Inquilab Logo

کیا ہاتھرس کی بیٹی کو انصاف ملے گا؟

Updated: October 06, 2020, 10:44 AM IST | Editorial

نعرے سرخرو بھی کرتے ہیں اور رُسوا بھی۔ پچھلے چھ برسوں میں کتنے نعرے بلند ہوئے اور ان میں سے کتنے ایسے تھے جو نعرہ لگانے والوں کی رُسوائی کا سبب بنے، اس پر روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں

Hathras - Pic : PTI
کیا ہاتھرس کی بیٹی کو انصاف ملے گا؟ تصویر : پی ٹی آئی

 نعرے سرخرو بھی کرتے ہیں اور رُسوا بھی۔ پچھلے چھ برسوں میں کتنے نعرے  بلند ہوئے اور ان میں سے کتنے ایسے تھے جو نعرہ لگانے والوں کی رُسوائی کا سبب بنے، اس پر روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ ’’اچھے دن ....‘‘ کے جواب میں عوام خود ہی کہنے لگے ہیں کہ ’’اب نہیں آنے والے!‘‘۔ ایسا ہی ایک نعرہ ’’بیٹی بچاؤ‘‘ہے۔ یہ پورا نعرہ نہیں، اس کا ایک حصہ ہے مگر لوگ اتنا ہی دُہرا کر یہ پوچھ رہے ہیں کہ ’’یہ نعرہ تھا یادھمکی؟‘‘ ہاتھرس کے دردناک سانحۂ آبروریزی کے پیش نظر یہ سوال عوام کے اُس درد کا آئینہ دار ہے جو متاثرہ کے ساتھ ہونے والی ’’ناانصافی کے بعد ناانصافی اور پھر ناانصافی‘‘ کو دیکھ کر پیدا ہواہے۔ 
 کچھ لوگ فوراً رو پڑتے ہیں، کچھ پہاڑ جیسی مصیبت گزر جائے تب بھی آبدیدہ نہیں ہوتے،مگر ا س بچی کے ساتھ ہونے والے وحشیانہ سلوک پر اگر کچھ لوگ ابتدائی خبریں سن کر نہیں روئے ہوں گے تو بچی کی موت کی خبر سن کر اُن کی آنکھیں ضرور بھر آئی ہوں گی اور اگر یہ بھی نہیں تو اُس کی ماں کے بلک بلک کر رونے اور پولیس افسروں سے ایک بار بچی کا چہرا دیکھنے کی بھیک مانگنے کے ویڈیو دیکھ کر تو یقیناً  رو پڑے ہوں گے۔ اس ماں کی گریہ و زاری کو پورے ملک نے سنا اور دیکھا۔ اس وقت ہر شخص کے ذہن میں سوال اُٹھا ہوگا کہ ’’بیٹی بچاؤ‘‘ کا نعرہ لگانے والوں کے اقتدار میں بیٹی جلاؤ ابھیان کیوں عمل میں لایا گیا، وہ بھی رات کے ڈھائی بجے؟ اس ماں کی کیوں نہیں سنی گئی جس نے ہاتھ جوڑ کر اور روتے بلکتے ہوئے کہا کہ بچی کا چہرا آخری بار دیکھ لینے دو، اُس کی نعش گھر لے جانے دو اور رات میں اس کا انتم سنسکار مت کرو؟ حیرت انگیز طور پر، اس وقت ایک پولیس افسر اُنہیں ’’سمجھا‘‘ رہا تھا کہ وقت اور حالات بدل چکے ہیں، اب رات کے وقت بھی انتم سنسکار ہوسکتا ہے۔ 
 اہل خانہ کو شریک کئے بغیر من مانے طریقے سے متاثرہ کی نعش جلا دینے کے نہایت ظالمانہ اور غیر انسانی واقعہ پر دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کا تبصرہ برسوں یاد رکھا جائیگا کہ ’’پہلے، متاثرہ کا بالاتکار کچھ وحشیوں نے کیا، پھر پورے سسٹم نے بالاتکار کیا۔‘‘  یہ اُس پارٹی کے خلاف ردعمل ہے جس نے خواتین کی بدحالی کو ہر الیکشن اور ہر بھاشن میں موضوع بنایا، عوام کو رجھایا، ووٹ حاصل کئے، حکومت بنائی اور جب اقتدار حاصل ہوگیا یعنی آزمائش شروع ہوگئی تو اپنے نعروں سے پیچھا چھڑانے کے درپے ہوگئی۔ ایک نعرہ سے تو یہ کہہ کر پیچھا چھڑا لیا گیا کہ ’’چناوی جملہ‘‘ تھا مگر چونکہ نعروں کے بعد نعرے گھڑے گئے تھے اس لئے ہر نعرہ سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں ہے۔ اِس وقت ’بیٹی بچاؤ‘ والے نعرے کیلئے بی جے پی بالخصوص یوگی آدتیہ ناتھ شدید عوامی غم و غصہ کا نشانہ ہیں۔ 
 سوال یہ ہے اور بار بار پوچھا جارہا ہے کہ ایسی کیا بات تھی کہ انتم سنسکار میں اتنی عجلت کی گئی اور اس کا راتوں رات انجام دیا جانا ضروری سمجھا گیا۔ کیا اس لئے کہ اپوزیشن اور دیگر کو روکا جائے؟ کیا اس لئے کہ دن میں وہاں میڈیا بھی ہوتا؟ (میڈیا سے یوپی انتظامیہ اچانک اتنا ڈرنے کیوں لگا ہے؟)، یا، اس کے علاوہ بھی کوئی بات تھی جس کے عیاں ہونے کا خدشہ تھا؟ آیا یہ پولیس کے اعلیٰ افسران کا فیصلہ تھا یا وزیر اعلیٰ کا؟ اگر یہ ’’ضروری‘‘ سمجھا گیا تھا کہ آخری رسومات راتوں رات ہی انجام دیئے  جائیں تب بھی وہ مذہبی طور طریقہ کیوں اختیار نہیں کیا گیا جو آنجہانی ہوجانے والے کسی بھی شہری کا حق ہوتا ہے؟پولیس نے جو کیا وہ مظلوم کے ساتھ مجرم جیسا سلوک ہے، کسی بہت خطرناک مجرم جیسا۔ 
 اتنا سب ہوجانے کے بعد صرف ایک راستہ ہاتھرس کی بیٹی کو انصاف دلانے کا رہ جاتا ہے اور وہ ہے غیر جانبدارانہ تفتیش اور مجرموں کو قرار واقعی سزا۔ مگر افسوس کہ اس کی بھی اُمید کم ہے۔کیس کو کمزور کرنے کی کوشش تو کب کی شروع ہوچکی ہے اور دعویٰ کیا جارہا ہے کہ آبروریزی ہوئی ہی نہیں ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK