Inquilab Logo

مودی: عباس اور مسلمانوں پر عنایت کیوں؟

Updated: July 14, 2022, 11:26 AM IST | Khalid Shaikh | Mumbai

عباس اور مسلمانوں پر مودی کی عنایت کی ہمیں ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ چند مہینوں بعد گجرات میں الیکشن ہونے والے ہیں جسے مودی ہرقیمت پر جیتنا چاہیں گے لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں ہوگا۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

 گزشتہ ایک مہینے میں مودی نے دوایسے چونکانے والے بیانات دیئے جن کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ پہلے بیان کا تعلق والدہ کی ۱۰۰؍ سالہ سالگرہ پر جاری کیا جانے والا وہ بلاگ ہے جس میں عباس نامی مسلم لڑکے کے والد کی وفات کے بعد دوستانہ تعلقات کی بنیاد پر اسے کچھ عرصے کے لئے مودی کے والدین نے اپنے بچوں کی طرح پالا۔ یہ واقعہ ۱۹۷۳ء کا ہے، اس وقت تک مودی گھر کو خیر باد کہہ کر آ ر ایس ایس میں شامل ہوچکے تھے اس لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ عباس سے کس حد تک واقف تھےجو ان کے چھوٹے بھائی پنکج کا ہم جماعت تھا۔ دوسرے بیان کا تعلق مودی کی اس ہدایت سے ہےجس کا مقصد ورکروں کے ذریعے پارٹی میں غریب اور پچھڑے مسلمانوں کو شامل کرنا ہے۔ یہ بیانات اس لئے غیر متوقع اور چونکانے والے تھے کہ مودی کی شبیہ ایک کٹر ہندوتوا وادی کی رہی ہے وہ جن نظریات کے پروردہ اور پرچارک ہیں ان میں مسلمانوں کے لئے شاید کوئی جگہ نہیں۔ اس لئے لازمی طورپر سوال پیدا ہوتا ہے کہ مودی کو اچانک عباس اور مسلمانوں کی کیوں سوجھی؟ خاص طو رپر اُس صورت میں جب عباس کا ذکر سب سے پہلے ۲۰۱۴ء میں صحافی اور بی جے پی لیڈر سدیش ورما کی تصنیف میں ملتا ہے جو مودی کی سوانح ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس طرح مودی اپنی کٹر شبیہ بدلنے اور نپور شرما جیسے دیگر دریدہ دہنوں کی زبان بند کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے؟ غالباً نہیں۔ یہ کام مودی کو آٹھ سال پہلے کرلینا چاہئے تھا جب انہوں نے سب کا ساتھ ، سب کا وکاس اوراچھے دن آئیں گے کا جھانسہ دے کر مسلما نوں کے ووٹ بھی حاصل کئے۔ بہرحال عباس اور مسلمانوں پر عنایت کی ہمیں ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ چند مہینوں بعد گجرات میں الیکشن ہونے والے ہیں جسے مودی ہرقیمت پر جیتنا چاہیں گے لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں ہوگا۔ اگر مودی سمجھتے ہیں کہ ذکیہ جعفری کیس میں سپریم کورٹ سے کلین چٹ ملنے کے بعد، گجرات کے مسلم کش فسادات میں ان پر لگے داغ دھل جائیں گے تو انہیں اِس خو ش فہمی میں نہیں رہنا چاہئے۔ ریاست میں نظم ونسق قائم رکھنے کی ذمہ داری ریاستی سربراہ کی ہو تی ہے او رفسادا ت کے دو ران گجرا ت کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے وہ اس ذمہ داری سے دامن نہیں بچا سکتے ورنہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خوفناک فساد، مسلمانوں کا قتل عام اور تشدد کے دیگر واقعات وغیرہ، ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، قومی اور بین ا لاقوامی سطح پر اس کی مذمت غلط تھی، امریکہ اوریورپ کی طرف سے مودی کے دورے پر لگی پابندی بے جا تھی،  پناہ گزیں کیمپوں کے دورے پر واجپئی کی مودی کو راج د ھرم نبھانے کی تلقین فضول تھی،  سپریم کورٹ کی پھٹکار بے معنی تھی، کچھ معاملات کو گجرات کے باہر منتقل کرنے کا فیصلہ اور مودی کو دورِ جدید کا ’نیرو‘ قراردینا، خلافِ واقعہ تھا، جان جوکھم میں ڈال کر سازشیوں کے گڑھ میںجاکر ان کے چہروں کو بے نقا ب کرنے والے ’تہلکہ ‘ میگزین کے صحافیوں کا ’آپریشن کلنک‘ بے معنی تھا اورانصاف پسند اور فرض شناس اعلیٰ پولیس افسروں کی مودی کے خلاف گواہی ، سازش تھی۔ اگر یہ سب جھوٹ تھا توپھر سچ کیا تھا؟ سچ یہ ہے کہ فسادات تین دن نہیں تین مہینہ تک چلے جن میں ۲؍ ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ سفاکی ودرندگی کی وہ تاریخ رقم کی گئی جس کی نظیر نہیں ملتی۔ 
 مسلمانوں سے نفرت کا اظہار اس وقت بھی ہوا جب مودی کے سرمیں وزیراعظم بننے کا سودا سمایا ۔اس حیثیت سے لوگوں میں خود کو قابل قبول بنانے کے لئے انہوںنے گجرات میں سدبھاؤنا یاترا نکالی لیکن ایک ریلی میں ایک مسلمان کے ہاتھوں ٹوپی پہننے سے انکارکردیا۔ اس سے واضح ہوگیا کہ مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد قومی سیاست کیا موڑلے گی۔ گزشتہ ۸؍ برسوں میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ چھوٹے بڑے وقفے کے ساتھ مودی چونکانے والے کام کر جاتے ہیں۔ ستمبر ۲۰۱۷ء میں جب جاپانی وزیراعظم شنزوآبے احمدآباد آئے تو ان کی خواہش پر مودی انہیں فن تعمیر کا بہترین نمونہ سیدی سیدمسجد دکھانے لے گئے۔ ایسا کرنا ان کی مجبوری بھی تھی او رضرورت بھی۔  مجبوری اس لئے کہ وہ مہمان کی فرمائش کو رد نہیں سکتے تھے او رضرورت اس لئے کہ کچھ مہینوں بعد گجرات میں الیکشن ہونے والے تھے۔ وزیراعظم بننے کے لئے مودی نے اڈوانی کے نعرے ، ترقی سب کی ، خوشامدکسی کی نہیں، کو سب کا ساتھ سب کا وکاس میں بدل دیا اوراچھے دن آئیں گے کا تڑکا لگا کر وزیراعظم بن گئے۔ لوگ بھی اب جھوٹ کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ کوئی سچائی کا سامنا کرنے کے لئے تیارنہیں۔ بڑھتی بیروزگاری، مہنگائی ، چرمراتی معیشت ، کمزور ہوتا وفاقی نظام ، چینی دراندازی اورنظم ونسق کی ابتر صورتحال وہ سچائیاں ہیں جو اپوزیشن پارٹیوں اور عوام میں موضوع تو بنتی ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی مہم نہیں چلائی جاتی ہے نہ ہی میڈیا رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مسائل کیبنٹ میٹنگ یا بی جے پی کی قومی مجلس عاملہ میں زیرِ بحث آئے۔ ہمیں تو اس پربھی حیرت ہے کہ نپورشرما کی ہرزہ سرائی کو لے کر بین الاقوامی سطح پر ملک کو شرمندگی اٹھانی پڑی ، نپور کو پارٹی سے معطل کرنا پڑا، کنہیالال کے بے رحمانہ قتل پر ملک میں فرقہ وارانہ تناؤ کا خطرہ بڑھا لیکن مودی اورامیت شاہ کی چُپّی  خاموشی نہیں ٹوٹی۔ بلکہ امیت شاہ نے ذکیہ جعفری کیس میں مودی کو کلین چٹ ملنے کا جشن مناتے ہوئے حیدرآباد کی قومی مجلس عاملہ میں دعویٰ کیا کہ اگلے ۳۰۔ ۴۰؍ سال تک بی جے پی کو کوئی بھی طاقت اقتدار سے نہیں ہٹاسکتی۔ ایک فرق یہ بھی دیکھا گیا کہ مودی ۔ شاہ نے نپورکے معاملے میں زبان نہیں کھولی۔ لیکن ڈاکومینٹری فلم ’کالی ‘ کے متنازع پوسٹر اور ٹی ایم سی ممبر پارلیمنٹ مہوا موئترا کی جانب سے پوسٹر کے دفاع میںدیئے گئے بیان پر مودی یوں گویا ہوئے کہ ملک کو ’ماں کالی ‘کا آشیرواد حاصل ہے۔ اس طرح کی حر کت آر ایس ایس پرچارکوں کے سہ روزہ اجلاس کے بعد ہونے والی پریس کانفرنس میں بھی کی گئی۔ کنہیالال کے بہیمانہ قتل کی مذمت، مسلمانوں کے ہرطبقہ نے کی لیکن پریس کانفرنس میں اس سے انجان، یہ امید ظاہر کی گئی کہ مسلمان کھل کر اس کی مذمت کریں گے جبکہ ’کالی‘ کے متنازع پوسٹر کے بارے میں کہا گیا کہ اظہار کی آزادی کا استعمال کرتے ہوئے دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنا چاہئے۔ ایک منتخبہ جمہوری حکومت کا فرض ہے کہ وہ اکثریت کے ساتھ اقلیتوں بلکہ اقل ترین اقلیت کے تحفظ اور مفادات کا بھی خیال رکھے۔ سپریم لیڈر ہونے کے ناطے یہ ذمہ داری وزیراعظم پر عائد ہوتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK