Inquilab Logo

تعلیم انتخابی نعرہ کیوں نہیں بنتی؟

Updated: February 09, 2020, 11:31 AM IST | Editorial

ابھی کل ہی دہلی اسمبلی کیلئے پولنگ ہوئی ہے۔ اس الیکشن کیلئے چلائی جانے والی مہم میں سیاسی اخلاقیات، انتخابی ترجیحات اور تہذیبی روایات کو جتنا رُسوا کیا گیا، اُس سے ہم اپنی حقیقت کو خود سمجھ سکتے ہیں کہ ہم کہاں ہیں اور ہمارا، خود کو مہذب کہلوانا کتنا درست ہے۔

تعلیم انتخابی نعرہ کیوں نہیں بنتی ۔ تصویر : آئی این این
تعلیم انتخابی نعرہ کیوں نہیں بنتی ۔ تصویر : آئی این این

 ابھی کل ہی دہلی اسمبلی کیلئے پولنگ ہوئی ہے۔ اس الیکشن کیلئے چلائی جانے والی مہم  میں سیاسی اخلاقیات، انتخابی ترجیحات  اور تہذیبی روایات کو جتنا رُسوا کیا گیا، اُس سے ہم اپنی حقیقت کو خود سمجھ سکتے ہیں کہ ہم کہاں ہیں اور ہمارا، خود کو مہذب کہلوانا کتنا درست ہے۔ ایسے دَور میں جب ملک کی آبادی کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے، تعلیم، روزگار اور تجارت کو اہم ترین انتخابی موضوع ہونا چاہئے تھا مگر ’شاہین باغ‘ موضوع بنادیا گیا۔ یہی ہوتا آیا ہے۔ پچھلی چار پانچ دہائیوں میں ہمیں نہیں یاد پڑتا کہ کبھی ایسا ہوا ہو جب تعلیم کو انتخابی نعرہ بنایا گیا ہو اور رائے دہندگان نے مختلف پارٹیوں کو  اُن کے تعلیمی موقف کی بنیاد پر ووٹ دیا ہو۔ اس میں اگر سیاسی جماعتوں کا قصور ہے تو رائے دہندگان کا بھی ہے۔ 
 ہمارے ملک میں ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کی جو صورتحال ہے اُس سے ہر خاص و عام واقف  ہے۔ ہر خاص و عام اس حقیقت سے بھی آشنا ہے کہ تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ دور حاضر میں تعلیم کو براہ راست معاشیات سے جوڑ دیا گیا ہے جو غلط ہے کیونکہ تعلیم کو صرف حصولِ روزگار کے نقطۂ نظر سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ تعلیم انسان کی ذہنی بالیدگی اور شخصیت سازی کی شرط اول ہے، اس کے باوجود اگر فرض کرلیا جائے کہ تعلیم معاشی ترقی ہی کیلئے حاصل کی جاتی ہے تب بھی یہ بات آپ کے مشاہدہ میں ہے کہ ایک طرف حکومت ۵؍ کھرب ڈالر کی معیشت کا منصوبہ بنارہی ہے اور دوسری طرف تعلیم کی حالت دگرگوں ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص ممبئی میں امبانی کی رہائش گاہ ’’انٹیلیا‘‘ جیسا مکان حاصل کرنا چاہے مگر اُس کے پاس روزگار کا کوئی ذریعہ نہ ہو۔ 
 ہمہ جہتی ترقیات کیلئے سب سے پہلے انسانی ترقیات کو یقینی بنانا پڑیگا۔ یہ نہیں ہوا تو ترقی کا کوئی محل مضبوط بنیادوں پر تعمیر نہیں ہوسکے گا۔ اس کی چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ہم نے اعلیٰ اور پیشہ جاتی تعلیم کے مراکز تو قائم کئے مگر وہاں سے جو لوگ سند لے کر عملی زندگی میں قدم رکھ رہے ہیں، اُنہیں مشکل سے ملازمت ملتی ہے، مل جائے تب بھی متعلقہ کمپنی یہ شکایت کرتی ہے کہ اُن میں اُس علم اور آگاہی کی کمی ہے جو اعلیٰ تعلیم سے حاصل ہوجانی چاہئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اعلیٰ اور پیشہ جاتی تعلیمی مراکز کے نام پر عمارتیں تو کھڑی کردیں، اُن پر ہونے والی سرمایہ کاری کو فیس اور ڈونیشن کے نام پر وصول کرکے اپنے خزانے بھی بھر لئے مگر اداروں کو تعلیم و دانش گاہ بنانے میں ناکام رہے۔ اسی لئے تو ہماری کوئی یونیورسٹی دُنیا کی ٹاپ ففٹی میں شمار نہیں کی جاتی!
 عظیم پریم جی جب یہ کہتے ہیں کہ ’’ہماری کامیابی بلکہ غیر معمولی کامیابی کا راز ہمارے لوگ، ہمارا عملہ ہے‘‘ تو وہ اپنے کارکنان کی ستائش نہیں کرتے بلکہ ’’ہیومن کوالیٹی‘‘ اور ’’ہیومن اسیٹ‘‘ یعنی انسانی خوبیوں اور انسانی اثاثہ کی ستائش کررہے ہوتے ہیں۔ جس طرح تجارتی ادارے اپنے اہل اور قابل کارپردازوں کی کارکردگی سے آگے بڑھتے ہیں بالکل اُسی طرح کوئی ملک اپنے عوام کے تعلیمی و انسانی معیار کے بل بوتے پر ترقی کرتا ہے خواہ ترقی سے صرف معاشی ترقی مراد لی جائے۔ ڈاکٹر عبدالکلام نے کہا تھا ’’ملک اپنے عوام سے بنتا ہے اور عوام ہی کی کاوشوں سے اُس معیار ، بلندی اور کامیابی تک پہنچتا ہے جہاں وہ پہنچنا چاہتا ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ جس بلندی کی تمنا کی جائیگی اُس تک پہنچنے کے وسائل بھی پیدا کرنے ہوں گے اور اگر ہماری سیاسی جماعتیں ہر الیکشن میں ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے کا کھیل کھیلتی رہیں گی اور رائے دہندگان اُن سے سوال نہیں کریں گے تو اُن کے لیڈران کبھی اُن وسائل کی فکر نہیں کریں گے جن کے ذریعہ انسانی ترقی اور پھر قومی ترقی ممکن ہوسکتی ہے۔ عوام پوچھتے نہیں ہیں اس لئے اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کیلئے پریشان رہتے  ہیںاور پھر اُنہیں ملازمت تک نہیں ملتی۔یہ کب تک چلتا رہے گا؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK