Inquilab Logo

پرشانت کشوراور کانگریس میں بات کیوں نہیں بنی؟

Updated: May 24, 2022, 10:46 AM IST | Hassan Kamal | Mumbai

ان کالموں میں بار بار کہا جاتا رہا ہے کہ کانگریس کے دروازے جب تک او بی سی اور دلت کے لئے نہیںکھلتے، تب تک کانگریس کا کوئی بھلا نہیں ہو سکتا۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

گزشتہ ہفتہ راجستھان میں کانگریس کا، اندرونی کارکردگی کا جائزہ لینے اور آئندہ کا لائحہ عمل بنانے پر سوچ بچار کی غرض سے کیا جانے والا ایک سہ روزہ اجلاس منعقد کیا گیا تھا۔اجلاس کے بارے میں جو اطلاعات آئی ہیں،ان سے پتہ چلتا ہے کہ اجلاس اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ صرف کانگریس پارٹی ہی بی جے پی کا مقابلہ کر سکتی ہے اور اس کا متبادل بن سکتی ہے۔سن کر بہت اچھا لگا۔ حالانکہ زمینی حقائق یہ کہہ رہے ہیں کہ کانگریس کے سوا ہر پارٹی بی جے پی کا مقابلہ کر رہی ہے اور کہیں کہیں اس کا متبادل بھی بن رہی ہے لیکن اس پر بعد میں بات کریں گے۔یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ کانگریس بہت جلد ملک گیر پیمانے پر ایک’ بھارت جوڑو‘ مارچ شروع کر کے بھارت واسیوں کو بی جے پی اور اس کی عوام کو تقسیم کرنے والی فرقہ واریت پرمبنی سیاست سے نجات دلائے گی۔ ہونا بھی یہی چاہئے۔  ظاہر ہے یہ سن کر اور بھی اچھا لگا۔بس یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ سب کیسے کیا جائے گا؟اگر کانگریس پارٹی بھارت واسیوں کو یہ یقین دلانا چاہتی ہے کہ صرف بی جے پی ہی اکیلی ہندو پارٹی نہیں ہے، کانگریس بھی ہندو اور ہندوئوں کی پارٹی ہے ۔اور یہ کہ بی جے پی کاہندوتوا تو سماج دشمن ہے ، جب کہ کانگریس نرم ہندوتوا پر یقین رکھتی ہے ، تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح کی حکمت عملی سے بہتر ہے کہ لڑنے سے پہلے ہی ہار مان لی جائے۔ نہ جانے کانگریس کی سمجھ میں یہ کب آئے گا کہ راہل گاندھی لاکھ جنیئو دکھاتے پھریں، لاکھ یقین دلائیں کہ ان کا گوتر رشی وششٹ سے تعلق رکھتا ہے اور وہ اور پرینکا لاکھ مندروں کے چکر کاٹیں بی جے پی کو نہ ان سے ڈر لگتا ہے ،نہ ہی کوئی خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ 
    کانگریس کی بنیاد گاندھی اور نہرو کی اس سیاست پر قائم کی گئی تھی ، جو مذیب کی مخالف تو نہیں تھی، لیکن جس میں سیاست اور مذہب کو ایک دوسرے سے قطعی لا تعلق ماننا لازمی سمجھا جاتا تھا۔ بی جے پی کو اسی سیاست سے ڈر لگتا تھا اور آج بھی لگتا ہے۔ افسوس کہ کانگریس اس سیکولرزم کی طرف لوٹنے سے ڈرتی ہے۔ اسے ڈر لگتا ہے کہ اس نے ایسا کیا تو اسے ہندو ووٹ بینک ٹھکرا دے گا۔کانگریس کا یہ دعویٰ بھی مضحکہ خیز لگتا ہے کہ بی جے پی سے ٹکر کوئی علاقائی پارٹی نہیں لے سکتی ، کانگریس ہی لے سکتی ہے، کیونکہ کانگریس قومی پارٹی ہے۔ ہو یہ رہا ہے کہ بی جے پی کو ٹکر ٹی ایم سی،ڈی ایم کے ، ایس پی اور آرجے ڈی ہی دے رہی ہیں جو سب علاقائی پارٹیاں ہیں۔
      پرشانت کشور سے بھی بات چیت اس وجہ سے نہیں بن پائی۔ پی کے نے کانگریس کے اندرونی ڈھانچے میں تبدیلیوں کی بابت جو تجاویز سامنے رکھی تھیں، کہا جاتا ہے کہ وہ بہت صائب تھیں اور سونیا گاندھی نے ان کی تعریف بھی کی تھی۔ پی کے کا نظریہ تھا کہ  کانگریس کے بغیربی جے پی کے خلاف اپوزیشن کا کوئی متحدہ محاذ بننا نا ممکن ہے لیکن ان کے نزدیک دیگر اپوزیشن پارٹیوں کا اس نکتہ پر اتفاق رائے نہیں تھا کہ اس متحدہ محاذ کی سربراہی کانگریس کرے۔ دوسرے لفظوں میں اپوزیشن پارٹیاں کانگریس کی شمولیت پر توراضی تھیں، لیکن راہل گاندھی کی قیادت تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھیں۔ہماری اطلاعات کے مطابق پی کے نے ایک نام بھی تجویز کیا تھا اور یہ نام ممتا بنرجی کا نہیںتھا۔ یہ بات سامنے نہیں آئی، بلکہ سامنے نہیں لائی گئی، لیکن ہمیں بہت با وثوق ذرائع نے بتایا کہ یہ نام نتیش کمار کا تھا۔ ہمارے ذرائع کے مطابق پی کے نے اس کے لئے نتیش کمارکو راضی بھی کر لیا تھا۔مبینہ طور پر گاندھی خاندان نے اس کی بہت زیادہ مخالفت بھی نہیں کی تھی ، لیکن پارٹی کے اعلیٰ سطح کے لیڈروں نے اس تجویز کی سخت مخالفت کی۔انہوں نے یہ کہا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ان کے خیال میں بی جے پی کی پالیسیاں اسے خود ہی لے ڈوبیں گی اور لوگ خود بخود کانگریس کی طرف جھک جائیں گے۔ بس بات اسی مقام پر پہنچ کر ٹوٹ گئی۔
   کانگریس کی اعلیٰ سطح کے چند لیڈر کی اسی سوچ نے ۲۰۱۴ ءکے بعد سے کانگریس کو بے عملی کا شکار بنا رکھا ہے۔ پی کے سے بات چیت کے دروازے بند نہیں کئے گئے ہیں، لیکن جب تک ان کی اس تجویز پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا جاتا تب تک کوئی پیش رفت مشکل ہی نظر آتی ہے۔ ہماری اطلاعات کے مطابق پی کے کی اس تجویز کی مخالفت جن لوگوں نے کی، ان میں ہوڈا، کمل ناتھ اور دگ وجے سنگھ جیسے لیڈر شامل ہیں۔ اس سے بھی قطع نظر کانگریس کے بزرگ لیڈر نوجوانوں کو آگے کی صف میں لانے کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ حالانکہ ان لیڈروں کی عوام میں پہنچ دن بہ دن کمزور ہوتی جارہی ہے، لیکن کانگریس کی مرکزی اور صوبائی سطحوں میں ان کا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ یہ بزرگ لیڈر نوجوان قیادت کو نا تجربہ کار سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ نوجوان عوام سے بہت قریب ہوتے ہیں۔    ان بزرگ لیڈروں کی وجہ سے نوجوان کانگریس میں آتے ڈرتے ہیں اور جو آگئے ہیں، وہ خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیںہاردک پٹیل کی مثال سامنے ہے۔ وہ بی جے پی سے ناتہ توڑ کر کانگریس میں آئے تھے۔ انہیں گجرات کانگریس کا ورکنگ صدرتو بنایا گیا، لیکن عملی طور پر گجرات  کانگریس کی قیادت  سینئر کانگریسی لیڈروں ہی کے ہاتھوں میں رہی۔ ہاردک پٹیل اہم اختیارات سے محروم رہے۔ آخر تنگ آکر انہوں نے کانگریس کی بنیادی ممبر شپ سے بھی استعفیٰ دے دیا۔ استعفے کی وجہ یہ بتائی کہ کانگریس میں نوجوان لیڈروں کا کام صرف میٹنگوں کے وقت اعلیٰ لیڈروں کیلئے چکن سینڈ وچ کا انتظام کرنا رہ گیا تھا۔ یہی حال رہا تو ہمیں حیرت نہ ہوگی کہ ایک دن جگنیش میوانی بھی کانگریس چھوڑ دیں۔  کانگریس کی اعلیٰ سطح کے لیڈر پارٹی میں او بی سی اور دلتوں کو بھی لانے اور کوئی ممتاز مقام دیئے جانے کے حق میں نہیں ہیں۔ ذرا پارٹی کی اعلیٰ سطح کی لیڈر شپ پر ایک نظر ڈالئے اس میں غیر سورن لیڈر بہت کم نظر آئیں گے۔ ہماری اطلاع کے مطابق یہ بزرگ لیڈر اشوک گہلوت اور مکیش بگھیل سے بھی خائف رہتے ہیں۔ حالانکہ یہ دونوں کانگریس کے لئے جتنے کار آمد ثابت ہوئے ہیں، کمل ناتھ، دگ وجے سنگھ اور ہوڈا کبھی ثابت نہیں ہوئے۔ ان کالموں میں بار بار کہا جاتا رہا ہے کہ کانگریس کے دروازے جب تک او بی سی اور دلت کیلئے نہیںکھلتے، تب تک کانگریس کا کوئی بھلا نہیں ہو سکتا۔ ہندوستان کی سیاست کی اصلیت جاننے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب تک نریندر مودی کے متبادل کے طور پر کوئی او بی سی لیڈر نہیں لایا جائے گا، تب تک بات نہیں بنے گی۔ یہ مت بھولئے کہ  جب تک نریندر مودی کو بھی او بی سی لیڈر(جعلی ہی سہی)کے طور پر میدان میں نہیں اتارا گیا تھا تب تک بی جے پی کی بھی بات نہیں بنی تھی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK