Inquilab Logo

یوکرین میں کس کی ہار،کس کی جیت؟

Updated: June 07, 2022, 10:33 AM IST | Hassan Kamal | Mumbai

روسی فوجوں نے یوکرین میں جو کچھ کیا یا جو کچھ اب کر رہی ہیں، وہ کسی طور پر مستحسن عمل نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن کیا اس سب سے بچا نہیں جا سکتاتھا؟ہمارا یہ خیال اب اور پختہ ہوچکا ہے کہ یقیناً َاس المیہ سے بچا جاسکتا تھا اور اگر ایسا نہیں ہوا تو اس کی ذمہ داری روس پر تو ہے ہی، لیکن اس سے کئی گنا زیادہ یوکرین کے صد ر زیکنسکی پرہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

اگر یہ درست ہے کہ یوکرین کے حوالہ سے روس اور پوتن کا یہ خیال غلط نکلا کہ یوکرین میں روس کی فوجی کارروائی کی عمر بہت قلیل ثابت ہو گی ،تو یہ کہنا بھی اتنا ہی درست ہو گا کہ امریکہ،نیٹو اور صدر جوبائیڈن کا یہ خیال بھی سو فیصد غلط ثابت ہو چکا ہے کہ یوکرین کے کاندھے پر بندوق رکھ کر روس کی معیشت کا تیا پانچا کیا جا سکتا ہے اور اس کی عسکری استطاعت کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے یہ بات نہ امریکہ مان رہا تھا ، نہ مودی سرکار اورنہ اس کو ماننے کیلئے گودی میڈیا  تیار ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی سرکار اور گودی میڈیا دل کی تہوں سے تو اس معاملہ میں امریکہ کے ساتھ ہیں۔لیکن فوجی ضروریات اور ۲۵ ؍فیصدرعایتی داموں پر خام تیل کی دستیابی نے انہیں روس کی برملا مذمت کرنے سے روک رکھا ہے۔شروع شروع میں تو گودی میڈیا نے بھی مغربی اور امریکی میڈیا میں یوکرینیوں کی فتح اور روس کی شکستوں کی داستانیں سنائی لیکن جب روس نے مودی سرکار کو وارننگ دی کہ گودی میڈیا کے منہ میں لگام ڈالی جائے تو یہ داستانیں آنا بند ہو گئیں ۔علاوہ ازیں یہ بھی معلوم ہوا کہ روس کی شکست کے کئی ویڈیو فیک تھے۔بہر حال جیسا کہ کہا گیا  ہے یہ کہنا تو مشکل ہےکہ یوکرین کے معاملہ میں کس کی جیت اور کس کی ہار ہو رہی ہے، لیکن اگر پچھلے سو ماہ کے واقعات پر غور کیا جائے تو روس کی ناکامی سے امریکہ کی ناکامی زیادہ بڑی نظر آئے گی۔تمام تر نقصانات کے باوجودزمینی صورت حال یہ ہے کہ روسی  فوجیں تمام مغربی یوکرین پر قابض ہو چکی ہیں۔یوکرین کے تمام بڑے ایٹمی پلانٹ روس کے ہاتھوں میں ہیں۔ مشرقی یوکرین کا ۷۰؍فیصد علاقہ بھی روسی فوجوں کے قبضہ میں ہے۔ روس کی معیشت کو بھی ویسا نقصان نہیں پہنچ سکا ہے ، جیسا امریکہ نے سوچا تھا یا جتنا امریکہ پہنچانا چاہتا تھا۔ مغربی ممالک اب بھی روس سے خام تیل اور گیس خرید رہے ہیں۔ کہتے ضرور ہیں کہ آئندہ  ۶؍ماہ میں وہ یہ خریداری کم یا بند کر دیں گے، لیکن ابھی تک تو دور دور تک یہ آثار نظر نہیں آتے۔  دوسری طرف سوائے اس کے کہ امریکیوں یا نیٹو ممالک کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا،امریکہ اور نیٹو کے سارے منصوبے بری طرح ناکام ہو گئے۔ ہاں اس عمل کے دوران ہزاروں یوکرینی ضرور لقمہ ٔ اجل ہو گئے۔ عورتوں اور بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد نے ناقابل بیان بلکہ ناقابل تصور اذیتیں برداشت کیں۔ امریکہ اپنی ناکا می کا اقرار کرے نہ کرے، لیکن اسے اس کا احساس بہر حال ہو رہا ہے۔ ثبوت کے طور پر جو بائیڈن کا ایک حالیہ مضمون پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے کہا ہے کہ امریکہ یوکرین کو اسلحہ اس لئے فراہم کر رہا ہے تاکہ جب بات چیت ہو تو یوکرین زیادہ مضبوطی سے بات کرنے کی پوزیشن میں رہے۔ یہ بات چیت کا ذکر کہاں سے آگیا؟ ابھی تک  تو ان کا موقف یہ تھا کہ یوکرینی  فوج کو اسلحے اس لئے دیئے جا رہے ہیں کہ وہ اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں، بلکہ انہیں یوکرین سے باہر نکال کر دم لیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کو احساس ہو گیا ہے کہ روس کو ہرایا نہیں جا سکتا، اس سے بات ہی کرنا ہوگی؟تو کیا یہ اعتراف شکست نہیں ہے؟کیونکہ جو بائیڈن نے اسی مضمون میں یہ بھی کہا ہے کہ امریکہ یوکرین کی مدد تو جاری رکھے گا، لیکن روس سے اس وقت تک راست تصادم نہیں کرے گا، جب تک روس امریکی فوجوں کے خلاف کوئی  کارروائی نہیں کرتا۔ کیا یہ ایک لطیفہ نہیں ہے؟ امریکی فوجی ہیں ہی کہاں کہ روسی فوج ان کے خلاف کوئی کارروائی کرے۔ ہاں اس سے یہ ضرور اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ بھاگ نکلنے کی راہیں تلاش کر رہا ہے۔  حالات کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ادھر کچھ دنوں سے دیکھا جا رہا  ہے کہ جو بائیڈن ایک دن تو روس اور چین کے خلاف کوئی بلند بانگ  دعویٰ کرتے ہیں ، لیکن دوسرے ہی دن یا تو خود اپنا دعویٰ واپس  لیتے ہیں یا پھر اپنے خارجہ سیکریٹری ٹونی بلنکن سے اپنے بیان کی تردید کروا دیتے ہیں۔    روسی فوجوں نے یوکرین  میں جو کچھ کیا یا جو کچھ اب کر رہی ہیں، وہ کسی طور پر مستحسن عمل نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن کیا اس سب سے بچا نہیں جا سکتاتھا؟ہمارا یہ خیال  اب اور پختہ ہوچکا ہے کہ یقیناً َاس المیہ سے بچا  جاسکتا تھا اور اگر ایسا نہیں ہوا تو اس کی ذمہ داری روس پر تو ہے ہی، لیکن اس سے کئی گنا زیادہ یوکرین کے صد ر زیکنسکی پرہے۔ انہوں نے دو سنگین غلطیاں کیں۔ اول تو جب انہیں معلوم تھا کہ روس کسی قیمت پر یہ گورا نہیں کرے گا کہ یوکرین نیٹو کا ممبر بن جائے اور نیٹو کی فوج کے لئے اس کی عین سرحد پر مستقر بنالیں۔ یہ کوئی ایسا مطالبہ نہیں تھا جس کے لئے یوکرین کی آزادی اور کروڑوں  عوام کی جانیں دائو پر لگا دی جاتیں۔ اسے نیٹو کی ممبر شپ کا ارادہ کچھ عرصہ کے لئے ٹال کر اور اس عرصہ میں دنیا کے کئی ممالک اور اقوام متحدہ کی ثالثی کے ذریعہ کسی منطقی نتیجے پر پہنچا جا سکتا تھا۔ زیلنسکی نے دوسری غلطی یہ کی کہ یہ جانتے ہوئے کہ یوکرین امریکہ کے دبائو میں آکر اپنے جو ہری اثاثے بین الاقوامی ایٹمک انرجی کمیشن کے حوالے کر چکا ہے، انہوں نے روس سے فوجی تصادم کا خطرہ مول لے لیا۔ یعنی وہ روس کو جس کے استعمال کا خوف دلا کر اسے جارحیت سے باز رکھ سکتے تھے وہ اب اس سے محروم ہو چکے تھے۔ انہوں نے ایک غکطی اور کی۔ زیلنسکی ایک مزاحیہ اداکار ضرور ہیں اور سنا ہے بہت اچھے اور مقبول اداکار ہیں، لیکن شاید انہیں دنیا  خصوصاً آج کی دنیا کی تاریخ کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم۔ انہوں نے سوچا تھا کہ چونکہ امریکہ اسرائیل کی ہر طرح کی اور ہمہ وقت مدد کرتا ہے، اس لئے ان کی بھی مدد کرے گا، کیونکہ وہ یہودی ہیں۔ لیکن اگر انہیں امریکہ کی تاریخ کے بارے میں تھوڑا سا بھی علم ہوتا وہ یہ ضرور جانتے کہ دوستوں کو عین وقت پر دغا دینا امریکہ کا خاصہ ہے۔ اور کچھ نہیں تو انہیں چاہئے تھا کہ اشرف غنی کا حشر ہی دیکھ لیتے۔ زیلنسکی ایک اور بات بھول گئے اور وہ یہ کہ  یقیناً جنگوں میں ہتھیاروں کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ جدید ترین ہتھیار دشمن کے بھاری نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں، لیکن جنگیں صرف ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتیں جنگوں کیلئے لڑنے والوں میں ایک جنون اور جذبہ کی ضرورت ہوتی ہے، لڑنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ اس عظیم مقصدکیلئے جان کی بازی لگا رہے ہیں۔ جیسا کہ افغانوں کو معلوم تھا ، ویت نامیوں کو معلوم تھا اور فلسطینیوںکو معلوم ہے۔ یوکرینیوں کو یہ نہیں معلوم کہ وہ کس کیلئے لڑ رہے ہیں او رکیوں لڑ رہے ہیں۔ اگر ان سے کہا جائے کہ وہ روسی تسلط کے خلاف لڑ رہے ہیں تو ان کی ایک بڑی تعداد پوچھتی ہے کہ اس روسی تسلطکیلئے راہ کس نے ہموار کی؟ یوکرین اس دور کا وہ المیہ ہے جسے آبیل مجھے مار کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK