Inquilab Logo

کیا راہل کی یاترا کانگریس کےاحیاء کا سبب بنے گی؟

Updated: January 26, 2023, 10:23 AM IST | Khalid Shaikh | Mumbai

یاترا میں ملک کی معروف و بااثر شخصیتوں کی شمولیت اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں جُڑنے والی بھیڑ نے بی جے پی کے ان لیڈروں کا منہ بند کردیا جو راہل کو ’’پپّو‘ ‘ کہہ کر ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔

Rahul Gandhi
راہل گاندھی

گزشتہ سال ۷؍ ستمبر کو شروع کی گئی کنیا کماری سے کشمیر تک کی ۳۷۵۰؍ کلو میٹرکی بھارت جوڑو یاترا قریب الختم ہے۔ ۳۰؍ جنوری کو گاندھی جی کی برسی کے موقع پر اس کی اختتامی تقریب سری نگر میں منعقد ہوگی۔ کانگریس چیف ملکارجن کھرگے نے اس کے لئے ۲۱؍سیاسی پارٹیوں کو مدعو کیا ہے، ان میں ’’ آپ‘‘ اور مجلس اتحاد المسلمین شامل نہیں ہیں کیونکہ کانگریس کو ان سے الرجی ہے۔ خبریہ بھی ہے کہ ۲۶؍ جنوری سے کانگریس ’ ہاتھ سے ہاتھ جوڑو‘ مہم شروع کرے گی جس میں یاترا کے پیغام کو عام کرنے کے ساتھ مودی حکومت کی ناکامیوں پر تیارکردہ چارج شیٹ کو گھر گھر پہنچایا جائے گا۔ یہ مہم ۲۶؍ مارچ تک جاری رہے گی۔ اس کا نعرہ ہوگا ’سب کا ساتھ خود کا وکاس ۔سب کا ساتھ وشواس گھات‘۔ہم یاد دلادیں کہ ۲۰۰۳ء میں کانگریس نے ایسی ہی ایک چارج شیٹ واجپئی حکومت کے خلاف جاری کی تھی جس کا اثر بھی دیکھنے کو ملا۔ ۲۰۰۴ء کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کا ’شائننگ انڈیا‘ ماند پڑ گیا۔ پارٹی نے شکست کیلئے مودی اور گجرات فسادات کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ کانگریس نے دیگر پارٹیوں کے ساتھ مل کر گٹھ بندھن سرکار بنائی جس کے دوسرے دَور میں ہونے والی بدعنوانیاں اسے لے ڈوبیں ۔ تب سے ہندوستان مودی راج میں جی رہا ہے۔ مودی، ہندوتوا کے سب سے طاقتور لیڈر ثابت ہوئے ہیں۔ حیرت اس پر ہے کہ کُھلی وعدہ خلافیوں اور تباہ کُن پالیسیوں کے باوجود آج بھی ان کی مقبولیت برقرار ہے کیونکہ اپوزیشن پارٹیاں مودی اور بی جے پی کو ہرانے پر تو متفق ہیں، متحد نہیں، ناہی ان کے پاس مودی کو ٹکر دینے جیسا کوئی لیڈر ہے۔
 مودی دَور مسلم مخالف دَور رہا ہے۔ آزادی کے بعد ۶۷؍ سال تک مسلمانوں کے خلاف جو نہیں ہوا، اسے مودی نے کردکھایا اور ’ہندو ہردے سمراٹ ‘ بن گئے۔ حکومت کی شہ پر اندھ بھکتوں اور پارٹی کے آئی ٹی سیل نے تشہیری مہم کے ذریعے ہندو۔ مسلمانوں کے درمیان چلی آرہی خلیج کو جو وسعت دی، اسے پاٹنا کارے دارد ثابت ہوگا۔ مودی، کانگریس اور مسلم مُکت بھارت چاہتے ہیں۔ کانگریس کے معاملے میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے جس کی بنیادی وجہ پارٹی پر نہرو۔گاندھی خاندان کی اجارہ داری اور اس کا خوشامدی ٹولہ ہے جو خاندان کے بغیر کانگریس کا تصور نہیں کرسکتا۔ مسلمان، البتہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کیلئے ٹیڑھی کھیر ثابت ہوئے ہیں۔ ۲۰؍ کروڑ کی آبادی کو وہ ملک بدر کرسکتے ہیں نہ دریا بُرد ، اس لئے مسلمانوں کو زیر کرنے کے لئے انہوںنے دو طریقے اختیارکئے (۱) تشہیری مہم کے ذریعے برادران وطن کے ذہنوں میںاُن کے خلاف نفرت وعداوت کے بیج بونا اور (۲) سی اے اے اور این آر سی کے ذریعے انہیں دوسرے درجے کا شہری اور محکوم بنانا۔ دوسرے طریقے پر حکومت کیلئے عمل کرنا اتنا آسان نہیں ہوگاکیونکہ اس کے لئے جو شرائط طے کی گئی ہیں اس کی ضرب برادران وطن پر بھی پڑے گی اس لئے فی الحال پوری توجہ پہلے طریقے پر مرکوز کی جارہی ہے۔ گئوکُشی، بیف بَین، لنچنگ، تعددِ ازدواج ، یوسی سی اور حجاب وحلال کا تناز ع اسی کا مظہر ہیں جبکہ لوجہاد اور بڑھتی آبادی کا ہّوا کھڑا کرکے ’ ہندو اور ہندو مذہب خطرے میں ہے‘ کے ذریعہ ہندؤوں ڈرایا جارہا ہے۔ ویسے نفرتی مہم صرف مسلمانوں تک محدود نہیں۔ اس کی زد میں ہر وہ فرد یا تنظیم آجاتی ہے جو مودی یا حکومت مخالف ہوتی ہے۔
  راہل گاندھی کی بھارت جوڑویاترا اسی نفرتی مہم کے خلاف ہے۔یاترا کے بارے میں لوگوں کے دوطبقے ہیں ایک طبقہ اس خیال کا حامی ہے کہ کانگریس طویل عرصےسے سکرات کے عالم میں، وینٹی لیٹر پر ہے، اس لئے یاترا سے اس کے تنِ مردہ میں جان ڈالنے کی امیدعبث ہو گی۔ اس طبقے کایہ بھی کہنا ہے کہ سیاست کے خارزار میں قدم رکھنے کے بعد راہل نے ایسا کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا جو پارٹی کے احیاء کا سبب بن سکے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ۲۰۱۷ء کے گجرات الیکشن میں راہل نے بی جے پی کو پہلی بار ۹۹؍ سیٹوں پر سمیٹا اور ۲۰۱۸ء میں راجستھان، ایم پی اور چھتیس گڑھ کے الیکشن میں کامیابی سے ہمکنار کیا لیکن یہ اس وقت ممکن ہوا جب انہوںنے نرم ہندوتوا کا سہارا لیا۔ ورنہ سچ یہ ہے کہ ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا الیکشن کے بعد سے کانگریس مسلسل زوال پذیر رہی ہے اور اس کے کئی سینئر لیڈروں نے اسے داغِ مفارقت دے کر بی جے پی کے دامن میں پناہ لی ہے۔ اس طبقے کو راہل کےبچکانہ اور بے موقع بیانات سے بھی شکایت ہے جو بی جے پی لیڈروں کو ان کے اور کانگریس کے خلاف ہتھیار فراہم کرنے کا کام کرتے ہیں۔
  اس کے برعکس ایک دوسرا طبقہ یاترا کو ملی کامیابی کو غیرمعمولی قرار دیتا ہے جو کسی دوسری یاترا کے حصہ میں نہیں آئی ۔ یاترا میں ملک کی معروف و بااثر شخصیتوں کی شمولیت اور ہرگزرتے دن کے ساتھ اس میں جُڑنے والی بھیڑ نے بی جے پی کے ان لیڈروں کا منہ بند کردیا جو راہل کو ’’پپّو‘ ‘ کہہ کر ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ یاترا کے دوران راہل کا یہ جملہ کہ’ ’ میں نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے آیا ہوں‘‘ نفرت پھیلانے والوں کے چہرے پر کرارا طمانچہ ہے ۔  اچھی بات یہ ہوئی کہ راہل نے یاترا کو بڑی حد تک غیرسیاسی رکھا اوراس کا مقصد ملک کے مختلف طبقات کے درمیان سماجی ومذہبی ہم آہنگی ، محبت واخوت اور مساوات کے جذبات کو فروغ دینا بتایا، انہوںنے اقلیتوں ، پچھڑی جاتیوں اور مظلوم طبقات کے حقوق کا ذکر کیا اور ملک میں بڑھتی بے روزگاری ، مہنگائی ، سماج میں بڑھتی نفرت وعصبیت اورایک فرد واحد کے ہاتھوں اقتدار سمٹ جانے پر تشویش کا اظہارکیا۔یہ ساری باتیں کہنے سننے میں اچھی لگتی ہیں لیکن نفرت کی آندھی میں محبت اور یک جہتی کی شمع روشن کرنا آسان نہ ہوگا، اس لئے راہل کی اصل آزمائش یاترا کے بعد شروع ہوگی کیا وہ اس میں کامیاب ہوں گے؟ اگر جواب نہ میں ملا تو راہل کے مخالفین کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ یاترا ان کی شبیہ چمکانے کے لئے تھی جس کی نوعیت خالص سیاسی تھی۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK