Inquilab Logo

یورپ کو ترکی پر غصہ کیوں آتا ہے؟

Updated: August 11, 2020, 10:17 AM IST | Hasan Kamal

جمعہ ۲۴ ؍جولائی ۲۰۲۰ ءکا دن ترک مسلمانوں کیلئےایک تاریخ ساز دن تھا۔ اس دن استبول کی مسجد آیا صوفیہ میں ۸۶ ؍سال کے طویل وقفہ کے بعد پہلی بار نماز جمعہ ادا کی گئی تھی ۔ بعض مبصرین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے بھی ایک تاریخی دن تھا۔

Hagia Sofia Mosque - Pic : INN
آیا صوفیا مسجد ۔ تصویر : آئی این این

 جمعہ ۲۴ ؍جولائی ۲۰۲۰ کا دن ترک مسلمانوں کیلئےایک تاریخ ساز دن تھا۔ اس دن استبول کی مسجد آیا صوفیہ میں ۸۶ ؍سال کے طویل وقفہ کے بعد پہلی بار نماز جمعہ ادا کی گئی تھی۔ بعض مبصرین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے بھی ایک تاریخی دن تھا۔ بقول ان کے یہ اور بات ہے کہ بہت سے ممالک میں مسلمان از روئے مصلحت اس کا سر عام اقرار نہ کر سکے ہوں۔ کچھ بھی ہو ، لیکن یہ تو طے ہے کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمان انٹر نیٹ آشنا ہیں، انہوں نے ترکی کے حافظ قرآن صدررجب طیب اردگان کو نہایت خوش الحانی سے سورۃ بقر کی آیات تلاوت کرتے سناہی ہوگا۔ ۸۶؍ سال بعد کے اس تاریخی اجتماع میں لاکھوں ترک مسلمانوں کے علاوہ ترک اپوزیشن لیڈر اور سلطنت عثمانیہ کے آخری خلیفہ عبدالحمید ثانی کی پر پوتی بھی موجود تھیں۔ ان تمام واقعات کی کچھ نے تعریف کی تو کچھ نے تنقید بھی۔ مسجدآیا صوفیہ کا ایک نہایت دلچسپ تاریخی پس منظر ہے۔ یہ مسجد جیسا کہ سب جانتے ہیںاستنبول شہر میں واقع ہے۔ پہلے اس شہر کا نام Constantinopleتھا۔ ترک اسے قسطنطنیہ کہتے تھے۔ یہ وسیع و عریض شہر اپنے مضافات کے ساتھ سلطنت روم کا حصہ تھا۔ مسلمان یورپ میں اسپین اور ایشیا میں چین کے سنکیانگ اور ہندوستان تک پہنچ  چکے تھے ، لیکن قسطنطنیہ ان کی دسترس سے باہر رہا۔ یہ شہر یونان کے فرمانروا کی حکمرانی میں تھا۔ یونان میں عیسائیوں کے ایک فرقہ نے، جسے’ گریک آرتھو ڈاکس‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، ایک عالیشان عبادت خانہ بنا رکھا تھا۔لیکن ان کے کیتھولک عیسائیوں کے مابین بہت شدید مسلکی اختلافات تھے۔ دونوںفرقوں میں ہمیشہ جنگی کیفیت رہتی تھی۔کوئی پچاس سال تک اس شہر پر ان ہی کی حکمرانی رہی۔اس عرصہ میں کیتھولک عیسائیوں نے اس عبادت گاہ کی شکل ہی بگاڑ کر رکھ دی۔ 
 بہر حال جب چودھویں صدی میں کائی قبیلہ کے ترک سردار محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کر لیا تو انہیں یہ عبادت گاہ بہت پسند آئی۔ چونکہ کیتھولک عیسائی شکست کھا چکے تھے اور گریک آرتھو ڈاکس بھی شہر چھوڑ چکے تھے۔ اس لئے مبینہ طور پر شاہ محمد فاتح نے یہ عبادت گاہ اس کے مالکان سے خرید لی۔ چونکہ اس زمانہ میں ایسی خریدو فروخت کے دستاویز بنانے کا کوئی سسٹم نہیں تھا، اس لئے اس خرید وفروخت کی تصدیق تو نہیں کی جا سکتی، لیکن اس کی صداقت کو اس بناء پر ضرور مانا جا سکتا ہے کہ عیسائیوں میں عبادت گاہوں کو جائیداد کی طرح فروخت کرنے کا رواج اب بھی موجود ہے۔چنانچہ یورپ اور امریکہ میں ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں کہ مذہب بیزاری کی وجہ سے عابدوں نے چرچ جانا اور زاہدوں میں رہنا چھوڑ دیا تو چرچ ویران ہو گئے اور انہیں بیچ دیا گیا۔ ایسے چرچوں کو ۹۹ ؍فیصد یورپ اور امریکہ میں بسے ہوئے مسلمانوںنے ہی خریدا اور انہیں مسجدوں میں تبدیل کر دیا۔ نہ اس پر کوئی اعتراض کیا گیا، نہ اس پر کبھی کوئی برہمی دیکھی گئی۔ بہر حال محمد فاتح نے یہاں ایک عالیشا ن مسجد تعمیر کی، جسے آیا صوفیہ کا نام دیا گیا۔ محمد فاتح کی تعمیر کردہ اس مسجد آیا صوفیہ میں ۱۹۳۴ء تک باقاعدہ پنجگانہ نماز ادا کی جاتی رہی۔
 بیسویں صدی تک آتے آتے خلافت اور سلطنت عثمانیہ کا زوال شروع ہو چکا تھا۔ زوال کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ خلافت بادشاہت یہاں بدل چکی تھی ۔ خلیفہ کا نام رہ گیا تھا، حقیقت میں وہ بے تاج بادشاہ تھا۔ انتظام کار سے غفلت، دولت کی ریل پیل، بیگمات ، کنیزوں اور باندیوں کے بڑے بڑے حرم، رقص و سرور اور عیش و عشرت نے اجداد کی عظمت کو خاک میں ملا کر رکھ دیا۔ ۱۹۲۱ ء کی پہلی جنگ عظیم میں ترک خلیفہ نے جرمنی کا ساتھ دیا۔ جنگ میں جرمنی اور ترکی کو شکست فاش ہوئی اور ترکی کا رہا سہا دبدبہ بھی ختم ہوگیا۔شکست خوردہ فوج میں پھوٹ پڑ گئی۔ ترکی میں آئے دن بغاوتیں ہونے لگیں۔ خلیفہ محمد ثانی کیلئے نظام حکومت سنبھالنادشوار ہو گیا۔ یورپی طاقتوں نے آگ میں تیل ڈالنے کے لئے ترکی کو جمہوریہ میں بدلنے کی آوازوں کو حمایت کی۔ بالا ٓخر خلیفہ کو جھکنا پڑا۔ انہیں ۱۹۲۳ ءمیں یورپی اتحادیوں سے، جن میں برطانیہ، فرانس اور کچھ اور ممالک شامل تھے، ایک معاہدہ پر دستخط کرنا پڑا۔معاہدہ انتہائی شرم ناک اور ہتک آمیز تھا۔خلیفہ کے تمام اختیارات سلب کر لئے گئے۔خلیفہ کی ترکی میں وہی حیثیت رہ گئی جو ۱۸۵۷ ء میںآخری تاجدار مغلیہ بہادر شاہ ظفر کی ہندوستان میں رہ گئی تھی۔  اسلام کی عوامی تبلیغ پر پابندی لگا دی گئی۔ اذان عربی کے بجائے ترکی زبان میں دینے کے احکامات صادر کر دیئے گئے۔ ترکی زبان کے رسم الخط کو عربی کے بجائے رومن میں کرنے کے عمل کو آغاز ہو گیا۔ معاہدہ کی ایک انتہائی توہین آمیز شق یہ تھی کہ ترکی کوآئندہ سو سال تک ترکی کی بحری سرحدوں سے گزرنے والے اور ترک بندرگاہوں میں لنگر انداز ہونے والے جہازوں سے کسی قسم کا کوئی ٹیکس لینے کا اختیار نہیں ہوگا اور نہ ہی ترکی سو سال تک اپنے سمندر، میدانوں اور پہاڑوں میں تیل یا معدنیات دریافت کرنے کے لئے کوئی کھدائی کر سکے گا۔ دوسرے لفظوں میں ترکوںکو آئندہ سو سال تک روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرنا پڑے گا۔ اسی دوران ترکی کے سیاسی افق پر ایک نیا ستارہ نمودار ہوا۔ ترک فوج کے ایک سپاہی نے اپنی دلیری اور جانبازی سے فوجیوں کے دل جیتنے شروع کر دیئے۔ اس سپاہی کا نام مصطفیٰ کمال تھا۔ اس نے پست حوصلہ اور بکھری ہوئی ترک فوج کا شیرازہ دوبارہ اکٹھا کرنے کی کوشش کی اور کافی جد و جہد کے بعد اسے کامیابی حاصل ہوئی۔ اس نے فوج کو دوبارہ منظم کیا۔اس کی مقبولیت اتنی بڑھی کہ اسے اتاترک یعنی کہ معمار قوم کا لقب مل گیا۔ اس کی طاقت بہت تھوڑے عرصہ میں اتنی بڑھ گئی کہ خلیفہ کی رہی سہی اہمیت بھی ختم ہو گئی۔ امور حکومت اب مصطفیٰ کمال اتاتر ک کے ہاتھوں میں آچکے تھے۔ کمال اتاترک بے پناہ خوبیوں کے مالک ٹھہرے، لیکن ان کی دو بڑی کمزوریاں تھیں۔ ایک یہ کہ چونکہ قسطنطنیہ مشرقی یورپ کا حصہ رہ چکا تھا، اس لئے وہ چاہتے تھے کہ تمام ترکی کو ایشیائی ملک کے بجائے یورپی ملک مان لیا جائے۔ ان کی دوسری کمزوری یہ تھی کہ وہ ترکی کو کسی یورپی ملک کی طرح ماڈرن اورجدید بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے یورپ اور کیتھولک عیسائیوں کو خوش کرنے کے لئے ان کا یہ مطالبہ مان لیا کہ مسجد آیا صوفیہ کو ایک عجائب گھر یا میوزیم بنا دیا جائے۔ ۱۹۳۴ ءمیں ایک قانون پاس کرکے مصطفیٰ کمال اتاترک نے ایسا کر کے بھی دکھا دیا۔ہمارا خیال تھا کہ بات ایک ہی مضمون میں پوری ہو جائے گی، لیکن خبر نہ تھی کہ بات نکلی تو بہت دور تلک جائے گی۔ اس لئے پوری بات سننے کیلئے آپ کو ایک ہفتہ مزید انتظار کرنا پڑے گا

europe turkey Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK