Inquilab Logo

کیرالا کی کامیابی کو اہمیت کیوں نہیں دی گئی؟

Updated: May 24, 2020, 10:07 AM IST | Aakar Patel

ملک کی کسی ریاست نے کووڈ۔۱۹؍ سے جنگ میں قابل ذکر کامیابی حاصل کی ہے تو وہ کیرالا ہے مگر افسوس کہ اس کی جدوجہد کو لائق اعتناء نہیں سمجھا گیا۔ وزیر اعظم نے ایک بار پھر اس کا تذکرہ نہیں کیا۔

Health Worker - Pic : PTI
ہیلتھ ورکر ۔ تصویر : پی ٹی آئی

حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے قومی سطح پر لاک ڈاؤن نافذ نہ کیا ہوتا تو مزید ۳۷؍ ہزار تا ۷۱؍ ہزار اموات ہوتیں۔ بعض مطالعات کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر لاک ڈاؤن اور اس میں توسیع نہ کی گئی ہوتی تو وطن عزیز میں کورونا کے متاثرین کی تعداد ۱۴؍ لاکھ تا ۲۹؍ لاکھ ہوتی۔حکومت اور پھر نیتی آیوگ کے ایک رُکن نے اپنی انفرادی حیثیت میں اُس سلائیڈ کیلئے معذرت طلب کی ہے  جس میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ ۲۴؍ اپریل تک کورونا کے کیسیز صفر کے قریب ہوجائینگے۔
 اب نیتی آیوگ کے رُکن نے جمعہ کو کہا کہ ’’کسی نے یہ بات نہیں کہی کہ ایک خاص تاریخ تک کیسیز کی تعداد صفر کے قریب آجائیگی۔ شاید کوئی غلط فہمی ہوئی ہے جس کا ازالہ ضروری ہے۔ اس غلط فہمی کیلئے مَیں معذرت خواہ ہوں۔‘‘ 
 حکومت کووڈ۔۱۹؍ سے متعلق جو پریس کانفرنس کرتی ہے اس میں دو باتوں پر خاص توجہ مرکوز کی جارہی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ صحت یاب ہونے والے مریضوں کی تعداد (جو بڑھ رہی ہے) اور دوسری بات یہ کہ اگر وزیر اعظم نے لاک ڈاؤن کا سخت فیصلہ نہ کیا ہوتا تو اِس وقت پورا ملک ایک بڑی مصیبت میں گھرا ہوتا۔‘‘ معلوم ہوا کہ حکومت نئے مریضوں کی تعداد پر توجہ مرکوز نہیں کررہی ہے جبکہ کہا یہ جارہا تھا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے مریضوں کی تعداد کا اضافہ رُک جائیگا یعنی کورونا کے پھیلاؤ پر قابو پالیا جائیگا۔ 
 ریکوری ریٹ (صحت یاب ہونے والوں کا تناسب) کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ متاثر ہوئے، پھر اُن کی جانچ ہوئی، وہ پازیٹیو نکلے اور کچھ وقت بعد جب اُن کی دوبارہ جانچ کی گئی تو ان کی رپورٹ نگیٹیو آئی۔ سنیچر کی صبح کو جب یہ سطریں ضبط تحریر میں لائی جارہی ہیں، ۱ء۲۵؍ لاکھ لوگ ایسے تھے جو کورونا پازیٹیو بتائے گئے جبکہ ریکور (صحت یاب) ہونےو الوں کی تعداد ۵۲؍ ہزار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نصف سے کچھ کم تعداد ایسے مریضوں کی ہے جو شفا یاب ہوئے۔ عالمی سطح پر ۵۳؍ لاکھ لوگ متاثر ہوئے جن میں سے ۲۱؍ لاکھ صحت یاب ہوئے۔ اس مضمون نگار کی رائے یہ ہے کہ صحت یاب ہونے والوں کی تعداد قدرتی طور پر بڑھتی رہے گی تاوقتیکہ ۹۵؍ فیصد نہ ہوجائے۔ ممکن ہے ریکوری ریٹ اس سے بھی زیادہ ہوجائے۔ کیوں؟ اس لئے کہ کووڈ۔۱۹؍ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد فی الحال ۶؍ فیصد ہے۔ ان میں اکثریت اُن لوگوں کی تھی جو ضعیف العمر تھے اور مختلف بیماریوں میں مبتلا تھے۔ یہ اطلاعات امریکہ اور یورپ کی ہیں۔ جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے، اب تک ہلاکتوں کی شرح ۳؍ فیصد ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہوگا کہ اگر حکومت کچھ نہ کرے تب بھی ۹۷؍ فیصد لوگ صحت یاب ہوجائینگے۔ 
 یہ بات یاد رہنی چاہئے کہ کووڈ۔۱۹؍ کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص اس وائرس کی زد میں آجائے تو اُسے، اُس وقت تک انتظار کرنا ہوگا جب تک اس کے جسم میں وائرس کا اثر ختم نہ ہوجائے۔ مگرکوئی شخص ایک بار متاثر ہوکر ٹھیک ہوجائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ دوبارہ متاثر نہیں ہوگا۔ کئی ملکوں میں ’’ری انفیکشن‘‘ کے واقعات بھی بڑے پیمانے پر ہوئے۔ اس کے باوجود اگر حکومت ریکوری ریٹ یعنی صحت یاب مریضوں کی تعداد بتانے پر اصرار کرتی ہے تو اس کا یہ طریقۂ عمل سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ ریکوری، ۱۰۰؍ فیصد ریکوری نہیں ہوتی، بعض مریض دوبارہ بھی متاثر ہوتے ہیں۔حکومت کا یہ طریقۂ عمل شاید عوام کو اعتماد میں لینے کی کوشش ہے۔  
 مسئلہ نئے کیسیز کا ہے او ریہ مسئلہ اِس وقت بھی ہے اور آئندہ دنوں اور ہفتوں میں بھی رہے گا۔ مئی میں نو متاثرین کی یومیہ تعداد ۲؍ ہزار تھی جو گزشتہ ہفتے ۴؍ ہزار تک پہنچ گئی۔ اس وقت ۶؍ ہزار ہے۔ کیرالا کے علاوہ کوئی ریاست ایسی نہیں ہے جہاں نئے کیسیز کی تعداد کم ہوئی ہو۔لاک ڈاؤن کے دوران جانچ کا سلسلہ جاری رہے گا اور ایسا لگتا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں تک کیسیز بڑھنے ہی کی اطلاع ملتی رہے گی (خدانخواستہ)۔
 دیگر ملکوں میں یہی رجحان دیکھنے میں آیا سوائے اُن ملکوں کے جہاں رضاکارانہ طور پر عوام احتیاط کرتے رہے، سماجی فاصلہ کو ملحوظ رکھا، بار بار صابن سے ہاتھ دھونے کی زحمت اُٹھائی، ماسک پہنا وغیرہ۔ جن ملکوں میں متاثرین کی تعدادایک لاکھ سے زیادہ ہے اُن کی تعداد ۱۱؍ ہے۔ ان میں برازیل، ہندوستان اور پیرو میں مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ امریکہ میں یومیہ ۲۰؍ ہزار تا ۳۵؍ ہزار نئے کیسیز سامنے آرہے تھے۔ پچھلے ۵۰؍ دن یہی ہوا۔اس ملک نے اب تک ۱ء۴؍ کروڑ ( ہر ۱۰؍ لاکھ لوگوں میں ۴۲؍ ہزار ) ٹیسٹ کئے ہیں۔ ہندوستان میں ہر ۱۰؍ لاکھ میں صرف ۲؍ ہزار کی جانچ ہوئی ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے ملک میں چونکہ ٹیسٹنگ ہی کم ہورہی ہے اس لئے کوئی نہیں جانتا کہ مزید کتنے لوگ کووڈ۔۱۹؍ سے متاثر ہیں؟ 
  اب چونکہ ہمارے پاس کافی ڈاٹا موجود ہے اس لئے ہم شرح اموات دیکھ کر بھی کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گجرات میں ۱۳؍ ہزار لوگ متاثر ہوئے جبکہ ۸؍ سو کی موت ہوئی۔  یہ شرح اموات ملک کی مجموعی شرح سے دوگنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ریاست میں مزید  ۱۳؍ ہزار ایسے ہوسکتے ہیں جو متاثر ہوں اور جنہیں علم نہ ہو کہ وہ متاثر ہیں۔چنانچہ ایک خدشہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ جنہوں نے دفاتر جانا شروع کردیا ہے اور وہ سارے مزدور جو پیدل چل کر اپنے علاقوں کی طرف لوٹ گئے، ان کی وجہ سے متاثرین کی تعدادبڑھ سکتی ہے۔ اس کی و جہ سے یومیہ اوسط بڑھے گا، نقطۂ عروج تک پہنچے گا اور پھر کم ہونا شروع ہوگا جیسا کہ ہم نے امریکہ، اٹلی اور برطانیہ میں دیکھا۔ دراصل حقیقی پیمانہ یہ دیکھنا ہے کہ کتنے نئے کیسیز آتے ہیں۔ پیمانہ یہ نہیں ہوسکتا کہ کتنے لوگ اچھے ہوگئے اور یہ بھی نہیں کہ کتنے لوگوں کو بچا لیا گیا۔ 
 رہا یہ سوال کہ یومیہ نئے متاثرین کا اوسط کیسے کم ہوسکتا ہے؟ تو اس سوال کا جواب کیرلا سے پوچھنا چاہئے۔ یہ وہ ریاست ہے جہاں مارچ میں (جبکہ کورونا پھیلنا شروع ہوا تھا) سب سے زیادہ کیسیز تھے مگر اب وہاں کے متاثرین کی تعداد صرف ۱۷؍ ہے۔ اس ریاست کی کامیابی کا اعتراف کئی بیرونی ملکوں نے کیا ہے مگر ہمارے وزیر اعظم نے ایک بار بھی اس کامیابی کو لائق اعتناء نہیں سمجھا۔کورونا سے لڑائی میں اس ریاست نے جو کچھ بھی کیا وہ ملک کی تمام ریاستوں کیلئے مشعل راہ ہے۔ ہم میں سے بھی بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ کیرالا نے آخر ایسا کیا کیا ہے جو گجرات، مہاراشٹر اور دہلی جیسی ریاستیں نہیں کرپارہی ہیں۔ اس لاعلمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مرکزی حکومت نے کیرالا کی جدوجہد کو اہمیت نہیں دی اور اسے رول ماڈل تسلیم نہیں کیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK