Inquilab Logo

غیر ملکی سرمایہ کار ہندوستان سے کیوں کتراتا ہے؟

Updated: May 27, 2020, 4:20 AM IST | Hasan Kamal

راجدھانی میں شعلے بھڑک رہے تھے۔ کاروں کے شوروم جلائے جا رہے تھے۔ یہ سب ان لوگوں نے نہ جانا ہوگا جو ہندوستان میں سرمایہ کاری کے خواہاں تھے؟

Delhi Riots - Pic : PTI
دہلی فساد ۔ تصویر : پی ٹی آئی

 ان دنوںسیاسی حلقوںاور میڈیا میں  زور زورسے بحث چل رہی ہے کہ کورونا وائرس کی افتاد کے بعد بہت سی تجارتی کمپنیاں چین سے اپنا کاروبار سمیٹ کر دوسرے ممالک منتقل کر رہی ہیں۔یہ ایک سنہرا موقع ہے کہ ہندوستان ان کمپنیوں کیلئے دروازہ کھول دے۔کہا جا رہا ہے کہ اگر یہ غیر ملکی سرمایہ (ایف ڈی آئی ) ہندوستان آجائے تو ہماری دم توڑتی معیشت میں جان پڑ جائے گی اور وزیر اعظم مودی کے ’میک ان انڈیا‘ خواب کی تکمیل بھی ہو جائے گی۔ساتھ ہی یہ بحث بھی جاری ہے کہ آخر یہ غیر ملکی سرمایہ کار ہندوستان آنے سے کیوں کتراتے ہیں۔اس کیلئے طرح طرح کی تاویلیں پیش کی جاتی ہیں۔ آر ایس ایس کے ایک نظریہ سازشیشادری چاری کا خیال ہے کہ ہندوستان مین لال فیتہ شاہی اور کرپشن اس کی خاص وجوہات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں ایک فائل کو ایک افسر کی میزسے دوسرے افسر کی میز تک پہنچنے میں بہت وقت لگ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ایک تلخ تجربہ یہ بھی ہوتا ہے کہ فائل کو ایک میز سے دوسری میز تک لے جانے کیلئے اس میں رشوت کا پہیہ لگانا پڑتا ہے۔ یہ سب دیکھ کران کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں۔
  یقیناً یہ وجوہات موجود ہیں۔ لیکن چند اور باتیں بھی جاننا ضروری ہے۔مثال کے طور پر یہ مفروضہ ہی سرے سے غلط ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار کورونا کی وجہ سے چین سے منتقل ہو رہے ہیں۔یا یہ کہ دنیا میں آج چین کے خلاف اس لئے سخت خفگی پھیلی ہوئی ہے کہ چین نے کورونا کا راز دنیا سے چھپائے رکھا ۔امریکہ ضرور یہی تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن چین سے خفگی کی بات دو اسباب کی بنا پر درست  نہیں لگتی۔ پہلی یہ کہ اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک میں چینی سرمایہ کاری نے اتنا سخت شکنجہ کس رکھا ہے کہ یہ ممالک چین سے خفگی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔دوسرے کورونا کا مقابلہ کرنے کیلئے درکار طبی سازو سامان بنانےمیں بھی چین سب سے آگے ہے اور دنیا کو اس سازو سامان کی اشد ضرورت ہے۔چین سے چند کمپنیوں کی منتقلی کورونا کی وبا پھوٹنے سے بہت پہلے شروع ہو چکی تھی۔ وجہ یہ ہے کہ ویت نام، فلپائن،تھائی لینڈ اور بنگلہ دیش جیسے چھوٹے چھوٹے ممالک ان کمپنیوں کو وہ سب انفرا اسٹرکچر بہتر داموں دینے کے قابل ہو گئے تھے ، جو انہیں چین  میںحاصل تھا۔چین خود بھی اپنی کچھ کمپنیوں کو کئی  وجوہات کی بناء پر دوسرےمما لک میں منتقل کر رہا تھا۔چنانچہ اس نے تین سال پہلے ایپل کو فلپائن  منتقل کر دیا تھا۔ 
 حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں آج بھی وہ انفرا اسٹرکچر تیار نہیں کیا جا سکا جو غیر ملکی سرمایہ کار چاہتے ہیں۔ گزشتہ ۶؍ برسوں میں’ میک ان انڈیا‘ اور’ اسٹارٹ اپ انڈیا‘ جیسے نعرے تو بہت بلند  کئے گئے۔ ان کی تشہیر کیلئے  میڈیا کو ہزاروں کروڑ روپے کے اشتہارات بھی دیئے گئے ، لیکن ان کیلئے درکار  انفرا اسٹرکچر تیار نہیں کیا گیا۔ا ن تمام باتوں سے قطع نظر غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اجتناب کی ایک بڑی وجہ  آر ایس ایس  بھی ہےجو بنیادی طور پر غیر ملکی سرمایہ کاری کے خلاف ہے۔اس کے نزدیک غیر ملکی سرمایہ کاروں کیلئے دروازہ کھولنے کا مطلب ایسٹ انڈیا کمپنی جیسے حالات کو دعوت دینا ہے۔مہاراشٹر کے دابھول پروجیکٹ کا انجام سب کو یاد ہے۔اس پروجیکٹ کو بند کرانے میں شیشادری چاری اور گووندا چاریہ جیسے آرایس ایس کے نظریہ ساز سب سے آگے تھے۔یہ بات بھی عام طور پر جانی جاتی ہے کہ حکومتی اورعدالتی شعبوں میں آر ایس ایس کا کتنا اثرہے۔علاوہ ازیں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بشمول سپریم کورٹ ہندوستانی عدالتوں پر بالکل بھروسہ نہیں ہے۔ ووڈافون کیس میں سپریم کورٹ کے رویہ نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سراسیمہ کر دیا ہے۔لیکن ان سب سے ہٹ کر غیر ملکی سرمایہ کاروں کی ہچکچاہٹ کی سب سے بڑی وجہ ہندوستان کا موجودہ سماجی ماحول ہے، جس میں  سماجی کشیدگی کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے۔سرمایہ کار کسی ایسے مقام پر قدم نہیں رکھتے جہاں سماجی کشیدگی کسی بھی وقت تشدد کا روپ دھار سکتی ہو۔انہیں فساد اور ہڑتال کے تصور سے ہی ہول آتا ہے۔ یاد کیجئے، ۱۹۶۰ ءکے عشرے تک کلکتہ ہندوستان کا سب سے بڑا صنعتی مرکز ہوا کرتا تھالیکن جب مغربی بنگال میں نکسلی تحریک پھیلی اور ہڑتال روز مرہ کا معمول بن گئی، تو  صنعتکاروں نے وہاںسے بوریا بستر سمیٹ کر دوسرے صوبوں میں ڈیرے جمالئے۔چنانچہ جب ہندوستانی سرمایہ کار سماجی تنائو سے اس درجہ خوفزدہ ہوں تو غیر ملکی سرمایہ کار تو دور سے ہی کان کو ہاتھ لگائے گا۔
 ذرا سوچئے جب   سپر پاور امریکہ کے صدر ٹرمپ کو ہندوستان میں مودی جی کی نمستے کر رہے تھے،ساری دنیا کا میڈیا ایک ایک پل کی خبر دے رہا تھا۔ ہر ملک کا سفارت خانہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ ٹرمپ مودی کے نمستےکا کیا جواب دیتے ہیں۔عین اسی وقت بی جے پی کا ایک سڑک چھاپ نیتا اعلیٰ پولیس افسروں کے گھیرے میں کھڑا کہہ رہا تھا کہ بس ٹرمپ کو چلا جانے دو، پھر دیکھنا کیا ہوتا ہے۔عین اسی وقت ہندوستانی پارلیمنٹ کا ایک ممبر پرویش سنگھ ورما لوگوں سے کہہ رہا تھا کہ ’’اے ہندوئوں شاہین باغ کی بھیڑ تمہارے گھروں میں گھسے گی  اورتمہاری بہو بیٹیوں کی عصمت دری کرے گی۔‘‘ عین اسی وقت مرکزی وزیر مملکت برائے مالیاتی امورانوراگ ٹھاکر’’دیش کے  غداروں کو، گولی مارو سالوں کو ‘‘ کے نعرے لگوا رہا تھا۔عین اسی وقت راجدھانی  میں شعلے بھڑک رہے تھے۔ کاروں کے شوروم جلائے جا رہے تھے۔ کاریں اور موٹر سائیکلیں پھونکی جا رہی تھی ۔لاشیں بچھائی جا رہی تھیں۔امریکہ اور برطانیہ کے اخباروں میں یہ سب جلی سرخیوں کے ساتھ شائع ہو رہا تھا۔ کیایہ سب ان لوگوں نے نہ جانا  ہوگا جو ہندوستان میں سرمایہ کاری کے خواہاں تھے؟ کیا  وہ اب بھی یہاں سرمایہ کاری کے خواہاں ہوں گے؟
 جاپان کے وزیر اعظم  ایک تقریب میں شرکت کیلئے آسام آنے والے تھے۔ جیسے ہی وہاں سی اے اے کیخلاف مظاہرے شروع ہوئے انہوں نے اپنا دورہ منسوخ کر دیا جو آج تک منسوخ ہے۔ کیاجاپانی سرمایہ کاروں کو اس کی خبر نہیں ہوگی؟بر سبیل تذکرہ کئی جاپانی کمپنیاں چین سے منتقل ہوئی ہیں۔سب کی سب ویت نام اور تھائی لینڈ منتقل ہوئیں۔ ایک نے بھی ہندوستان کا رخ نہیں کیا۔ چنانچہ اگر لیبر قوانین میں ترمیمات کر بھی لی جائیں،لال فیتہ شاہی ختم بھی ہو جائے اور انفرا اسٹرکچر تیار بھی ہو جائے، لیکن سماجی تنائو برقرار رہے تو ایف ڈی آئی بہ دستور ہندوستان سے کتراتا رہے گا۔ اس کا اشارہ رگھورام راجن ، امرتیہ سین اور ابھیجیت بنرجی جیسے ماہرین بھی کر چکے ہیں۔اگر ایف ڈی آئی لانا منظورہے تو ان عناصر کی سرکوبی ضروری ہے جو ملک میں سماجی تنائو پیدا کر رہے ہیں۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK