Inquilab Logo

بچوں کی موبائل فون سے محبت کو بیان کرتا ایک افسانہ

Updated: January 19, 2023, 12:04 PM IST | Shifa Huma | MUMBAI

’رانیہ.... رانیہ....‘‘ امّی کوئی دسویں بار اُسے پکار رہی تھیں۔ ’’امّی!بس دو منٹ میں آتی ہوں....‘‘ ہر بار کی طرح موبائل سے نظریں ہٹائے بغیر وہ اونچی آواز میں جواب دے کر اسکرین میں منہمک ہوگئی۔ وہ پچھلے تین گھنٹوں سے فیس بک پر کوئی لائیو شو دیکھ رہی تھی۔

Mobile Phone ; Photo: INN
موبائل فون ; تصویر:آئی این این

’’رانیہ.... رانیہ....‘‘ امّی کوئی دسویں بار اُسے پکار رہی تھیں۔ ’’امّی!بس دو منٹ میں آتی ہوں....‘‘ ہر بار کی طرح موبائل سے نظریں ہٹائے بغیر وہ اونچی آواز میں جواب دے کر اسکرین میں منہمک ہوگئی۔ وہ پچھلے تین گھنٹوں سے فیس بک پر کوئی لائیو شو دیکھ رہی تھی۔
 دوسری طرف رانیہ کو آوازیں دے دے کر تھک کے امّی نے آخر کار، کیبنٹ کے اوپری شیلف میں رکھا کافی جار خود ہی اُتارنے کا فیصلہ کیا۔ بہت مشقّت سے امّی نے اسٹول کچن میں لا کر رکھا اور احتیاط سے کافی جار لے کر اُتر ہی رہی تھیں کہ پیر پھسل گیا اور دل دہلا دینے والی چیخ کے ساتھ وہ زمین پر آ رہیں۔ جار اُن کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین بوس ہوگیا۔
 لیکن صد شُکر کہ اُنہیں کوئی بڑی چوٹ نہیں لگی۔ چیخ کی آواز سُن کر رانیہ یک دَم بھاگتی ہوئی آئی ’’کیا ہوا امّی جی....؟ ‘‘ اُس کے اِس سوال پر امّی کو غصّہ تو بہت آیا لیکن وہ اپنی نرم مزاجی اور غصّے پر قابو پالینے کی بیش بہا صلاحیت کے سبب خاموش رہیں۔ ’’اوہو! کافی جار ٹوٹ گیا، سچی آپ نے اتنی زور دار چیخ ماری تھی کہ مجھے لگا آپ ہی گر گئی ہیں۔ آپ بھی ناں امّی.... اچھا! لائیں مَیں کانچ اُٹھا دوں۔‘‘ اُس نے کانچ اُٹھانے کو کہہ تو دیا تھا لیکن دل اب بھی فیس بک میں اُلجھا تھا۔’’نہیں بیٹا! رہنے دو، مَیں خود کرلوں گی....‘‘ اُن کے لہجے میں کسی قدر ناراضگی تھی۔
 ’’اچھا ٹھیک ہے۔‘‘ رانیہ نے دل ہی دل میں شکر یہ ادا کیا کہ اُسے کانچ نہیں اُٹھانے پڑے، ورنہ ٹاک شو پورا ہی نکل جاتا۔ امّی جھاڑو سے شیشے کے ٹکڑے اُٹھانے لگیں اور رانیہ بھاگتی ہوئی واپس گئی اور دوبارہ موبائل فون اُٹھا لیا۔
 ’’ارے، انٹرنیٹ پیکیج ہی ختم ہوگیا۔‘‘ شام میں انٹرنیٹ ایم بی ختم ہونے کا ٹیکسٹ میسیج اُس کا منہ چڑا رہا تھا۔ بےزاری اور کوفت سے اُس نے موبائل پَرے اُچھالا اور کشن گود میں رکھ کےمنہ پھلا کر بیٹھ گئی۔ یک دَم ہی اُس کی نظر وال کلاک پر پڑی اور وہ حیرت کے مارے اُچھل ہی پڑی۔ ’’ہائیں.... ۸؍ بجنے والے ہیں، یعنی میری عصر اور مغرب قضا ہوگئی۔‘‘ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی اور پھر اِک عجیب سی بےچینی نے اس کے پورے وجود کو گھیرے میں لے لیا۔’’ابھی تو عصر کی اذان ہوئی تھی اور مَیں بس ایک نظر موبائل فون دیکھنے ہی تو بیٹھی تھی۔ واقعی،آج کل وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔‘‘ رانیہ نے سوچا اور کچھ شرمندہ سی ہوگئی۔
 پرانے وقتوں میں گلی محلوں میں بندر کا تماشا دِکھانے والے آتے تھے اور بچّے کیا جوان، بوڑھے سب ہی بہت شوق سے ڈُگڈگی کی تال پر بندر کو اُچھلتا کودتا دیکھتے۔ بندر کے گلے میں بہت سی مالائیں ہوتیں اوروہ کپڑے بھی پہنتاتھا،جبکہ مداری نے زرد رنگ کی ڈھیلی ڈھالی، دھول مٹی سے اَٹی شلوار قمیص (جس کا گریبان کُھلا ہوتا) پہن رکھی ہوتی اور گلے میں بندر ہی کی طرح سیکڑوں مالائیں ڈالی ہوتیں۔ مداری کے ایک ہاتھ میں ڈگڈگی اور دوسرے میں لمبی لکڑی ہوتی۔ جیسے ہی گلی محلے میں مداری کی آواز بلند ہوتی۔ اُس کے آنے کا غوغا اُٹھتا، تو ہر گھر سے بچّے باہر نکل آتے اور ساتھ ہی اُن کی مائیں بھی اپنے دوپٹے سنبھالتی، ہاتھوں میں کچھ سکّے یا نوٹ پکڑے ان کے پیچھے باہر لپکتیں۔ 
 جبکہ کچھ بچّے اپنے گھروں کی چھتوں سے، تو لڑکیاں بالکونیوں سے جھانکتی نظر آتیں۔ بندر جب ڈگڈگی کی لَے پر تماشا دکھا کر فارغ ہوجاتا، تو مالک سے لوہے کا پیالا لے کر تماش بینوں کے پاس جاتا اور وہ حسب ِ استطاعت اس میں روپے ڈال دے دیتے۔ یہاں تک کہ مداری چھتوں سے جھانکنے والوں کی طرف بھی پیالا بڑھاتا، لیکن وہ فوراً غائب ہوجاتے۔ ویسے تو آج بھی چھ، چھ مہینوں بعد گلی، محلوں میں کبھی کبھار ڈگڈگی بجاتے، بندر کو اپنے کندھے پر لٹکائے مداری نظر آہی جاتے ہیں۔ لیکن اُن پر کوئی دھیان دیتا ہے، نہ تماشا دیکھتا ہے۔ کیوں....؟ کیونکہ آج کا انسان اپنے لئے جدید تماشے اور جدید تماش بین منتخب کرچکا ہے۔
 آج کے بچّوں، نوجوانوں نے اپنے لئے موبائل کی صورت ایسا تماشا پسند کرلیا ہے، جس میں ’’ڈُگڈگی‘‘ کی تال پر وہ خود اُچھلتے کودتے رہتے ہیں۔ انسان نے ڈُگڈگی اُس اسکرین کو بنایا ہوا ہے، جو انہیں جادوئی طریقے سے بندر کی طرح نچاتی ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ انسان اپنے بندر صفت بن جانے کو ناپسند نہیں کررہا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی اس نئے تماشے کے ساتھ وابستگی بڑھتی جارہی ہے۔ اور افسوس اس بات کا ہے کہ اس تماشے نے انہیں ’’عاجلہ‘‘ میں اُلجھاکر ’’ آخرہ‘‘ سے غافل کردیا ہے۔‘‘ امّی دوپہر کو سونے لیٹیں، تو یہی سب باتیں سوچتے جانےکب ان کی آنکھ لگ گئی، پتہ ہی نہیں چلا۔
 ’’رانیہ! نماز پڑھ لو، عصر کا وقت جلدی ختم ہوجاتا ہے۔‘‘ امّی آج بھی اُسےکوئی بیسویں بار نماز پڑھنے کا کہہ رہی تھیں۔ ’’ابھی پڑھتی ہوں امّی جی۔‘‘ ہینڈز فِری لگاتے ہوئے موبائل فون پر بدستور نظریں جمائے اس نے جواب دیا تو امّی نے افسوس سے اُسے دیکھا اور خود تسبیح پڑھنے لگیں۔ ’’کبھی چہرے نورِ الٰہی سے چمکتے تھے اور اب موبائل اسکرینز کی شعاؤں نے چہروں سے کیا، دل سے بھی نُور ختم کردیا ہے۔‘‘ انہوں نے سوچا اور کچھ سوچتے ہوئے رانیہ کے پاس گئیں اور اس کے ہاتھ سے موبائل فون لیتے ہوئے کہا ’’کیا دیکھ رہی ہو بیٹا؟‘‘ ’’بندروں کا ڈانس....‘‘ کہتے ہوئے وہ اُچک اُچک کر امّی کے ہاتھ سے موبائل فون لینے کی کوشش کرنے لگی۔
 ’’دیکھ نہیں رہی، خود بندر بنتی جا رہی ہو، اب جاکے نماز پڑھو۔‘‘ کہتے ہوئے انہوں نے موبائل فون سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور کچن میں چلی گئیں۔ ’’مَیں....؟ بھلا مَیں کیسے بندر بنتی جا رہی ہوں، آپ بھی ناں، پتہ نہیں کیا کیا کہتی رہتی ہیں۔‘‘ رانیہ نے کندھے اُچکاتے ہوئے دوبارہ موبائل فون اُٹھایا اور ایک بار پھر ’’ڈُگڈگی‘‘ ہاتھ میں لئے اسکرین میں گُم ہوگئی۔

women Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK