ایک وجہ شاید یہ ہو کہ آج نئی نسل کے اقدار یکسر بدل چکے ہیں۔ ان کی دنیا میں اپنی عمر سے بڑے افراد کیلئے کوئی جگہ نہیں بلکہ وہ بے شمار صحت مند قدروں سے اس قدر غافل ہوچکے ہیں کہ راستہ چلتے ہوئے یہ بھی نہیں دیکھتے کہ سامنے سے کون آرہا ہے؟ اپنی دوڑ بھاگ میں وہ کتنوں سے ٹکراتے ہیں، بسوں کے پیچھے بھاگنے اور ٹرینوں میں اچھی سیٹ  پکڑنے کے جنون میں کتنی قدریں پامال کرتے ہیں اس کا بھی انہیں ہوش نہیں رہتا۔ ایک عرصے سے ہمیں کوئی صاحب باوقار انداز میں چلتے ہوئے دکھائی نہیں دیئے۔ ہوسکتا ہے لوگ ہمیں ناسٹلجیا کا مریض قراردیں مگر آج بھی کوئی نوجوان اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتا نظرآتا ہے تو ہم خواہ مخواہ خوش ہونے لگتے ہیں۔ جب ہم پڑھتے ہیں کہ کوئی رکشا والا اسپتال جانے والے مریضوں سے کرایہ نہیں لیتا، کچھ مسلمانوںنے اپنے ہندو پڑوسی کی ارتھی اپنے کاندھوںپر اٹھاکر اسے شمشان بھومی تک پہنچایا یا چند نوجوانوں نے ریلوے پلیٹ فارم پر  پھنسے غریبوں میں کھانا تقسیم کیا تو ایسے نیک  نفوس کیلئے دل سے دعائیں نکلنے لگتی ہیں۔ شاید انہیں اعمال کے سبب زندگی بدستور حسین ہے  ورنہ کب کی بے توقیر ہوچکی ہوتی۔
  ویسے ہر دور میں معاشرے کی اس کج روی کو دور کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ واعظین نے اپنے خطبوںکے ذریعہ آداب زندگی کو ترویج دینے کی کوشش کی ہے تواہل قلم نے اپنی تحریروں سے ۔ حال ہی میں مصرمیں کھدائی کے دوران ساڑھے چار ہزار برسوں پرانی ایک کتاب ملی  ہے جس میں ’طاہ حطپ‘ نامی بادشاہ  نے اپنی درد مند تحریر سے اس وقت کے سماج کی عکاسی کی ہے۔ اسے پڑھ کر لگتا ہےکہ معاشرتی خرابیاں ان دنوں بھی اپنے عروج پرتھیں اورآج ہی کی طرح  بے ادبی اور بداخلاقی عام تھی۔  دور کیوں جائیں، انیسویں صدی میں ہمارے ہاں محمدی بیگم نے ’تہذیب نسواں‘ نامی رسالہ جاری کرکے عورتوں کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا تھا اور عبدالحلیم شرراپنی ناولوں کے توسط  سے خواتین کی بہبود کی تحریک چلارہے تھے۔ مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کی ’بہشتی زیور‘ ، سرسید احمدخان کا ’تہذیب الاخلاق‘ اور مولانا یوسف کی ’آداب زندگی ‘ اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ یوں  دیکھاجائے تو ہمارا سارا دینی لٹریچر ایک صحت مند معاشرہ کی کوشش ہی کہا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود نئی نسل کی بے راہ روی میں کمی نہیں آئی۔ مغرب کے دانشوروں اور مفکروں کی تحریروں کا مطالعہ کرنے پر یہی بات سامنے آتی ہے کہ پچھلے تیس برسوں کے مقابلے میں آج کا نوجوان صرف اپنے لئے جیتا ہے۔
  یونیورسٹی آف مشی گین کی ایک تحقیق کے مطابق دوسروں کے متعلق نوجوانوں کی فکر مندی ۴۰؍فیصد کم ہوئی ہے۔ کم وبیش یہی حال امراء کا ہے۔ ان کیلئے پکنک پارٹیاں اور سماجی وسرکاری تقریبات میں سج دھج کر حاضری لگانا ہی سب کچھ ہے۔ چونکہ معاشرے میں مسابقت کی دوڑ سخت ہوچلی ہے، اسلئے بزنس، انٹرٹینمنٹ اور اسپورٹس میں کامیابی حاصل کرنا ہی سب کچھ نہیں بلکہ اپنے مدمقابل کو ملیامیٹ کردینا بھی کامیابی کی علامت ہے۔ کبھی کبھار لگتا ہے کہ  ہمارے معاشرے نے شرافت اور نیکی کے خلاف محاذ کھڑا کردیا ہے۔ دراصل یہ سارا کھڑاگ ایک آرام دہ زندگی خریدنے کیلئے ہے۔ ڈپارٹمنٹ اسٹور ، شاپنگ مالز، اشتہارات کی یلغار اور ٹیلی ویژن پروگرام کے توسط سے دوسروں کی زندگی میں جھانکنے کی عادت نے ہمیں ایسا روبوٹ بنادیا ہے کہ اخلاق ووقار کی گرد جھاڑ کر ہم چاہے اسے تھوڑی دیر کے لئے پہن بھی لیں مگر کام نکلتے ہی اسے لپیٹ کر ڈبیا میں بند کردیتے ہیں۔
  Graceکوئی عارضی وصف نہیں،  یہ برسوں کی تربیت کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ گھریلو ماحول، اچھے اساتذہ ، اچھی صحبتیں ، اچھی کتابیں مل کر ہی گریس کو جنم دیتی ہیں۔ پھر زاویہ ٔ نگاہ بدل جاتا ہے۔ اناپسندی کی جگہ ایثار لے لیتا ہے، انفرادی خوشیوں کی جگہ اجتماعی مفادات اہم ہو جاتے ہیں، کمزوروں اور غریبوں سے محبت اور انسانیت سوز اعمال سے نفرت دستور حیات بن جاتا ہے اور سارے وجود میں صحت مند قدروں کے گلاب کھلنے لگتے ہیں ۔ ایسے  ہی لوگ اطمینان کی دولت سے بہرہ ور ہوتے ہیں اورایسے ہی لوگ معاشرے میں بہاروں کے پیامبر بن جاتے ہیں۔
  ۲۷؍ سال  قید وبند کی طویل زندگی گزارنے کے بعد نیلسن منڈیلا اپنے سفید فام حکمرانوں سے بدلہ لے سکتے تھے لیکن جنوبی افریقہ میں امن وآشتی قائم کرنے کیلئے انہوںنے نسل پرستوں کو معاف کردیا۔ امریکی صدر روز ویلٹ کی بیگم نے ایک سفارتی دعوت میں جب غیر ملکی مہمان کو کھانے کے بعد’فنگر بول‘ کو مزے سے پیتے دیکھا تو خود بھی اپنے ’فنگر بول‘ کو غٹاغٹ پی گئیں تاکہ مہمان کو احساس نہ ہو کہ وہ دسترخوان کے آداب سے ناواقف ہے۔ معروف  ادیب اشفاق احمد نے کہیں لکھا ہے کہ روم کے ایک مشہور صحافی کی دعوت میں جب وہ بلائے گئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس کے شاندار مکان میں سب سے آرام  دہ کمرے ان کے نوکروں اور خدمتگاروں کے تھے جبکہ ان کا اپنا کمرہ ایک میز ، دوکرسیوں اورایک صوفے پر مشتمل تھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ ان کی والدہ کبھی کسی رئیس کے ہاں خادمہ ہوا کرتی تھیں اورانہوںنے ایسے ہی کسی تنگ کمرے میں اپنے بچوں کے ساتھ زندگی گزاری تھی۔ دوڑکے عالمی مقابلے میں جب ایک سفید فام کھلاڑی نے اپنے آگے دوڑنے والے سیاہ فام کھلاڑی کو تذبذب میں رُکا ہوا دیکھا تواسے انگریزی میں دوڑ جاری  رکھنے کیلئے کہا۔ وہ صاحب جب انگریزی نہیں سمجھ پائے تو انہیں آہستہ سے ٹہوکا دے کر سمجھایا کہ وہ دوڑتے رہیں۔ بالآخر سیاہ فام کھلاڑی کی سمجھ میں بات آگئی اوراس نے دوڑ کر مقابلہ جیت لیا۔ مقابلے  کے بعد صحافیوں نے ا س شخص سے پوچھا کہ تم جیتی ہوئی بازی کیوں ہارگئے تو ان کا جواب تھا  کہ میں اپنے لوگوں کو بے ایمانی سے جیتی ریس کا تمغہ نہیں دکھانا چاہتا تھا۔ عثمانیوں کے دور میں نانبائی کی دکان کے باہر عموماً ایک ٹوکری رکھ دی جاتی تھی جس میں اکثر خریدار اپنی روٹیوں میں سے کچھ روٹیاں غریبوں کیلئے رکھ دیتے تھے۔ آج اسی کی نقل میں اورنگ آباد میں غریبوں کیلئے یہ ٹوکریاں پھر سے تندور کے باہر نظر آنے لگی ہیں۔ ایران میں غریبوں کیلئے گرم کپڑے، جرابیں اور  جوتے وغیرہ دیواروں پر ٹانگ دیئے جاتے ہیں تاکہ حاجت مند مانگنے کی ذلت سے محفوظ رہیں۔ ایک زمانہ تھا جب گوالے اپنے طویلوں کے باہر دودھ بھری ہوئی بالٹی رکھ دیتے تھے تاکہ غرباوہاں سے ضرورت بھر دودھ لے لیا کریں۔ ان دنوں معاشرے میں نیکی کرنے کا اتنا شوق تھا کہ زمینداروں کے ملازم غریبوں کے گھروں کے باہر فقیروں کی طرح کھانا مانگتے ۔ اگر کہیں سے جواب آتا کہ آج چولھا نہیں جلا تو زمیندار کے گھر سے ان کے ہاں خوان بھجوا دیا جاتا۔
  اب یہ حال ہے کہ آسودگی تو ہے مگر فیاض زمیندار نہیںرہے۔ہم نے ایک کلپ دیکھی جس میں سڑک کے کنارے ایک نابینا عورت اپنے گٹار پر ایک مشہور نغمہ گارہی تھی ۔ ایسے مناظر یورپ کی سڑکوں پر عام ہیں جہاں ضرورت مند سازبجاکر یا کوئی گیت گاکر مدد طلب کرتے ہیں۔ اتفاق دیکھئے کہ جب وہ عورت گانے میں مگن تھی، اسی وقت بھیڑ کو چیرتے ہوئے ایک اور عورت نکلی، اس نابینا کو گلے لگایا اور وہی گیت جھوم جھوم کر گانے لگی۔اس پر پاس کھڑے لوگوں نے خوب تالیاں بجائیں۔ دراصل نابینا عورت کو گلے لگانے والی وہی مشہور گلوکارہ تھی جس کا گیت وہ نابینا عورت گارہی تھی۔ ایسی ہی فراخی کا ایک اور واقعہ پڑھ لیجئے۔ عظیم باکسر محمد علی جب اپنے مدمقابل کو ناک آؤٹ کرچکے اور ریفری نے ان کا ہاتھ اٹھاکر کامیابی کا اعلان کردیا تو اچانک انہیں  ایک بچے کے رونے کی آواز سنائی دی۔ محمد علی کی چھٹی حس نے انہیں احساس دلایا کہ یہ بچہ ہونہ ہو اس  ہارے ہوئے باکسر کا بیٹا ہے۔ وہ اس بچے کو رنگ میں لے آئے اور اس سے لڑنے کی اداکاری کرنے لگے۔ چار پانچ سالہ بچہ محمد علی کو مکے مارنے  لگا اور جب اس نے ایک زور دار مکا رسید کیا تو محمد علی اداکاری کرتے ہوئے رنگ میں گرپڑے۔ بچہ اپنے باپ کے مدمقابل کو ہرا کر خوشی سے ناچنے لگا۔ اس ایک  لمحے نے محمد علی کو عظمت کی کن بلندیوں پر پہنچادیا تھا، یہ کہنے کی ضرورت نہیں۔
  چارلی چپلن ایسے عبقری فلم ساز اور اداکار کو کبھی آسکرایوارڈ سے نہیں نوازا گیا۔ شاید اپنی خفت مٹانے کیلئے جب آخری عمر میں انہیں زندگی بھر کی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ دیا گیا تو ہالی ووڈ کی برادری نے۱۰؍ منٹ تک کھڑے ہوکر ان کیلئے تالیاں بجائیں۔ چارلی چپلن اپنی تقریر بھی نہیں کرسکے۔ ان کی آنکھیں بھرآئی تھیں اورانہوںنے ہاتھ کے اشارے سے لوگوں کو رُک جانے کیلئے کہا تھا۔ اس شام ہالی ووڈنے ثابت کردیا کہ آسکرایوارڈ دینے والی تنظیم کس قدر متعصب ہے کہ ایک  اداکار کو صرف اسلئے ایوارڈ نہیں دیتی کہ اس کے بارے میں کسی نے مشہور کردیا تھا کہ وہ کمیونسٹ ہے۔ اپنے ہیرو کیلئے سامعین کا یہ جذبہ گریس سے معمور تھا اور اس لمحے سارا ہال منور ہوگیا تھا۔
  دراصل ہم نے اپنی روزمرہ کی زندگی سے تہذیب ، خوش اخلاقی اور گریس کو ایسا غائب کردیا ہے کہ اب ہمیں ایک پروفیسر ہیگنس کی ضرورت ہے۔ پروفیسر ہیگنس برنارڈ شاہ کے تخلیق کردہ ڈرامے Pygmalion کا کردار  ہے۔ اسی ڈرامہ پر ’مائی فیر لیڈی ‘ نامی فلم بھی بنی تھی۔ ڈراما میں پروفیسر ہیگنس ایک پھول  بیچنے والی اجڈسی لڑکی کو اتنا شائستہ اور مہذب  بنا دیتے ہیں کہ جب اسے شاہی حلقوں میں متعارف کروایاجاتا ہے تو ہر کوئی پوچھنے لگتا ہے کہ یہ محترمہ کس شاہی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں؟ آج پروفیسر ہیگنس کہیں مل جائیں تو ہم ان سے درخواست کریں گے کہ ہمیں شاہانہ آداب تو نہیں لیکن سلیقے سے ڈھنگ کا انسان بنادیجئے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK