Inquilab Logo

گوری رنگت خوبصورتی کی علامت نہیں ہے

Updated: February 17, 2020, 3:08 PM IST | Minakshi Sharma

معاشرے میں رنگت کی بنا پر امتیاز کے بارے میں کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ والدین بالخصوص ماؤں کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں میں یہ احساس پیدا کریں کہ ایک سانولی یا کالی رنگت کی حامل لڑکی یا لڑکا بھی اپنی قابلیت کے بل بوتے پر کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں

 گوری رنگت خوبصورتی کی علامت نہیں ہے ۔ تصویر : آئی این این
گوری رنگت خوبصورتی کی علامت نہیں ہے ۔ تصویر : آئی این این

دنیا ایک ’گلوبل مارکیٹ‘ ہے اور اس مارکیٹ کو چلانے میں سب سے بڑا ہاتھ ہے تشہیر کا۔ آپ کو کپڑے خریدنے ہوں یا پھر گھر کا راشن، ذاتی چیزیں لینی ہو یا پھر کوئی بھی سامان، آپ کہیں نہ کہیں یہ ضرور خیال رکھتی ہیں کہ آپ اس پروڈکٹ/ برانڈ کا نام جانتے ہوں یا پھر ٹی وی پر کبھی ’ایڈ‘ (اشتہار) دیکھا ہو۔ اشتہار دیکھنے سے آپ کو کہیں نہ کہیں یہ یقین ہوتا ہے کہ ہاں، یہ پروڈکٹ اچھا ہے اور اس پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔
 لیکن ملٹی مارکیٹنگ کی اس دنیا میں جہاں آپ کے بالوں سے لے کر پیر کے ناخن تک، ہر چیز کے لئے پروڈکٹ فروخت ہو رہے ہیں، ایسی صورتحال میں آپ کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ بازار ایسی ایسی چیزوں سے بھرا پرا ہے کہ صرف آپ کے پیسے اینٹھنے کے لئے فروخت کئے جا رہے ہیں اور بے شمار اشتہاروں کے ذریعے آپ کو گمراہ کر رہے ہیں۔ کوئی آپ کو گورا بنانے کے دعویٰ کرتا ہے، کوئی عمر گھٹانے کا، کوئی دبلا کرنے کا تو کوئی فٹ رکھنے کا۔ ہم سب سمجھتے اور جانتے ہوئے بھی کئی بار ایسے اشتہاروں پر بھروسہ کر لیتے ہیں اور ان کے پروڈکٹ خرید کر استعمال بھی کر لیتے ہیں۔ اشتہار صرف اس لئے ضروری ہونے چاہئے کہ وہ ہمیں بازار میں مہیا چیزوں کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں، لیکن انہیں خریدنے کیلئے ہمیں ہر طرح سے انہیں جانچ لینا چاہئے کہ وہ فائدہ مند ہیں بھی یا نہیں۔ گمراہ کن اشتہاروں اور مصنوعات کا ہماری زندگی پر منفی اثر ہوسکتا ہے۔
 وزارت صحت نے گمراہ کن اشتہاروں کو روکنے کے لئے ’ڈرگس اینڈ میجک ریمیڈیز‘ (آبجیکشن ایبل ایڈورٹائزمنٹ) ایکٹ ۱۹۵۴ء میں کچھ تبدیلیوں کی تجویز پیش کی گئی ہیں تاکہ گمراہ کن اشتہارات کو ایک حد تک محدود کیا جاسکے۔ ان تبدیلی کے تحت اشتہارات کے ذریعے جعل سازی کرنے والی کمپنیوں یا افراد کو ۵؍ سال قید اور ۵۰؍ لاکھ تک جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔ جو کمپنی پہلی بار ایسے گمراہ کن اشتہارات نشر کرتی ہوئی پائی گئی تو اسے ۱۰؍ لاکھ جرمانے یا ۲؍ سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ لیکن دوبارہ اپنی حرکت دہرانے پر سزا اور جرمانہ دونوں میں اضافہ ہوجائے گا۔
 وزارت صحت کا یہ اقدام واقعی قابل ستائش ہے لیکن ایک صارف کی حیثیت سے ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ہم ان اشتہاروں میں فروخت ہونے والی مصنوعات کو کیوں خرید رہے ہیں کیونکہ ہماری ذہنیت بھی بیمار ہے۔
 آپ گورے ہونے کی کریم کیوں خرید رہے ہیں؟ کیونکہ معاشرے نے خوبصورتی کا پیمانہ طے کیا ہے کہ اگر آپ خوبصورت نہیں ہیں، آپ بے داغ نہیں ہیں تو آپ خوبصورت نہیں ہیں۔ معاشرے کی یہ سوچ ہمارے ذہن میں اس طرح پیوست ہوگئی ہے کہ اب ہم بھی یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ موٹا ہونا غلط ہے، کالا ہونا غلط ہے، عمر سے پہلے ہی بال سفید ہونا غلط ہے۔
 ہم آج بھی شادی کیلئے گوری لڑکی، لمبی لڑکی، دبلی پتلی لڑکی، خوبصورت لڑکی.... کیوں تلاش کرتے ہیں؟ کیونکہ یہ ہماری سوچ بن گئی ہیں مگر یہ پیمانے طے کس نے کئے؟ معاشرے کے چند تنگ سوچ رکھنے والے لوگوں نے اس کا فیصلہ کیا اور ہم نے آنکھ بند کرکے ان کی تقلید کرنے لگے۔ یہ لوگ جو بیرونی خوبصورتی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، اندرونی خوبصورتی کے معنی کو بھول گئے ہیں۔ کوئی کریم یا کوئی دوا نہ آپ کو خوبصورت بنائے گی نہ ہی اسمارٹ۔ اچھا کھانا، اچھی سوچ، اچھا طرزِ زندگی ہی آپ کو خوبصورت بنا سکتے ہیں۔ یہ اشتہار آپ کو فروخت نہیں کئے جا رہے ہیں بلکہ آپ خرید رہے ہیں۔
 انسان کی خوبصورتی اس کی شخصیت کے کئی پہلوؤں میں چھپی ہوتی ہے جس انسان کو بھی خدا نے جس رنگت کا حامل بنایا ہے، وہ اس کی خوبصورتی ہے۔ دنیا میں ایسی کئی مقبول اداکارائیں اور شخصیات بھی ہیں کہ جن کی رنگت سانولی ہے لیکن وہ اپنے شعبے میں کامیاب ہیں۔ خواتین کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ اپنے رنگ کے مطابق خود کو سنوارنا اور گورے رنگ کے پیچھے بھاگنے کی غلطی نہ کریں بلکہ اپنی خوبیوں کو نکھارنے کی کوشش کریں تاکہ آپ ایک بہتر انسان بن سکے۔
 معاشرے میں رنگت کی بنا پر امتیاز کے بارے میں کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس موضوع پر جتنی زیادہ گفتگو کی جائے گی اتنی ہی اس معاشرتی برائی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ والدین بالخصوص ماؤں کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں میں یہ احساس پیدا کریں کہ ایک سانولی یا کالی رنگت کی حامل لڑکی یا لڑکا بھی اپنی قابلیت کے بل بوتے پر کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں۔ والدین اولاد کی ایسی تربیت کریں کہ ان کی شخصیت پر اعتماد ہو اور چہرے کی رنگت ان کے لئے بے معنی ہو جائے۔ ماؤں اور گھر کی خواتین کو بھی چاہئے کہ صرف اچھے رشتوں کے لئے اپنی بیٹیوں کی رنگت گوری کرنے کے چکر میں نہ پڑیں۔ نئی نسل کے ساتھ پچھلی نسل کے لوگوں میں رنگ کی بنا پر امتیاز کے بارے میں آگہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK