Inquilab Logo

کوچنگ سے ہمیں رہنمائی، سمت ملتی ہےلیکن کامیابی کیلئےمحنت تو خود ہی کرنا ہے

Updated: January 04, 2021, 12:51 PM IST | Azhar Mirza

اتراکھنڈ  جوڈیشل سروس امتحان ۲۰۱۹ء میں شمشاد محمد علی نے ۱۳؍واں  مقام حاصل کیا ہے۔ ریاست کے ضلع ادھم سنگھ نگر کے تحصیل کھٹیما کے رہنے والے شمشاد محمد علی کو یہ شاندار کامیابی حاصل کرنے کے لئے بڑی جہدوجہد کرنی پڑی ہے۔ قبل ازیں انہوں نے جوڈیشیل امتحان میں کئی بار ناکامیوں کا سامنا کیا ہے لیکن وہ اپنی دھن میں لگے رہے اور امید ، ہمت اور کوشش کے بل بوتے بالآخراس بار اپنے ہدف کو پالیا۔

Shamshad Ali
شمشاد علی

  اتراکھنڈ  جوڈیشل سروس  امتحان ۲۰۱۹ء میں شمشاد محمد علی نے ۱۳؍واں  مقام حاصل کیا ہے۔  ریاست کے ضلع ادھم سنگھ نگر کے تحصیل کھٹیما کے رہنے والے شمشاد محمد علی کو یہ شاندار کامیابی حاصل کرنے کے لئے بڑی جہدوجہد کرنی پڑی ہے۔ قبل ازیں  انہوں نے جوڈیشیل امتحان میں کئی بار ناکامیوں کا سامنا کیا ہے لیکن  وہ اپنی دھن میں لگے رہے اور  امید ، ہمت اور کوشش کے بل بوتے بالآخراس بار اپنے ہدف کو پالیا۔ 
شمشاد علی کا ابتدائی تعلیمی سفر ایسا رہا
 انقلاب نے ۳۸؍سالہ شمشاد محمد علی سے خصوصی بات چیت کی اور ان کی اس انتھک جدوجہد بھرے سفر کی روداد معلوم کی۔ بات چیت کے آغاز میں شمشاد محمد علی اپنے خاندانی پس منظر کے متعلق استفسار پر یوں گویا ہوئے کہ ’’  میرے والد محمد علی مشین رپیئرنگ  ورکشاپ چلاتے ہیں۔ والدہ خاتون خانہ ہیں اور ہم ۳بھائی اور ۳؍بہن ہیں۔ ان میں، میں تیسرے نمبر پر ہوں۔ دونوں بھائی پرنٹنگ پریس چلاتے ہیں۔   ہم سبھی کی تعلیمی کفالت انہوں نے ورکشاپ پر کام کرتے ہوئے کی ۔ ‘‘
اسکول سے لے کر گریجویشن تک اوسط کارکردگی رہی 
 وہ آگے مزید بتاتے ہیں کہ ’’  ابتدائی  تعلیم کے بعد  ہائی اسکول اورانٹر تک کی تعلیم تھارو راجکیہ انٹرکالج تحصیل کھٹیماسے ہی حاصل کی ۔ انٹرکالج تک میرا میڈیم ہندی ہی رہا۔  میں اسکولی دنوں سے ہی  اوسط درجہ کا طالب رہا۔ دسویں اور بارہویں(آرٹس)   سیکنڈ ڈویژن نمبرا ت سے کامیاب ہوا۔ پھر  انگریزی سے بی اے مکمل کیا۔ حالانکہ ارادہ انگریزی سے ایم اے کرنے کا تھا لیکن والد صاحب سے کریئر کے سلسلے میں بات چیت   ہوئی تو انہوں نے مشورہ دیا کہ میں لاء کرلوں۔    اس کے بعد میں نے  لاء کی تعلیم کیلئے لکھنؤ یونیورسٹی سے متعلقہ ٹی اے بی کالج کا  رخ کیا۔ وہاں سے میں  نے ایل ایل بی مکمل کیا اور گھر لوٹ آیا۔ کچھ دن یہاں لاء کی پریکٹس بھی کی لیکن مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ پھر پی سے جے کی تیاری کا خیال آیا اور ایل ایل ایم کیلئے روہیل کھنڈ یونیورسٹی ، بریلی کیمپس میں داخلہ لیا۔ یوں میں نے ایل ایل ایم سیکنڈ ڈویژن (۵۵؍فیصد )سے پاس کیا۔‘‘
جوڈیشیل شعبہ میں کریئر بنانے کے لئے جدوجہد
 جوڈیشل شعبہ میں کریئر بنانے کے متعلق استفسار پر شمشاد نے کہا کہ’’ چونکہ میں  پی سے جے کا پہلے ہی ارادہ کرچکا تھا لہٰذا میں نے  جوڈیشیل امتحان کی تیاری شروع کردی۔ اترپردیش، بہار،راجستھان،جھارکھنڈ،اتراکھنڈ کے امتحانات میں قسمت آزمائی کی۔ راجستھان کا پری کوالیفائی کرنے کے بعد مینس دیا،اتراکھنڈ کا جوڈیشیل امتحان ۲۰۰۵ء،۲۰۰۸ء،۲۰۰۹ء، ۲۰۱۱ء میں دیا، ۲۰۰۹ء میں محض ایک مارکس سے میرا سلیکشن رہ گیا۔ ۲۰۱۲ء  اور۲۰۱۳ء میں  انٹرویوکے مرحلے تک پہنچا لیکن ناکامی ہاتھ آئی۔  خیر اسی درمیان میں  این ای ٹی کوالیفائی ہوگیا۔ میرا یہ تعلیمی سفر مسلسل جاری رہا۔ اس کے بعد میں نے یوسیٹ کلیئر کرلیا۔آرٹی بی پی میں  ڈپٹی جج اٹارنی کا امتحان ہوتا ہے جسے میں نے کوالیفائی کرلیا لیکن اس کے میڈیکل راؤنڈ میں کلر بلائنڈنس کے سبب  مجھے مسترد کردیا گیا۔ ‘‘
’’کوچنگ سے آپ کو رہنمائی ملتی ہے کامیابی کے لئے محنت تو خود ہی کرنی ہے‘‘
 شمشاد نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ’’ ۲۰۰۴ء میں میرا لاء مکمل ہوا ہےا س کے بعد سے آس پاس کی کوئی ایسی ریاست نہیں بچی جہاں میں  امتحان دینے نہ گیا  ہوں۔ میں نے ۲۰۰۴ء میں جوڈیشیل  امتحان کے لئے لکھنؤ میں دو جگہ کوچنگ لی ہے۔ میرا اس تعلق سے یہی کہنا ہے کہ کوچنگ سے ہمیں رہنمائی اور سمت مل جاتی ہے۔  یہ آئیڈیا ہوجاتا ہے کہ کیا پڑھنا ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں تو یہی کہوں گا کہ امتحان میں کامیابی کے لئے ہمیں محنت تو خود ہی کرنا  ہے۔ میں اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر یہ کہہ رہا ہوں کہ کوئی کوچنگ والا کسی کو بنا نہیں سکتا۔ کیونکہ کوچنگ سے ہی کامیابی ملتی تو میں نے ۲۰۰۶ء اور ۲۰۰۸ء میںکوچنگ لی ہے لیکن میرا سلیکشن دیکھئے کہ آج ۲۰۲۱ء میں ہورہا ہے۔ میں نے ہائی اسکول ،انٹر ،گریجویشن،لاء اور ایل ایل ایم میں بھلے ہی ۵۵؍یا اس کے آس پاس نمبرات رہے ہوں لیکن میں نے بہتری کی کوشش نہیں چھوڑی۔ میں مقابلہ جاتی امتحان دینے کے معاملے میں ڈٹا رہا۔  ‘‘
 شمشاد محمد علی نے اوبی سی زمرہ سےاس امتحان میں شرکت کی ۔ وہ بتاتے ہیں کہ جنرل کٹیگری کے لئے عمر کی حد ۳۵؍ سال تک ہوتی ہے ۔ چونکہ میرا اوبی سی زمرہ تھا لہٰذا میرے پاس ۴۰؍ سال تک موقع تھا۔ الحمد للہ ، میں نے دو سال رہتے یہ کامیابی حاصل کرلی۔ 
 شمشاد مزید کہتے ہیں کہ’’ میں نے پڑھائی کے لئے ہمیشہ منظم ٹائم ٹیبل کے تحت کام کیا ہے۔ میں زمانہ طالب علمی سے ہی نماز کی پابندی کرتا آرہا ہوں اس سے میری زندگی کے معمولات میں بھی نظم وضبط رہا ۔ میں طلبہ سے کہوں گا کہ وہ نمازوں کی پابندی کریں اور پڑھائی مستقل مزاجی کے ساتھ کرتے رہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیںکہ ’’میں والدین کو خصوصی طور پر یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ عموماً یہ دیکھا جاتا ہے کہ والدین  اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے معاملے میں ابتدائی تعلیم پر ہی بہت زیادہ خرچ کردیتے ہیں۔ وہ دوسروں کی دیکھا دیکھی میں  بچوں کو مہنگے اسکولوں میں داخل کرادیتے ہیں اور بڑی جماعتوں اور اعلیٰ تعلیم تک آتے آتے ان کا بجٹ بالکل ختم ہوجاتا ہے اور جب بچوں کو واقعی پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تب ان کے ہاتھ تنگ ہوجاتے ہیں۔ اس لئے میں کہوں گا کہ وہ اپنے بچوں کو بھلے ہی ہندی، اردو یا دیگر علاقائی زبانوں کے ذریعہ تعلیم دلائیں مگر اعلیٰ تعلیم کی مد میں حتی الامکان بچوں کی مدد کریں۔ ‘‘
 اتنی بار ناکامیوں کا سامنا کرنے کے بعد بھی شمشاد اپنی دھن میں لگے رہے ، بقول شمشاد ’’۲۰۰۷ء میں جو امتحان میں نے دیا اس میں میری کارکردگی اچھی تھی۔۲۰۰۹ء میں میری سب سے عمدہ کارکردگی تھی لیکن محض ایک نمبر سے میرا انتخاب رہ گیا۔ ۲۰۱۱ء میں پری کا فارم ہی  ریجیکٹ ہوگیا۔اس سے میں بہت ٹوٹ گیا تھا لیکن میں نے ہمت نہیں چھوڑی۔ ہر بار ناکامی کے بعد میں اپنے آپ کہتا کہ یہ ہم سے تو ہوکر رہ گیا ۔ اب کتنی ہی ناکامی کا سامنا کرنا پڑےاس میں کامیاب تو ہوکر ہی رہیں گے۔ گزشتہ سال میری شادی ہوئی۔ اس بار کی کوشش میں میری اہلیہ بشریٰ پروین وہ بی ایس سی ، ایل ایل بی ، بی ایڈ سی ای ٹی ہیں ، انہوں نے میری بڑی مدد کی اور میرا بہت حوصلہ بڑھایا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK