Inquilab Logo

جدید ہند کے معمار نہرو کو آخر ناپسند کیوں کیا جاتا ہے؟

Updated: January 17, 2021, 1:38 PM IST | Aakar Patel

ہندوتوا وادیوں نے اولین وزیر اعظم نہرو کو ہمیشہ ہدف تنقید بنایا،ناپسند کیا۔ گزشتہ برسوں میں اس رجحان میں شدت آئی۔ مضمون نگار نے اس کی وجوہ بیان کی ہیں۔

Jawaharlal Nehru - Pic : INN
جواہر لال نہرو ۔ تصویر : آئی این این

حال ہی میں میری ایک کتاب منظر عام پر آئی ہے۔ اس موقع پر ایک انٹرویو کے دوران مجھ سے پوچھا گیا کہ ہندوتوا کے لوگ نہرو سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے جس کے جواب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ نہرو کیا تھے اور کیا چاہتے تھے۔ آئیے اس کا اعادہ کرتے چلیں:
 آزادی سے پہلے، نہرو نے اپنی متعدد تحریروں کے ذریعہ خود کواُس ہندوستان سے وابستہ کیا جو ایک تہذیبی و ثقافتی اکائی تھا۔ اس نقطۂ نظر کی تائید آر ایس ایس نے بھی کی۔ انہوں نے جدید ہندوستان کی جڑیں وادیٔ سندھ کی تہذیب میں تلاش کیں (یہ کام ’عالمی تاریخ کی جھلکیاں‘ کے تصنیف کئے جانے کے چند سال پہلے اور ڈسکوری آف انڈیا کے تحریر کئے جانے سے پندرہ سال قبل ہوا تھا) او راس تہذیب کو پہلے اور دوسرے ہزارہ (عیسوی کیلنڈر کے مطابق) کے حوالے سے دیکھنے کی کوشش کی۔ مگر اس اعتراف کے باوجود کہ ہندوستان ایک قدیم ملک ہے، نہرو نے خود کو جدید دُنیا سے اور اُس دور سے جس میں وہ تھے، شعوری طور پر وابستہ کرنا چاہا تاکہ ملک کو راہِ جدید پر گامزن کیا جاسکے۔ اس مقصد کے تحت اُنہوں نے اقتدار کو بروئے کار لانے کی سعی کی۔ اُن کی حکمت عملی دو اہم مقاصد پر مبنی تھی: بڑی صنعتوں (ہیوی انڈسٹری) کا قیام اور اعلیٰ تعلیم کا دور دورہ۔ اُس زمانے میں ہندوستان کے پاس وسائل محدود تھے اس کے باوجود یہ دو مقاصد نہرو کی اولین ترجیح تھے۔
 معترضینِ نہرو اس بات سے تو بحث کرسکتے ہیں کہ اُن کی حکمت عملی اچھی تھی یا اچھی نہیں تھی۔ معترضین خود کو اس سے الگ تھلگ بھی کرسکتے ہیں مگر یہ کہنا ہر ایک کیلئے مشکل ہوگا کہ اُنہوں نے جو کچھ بھی سوچا تھا وہ رو بہ عمل نہیں لا سکے، یا جو پالیسی بنائی اسے نافذ نہیں کیا۔اس تہذیبی اکائی (وطن عزیز) کو جدیدیت کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے وہ تسلسل کے ساتھ سرگرم عمل رہے۔ اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ نہرو صاحب بصیرت تو تھے ہی، حرکت و عمل پر بھی یقین رکھتے تھے۔ ( ویسے اس نکتے سے بھی بحث کی جاسکتی ہے کہ نہرو کی بصیرت یا اُن کا وِژن بہتر تھا یا نہیں)۔ 
 اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے اُنہوں نے ملک میں ایسے اداروں کے قیام پر خاص توجہ دی، جن میں سے چند کو آج ’نورتن‘ کہا جاتا ہے ۔ جب اُنہوں نے ان اداروں کا بیڑا اُٹھایا اُس وقت کچھ نہیں تھا، نہرو کو صفر سے کام شروع کرنا تھا۔ اُنہی کے جوش و جنوں کا نتیجہ تھا کہ دُنیا نے یہ قابل ذکر ادارے دیکھے: بھارت ہیوی الیکٹریکلس لمیٹیڈ (۱۹۶۴ء)، آئل اینڈ نیچرل گیس کارپوریشن (۱۹۵۶ء)، اسٹیل آتھاریٹی آف انڈیا (۱۹۵۴ء)، ہندوستان ایروناٹیکس لمیٹیڈ (۱۹۶۴ء)، انڈین آئل کارپوریشن (۱۹۵۹ء)، اِسرو (۱۹۶۲) جو پہلے INCOSPAR کہلاتا تھا۔ ڈپارٹمنٹ آف ایٹامک انرجی (۱۹۵۴ء) اور بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر (۱۹۵۴ء) بھی ان میں شامل ہیں۔ اہم اور مایہ نازاداروں کا تذکرہ ادھورا رہے گا اگر مزید چند اداروں کا نام نہ لیا جائے مثلاً انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (۵۱ء)، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ (۶۱ء)، دی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزائن (۶۱ء) اور ساہتیہ اکادیمی (۵۴ء)۔
 یاد رہے کہ قائم شدہ اداروں کی فہرست یہاں بھی مکمل نہیں ہوتی بلکہ لکھنے جائیں تو مزید کئی اداروں کے نام ازحد ضروری قرار پائیں گے مگر فہرست سازی سے گریز کرتے ہوئے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ ادارے کیوں قائم کئے گئے؟ جواب یہ ہے کہ نہرو ان کے ذریعہ ملک کو جدیدیت کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے تھے۔ اُنہوں نے اقتدار سنبھالا تو جو معیشت اُن کے سامنے تھی وہ ماقبل جدیدیت (پری ماڈرن اکنامی) تھی جس میں پیداوار کا بڑا ذریعہ زراعت تھی، وہ زراعت جس کا طریقۂ کار ایک ہزار سال میں بھی کافی حد تک جوں کا توں رہا، اس میں بدلتے عہد کے ساتھ جو تبدیلیاں ناگزیر تھیں وہ نہیں آئیں۔ نہرو کو ایک کھرب ڈالر کی اکنامی نہیں ملی تھی مگر وہ اس بات کیلئے کوشاں رہے کہ ملک ایک کھرب ڈالر کی اکنامی تک پہنچ جائے۔
 اب آئیے اس سوال کی طرف کہ ہندوتوا وادی نہرو کو کیوں ناپسند کرتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ ہندوتوا کے علمبرداروں میں،  بشمول ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی، کسی کے پاس نہرو جیسی بصیرت یا وژن کا نہ ہونا ہے۔ مودی ہم سے یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اُن کا خواب ملک کو ۵؍ کھرب ڈالر کی معیشت میں تبدیل کرنے کا ہے مگر یہ نہیں بتا سکتے کہ وہاں تک کس طرح پہنچا جائیگا۔ وہ جانتے ہی نہیں ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہاں تک پہنچنے کیلئے ہمیں کون سے مختلف اور مثالی اقدام کرنے ہوں گے۔ آدمی ادارے اُسی وقت قائم کرسکتا ہے جب وہ جانتا ہو کہ ان کے ذریعہ کس مقصد کو  پورا کرنا ہے۔ نریندر مودی نے ویسے ادارے قائم نہیں کئے جو نہرو یکے بعد دیگرے قائم کرتے چلے گئے تھے کیونکہ مودی خود کو اُس مقام پر بھی نہیں لاسکے جہاں سے اداروں کے بامقصد قیام کا سفر شروع ہوتا ہے۔
 نہرو نے کہا تھا: بڑی صنعتیں اور اعلیٰ تعلیم۔ مودی کیا کہتے ہیں؟ اگر اس کا جواب آپ سے نہ بن پڑے تو سمجھ لیجئے کہ اس کا جواب ہی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہندوتوا وادیوں میں حسد پیدا ہوتا ہے اور وہ نہرو کو ناپسند کرتے ہیں۔ یہ پہلی وجہ ہے۔
 دوسری وجہ یہ ہے کہ نہرو جعلی وطن پرست نہیں تھے۔ وہ حقیقی وطن پرست تھے۔ انہوں نے چین پر صرف اُنگلی نہیں اُٹھائی، اسے سبق سکھانا چاہا اور اس کیلئے جنگ کی۔ ٹھیک ہے انہیں شکست ہوئی مگر شکست اس لئے ہوئی کہ انہوں نے جنگ کی، اور جنگ اس لئے کی کہ وہ سرزمین وطن کے چھوٹے سے قطعہ اراضی کے ساتھ بھی سمجھوتہ نہیں کرسکتے تھے۔ یہ ان کی حب الوطنی اور وطن پرستی کا اہم اور ناقابل تردید ثبوت ہے۔
 آج نہرو کا نام بڑے سرسری انداز میں لیا جاتا ہے کیونکہ ہم نے ملک کیلئے اُن کی خدمات کو ٹھیک طریقے سے سمجھا ہے نہ نئی نسل کو سمجھایا ہے۔ اُن کا قد، اُن کے بعد آنے والوں میں کسی کا نہیں ہے۔ اس بات کو معاشی بحران اور قومی سلامتی کے تحفظ میں ناکامی کے موجودہ عہد میں خاص طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اُن کے انتقال کو ۵۵؍ سال ہوگئے مگر ہمارے درمیان میں اُن کا ورثہ آج بھی موجود ہے۔ وہ جدید ہندوستان کے حقیقی اور قابل تقلید معمار تھے جن کی وسیع تر خدمات پر غیر جانبدار حلقوں میں آج بھی گفتگو ہوتی ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف، موجودہ وزیر اعظم سمیت، کتنے وزرائے اعظم کریں گے یہ کہنا مشکل ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK