Inquilab Logo

لاک ڈاؤن میں لکھنے اور پڑھنےکا ذوق پروان چڑھائیے

Updated: June 03, 2020, 11:12 AM IST | Inquilab Desk

پہلے خواتین رسائل میں شائع ہونے والی کہانیاں اور ناول پڑھتی تھیں ، ان رسائل سے کھانے کی ترکیب بھی سیکھتی تھیں ۔ اب وہ کہانیاں سیریل اور ڈرامے کی شکل میں دیکھ رہی ہیں ، یو ٹیوب سے کھانے کی ترکیب سیکھ رہی ہیں، اس طرح مطالعہ کا رحجان کم ہوتا جارہا ہے ۔ یہ لا ک ڈاؤ ن مطالعہ کی عادت ڈالنے کا بہترین موقع ہے

Eduction - Pic : PTI
تعلیم ۔ تصویر : پی ٹی آئی

 ایک زمانہ تھاجب خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد ماہنامہ رسائل اور ڈائجسٹ کا مطالعہ انتہائی شوق و ذوق سے کرتی تھیں۔ان  میں شائع ہونے والی معاشرتی وسماجی اور گھریلو  مسائل سے متعلق مختلف کہانیاں، افسانے اور ناول  میں خواتین کی خصوصی دلچسپی ہوتی تھی۔ ماہنامہ ڈائجسٹ کی رسیا گھریلو خواتین اپنے فارغ اوقات جبکہ ملازمت پیشہ خواتین وقت نکال کر اس کا مطالعہ کرتی تھیں۔ کہانیوں اور ناولوں کے ڈائجسٹوں کے ساتھ ساتھ کھانا پکانے کی تراکیب سے متعلق رسالے بھی خواتین میں  اتنہائی مقبول تھے۔  بہت سی خواتین  نے کھانا پکانا ان رسائل کی مدد سے سیکھا ہے مگر وقت بدلا ۔ ٹیکنالوجی کا سیلاب سب کچھ بہا لے گیا ۔ اب موبائل کی اسکرین کو  ٹچ کرنے والی خواتین کو اتنی فرصت کہاں ہے کہ وہ رسائل میں اپنا سر کھپائیں ؟  انہیںاب بھی کہانیوں سے دلچسپی ہے ، کھانے کی ترکیب کی انہیں اب بھی ضرورت ہے مگر اب  وہ  یہ کہانیاں ڈرامے اور سیریل کی شکل میں دیکھ رہی ہے۔ جیتی جاگتی تصویریں دیکھ رہی ہیں۔ کھانے کی ترکیب یو ٹیوب سے سیکھ رہی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہاں سب کچھ عملی طور پرہورہا ہے۔  ان سب کے  دوران لکھنے  پڑھنے کا رجحان کم ہونےلگا ہے ۔ خوش آئند پہلو یہ ہے کہ لا ک ڈاؤ  ن میں خواتین کے بہت سے رسائل اور ڈائجسٹ پی ڈی ایف کی شکل میں وہاٹس ایپ پر فارورڈ ہونے لگے  ہیں۔یہ دیکھ کر لگ رہا ہے کہ مطالعہ کا رحجان ایک بار پھر پر وان چڑھے گا۔ خاتون قلمکار بھی محنت سے لکھیں گی ۔   
 ماہانہ رسائل کی بہت سی خاتون اہل قلم نے خواتین کے ذوق مطالعہ کی آبیاری کے ساتھ ان کی فکری تربیت میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ بہت سی خاتون قلمکار ایسی بھی تھیں جن کی تعلیم واجبی تھی مگر ان کی لکھی ہوئی کہانیاں خواتین بہت شوق و ذوق کے ساتھ پڑھتی تھیں۔ اس زمانے میں گنتی کے رسائل زندہ ہیں جس میں کچھ خواتین لکھ رہی ہیں۔ 
 دوسری طرح کچھ خواتین سوشل میڈیا پر  دھوم مچاررہی ہیں۔   ایک اچھی بات  یہ ہے  کہ آج بے شمار چینلز کی موجودگی میں بھی ان کی تحریریں پڑھی جارہی ہیں۔ ان  کے ذریعہ کچھ خواتین میں آج بھی مطالعہ کی عادت زندہ ہے لیکن سوشل میڈیا کی اکثر   قلمکاروںمیں پختگی نہیں ہوتی، کیونکہ رسائل کی طرح ان کی تحریروں میں کاٹ چھانٹ نہیں ہوتی۔ وہ لکھتے ہی  اسےپوسٹ کردیتی ہیں۔ خو د بھی نظر ثانی نہیں کرتیں جس کا قاری پر منفی اثر ہوسکتا ہے۔  ایسے میں خواتین قلم کاروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے قارئین کی ذہنی سطح کے مطابق لکھیں، تاکہ انہیں صحیح اور غلط کے  انتخاب میں دشواری نہ ہو۔ دوسری طرف خواتین کوبھی چاہئے کہ وہ اپنے لئے ایسی تحریروں کا انتخاب کریں جو محض زبان کا چٹخارہ نہ ہوں۔ اگر آپ یہ سمجھتی ہیں کہ کوئی تحریر آپ پر برا اثر نہیں چھوڑ رہی ہے تب بھی دھیان دیں ،ہو سکتا ہےکہ دیگر خواتین اور بچیاں جنہیں آپ نے فارورڈ کیا ہے،  وہ اس کے منفی اثرات کی زد میں آجائیں، اس لئے لاک ڈاؤ میں آپ  ایسی صحتمند تحریروں  کے انتخاب کی عادت ڈالیں جن سے سوچ و فکر کے نئے در وا ہوں۔ محض  وقت گزاری نہ ہو بلکہ آپ کو کچھ حاصل ہو، ایسا نہ ہو کہ ان  کے ذریعے آپ زمینی حقائق سے دور ہو کر محض افسانوی دنیا میں مگن رہنے لگیں جہاں خواہشات کا سلسلہ ہی ختم نہیں ہوتا اور بعض اوقات نہایت تلخ تجربات ہوتےہیں۔
 اس بات سے قطعاً انکار نہیں ہے کہ بعض افسانے واقعی افسانوی  ہی ہوتے ہیں جن کا حقیقت سے دور دور تک تعلق نہیں ہوتا۔ ایسے افسانے آپ فکشن سمجھ کر محض اپنے ذہن اور طبیعت کو تازہ کرنے کی غرض سے پڑھئے، کیونکہ کبھی کبھی زندگی کے تلخ حقائق  کاسامنے کرنے کے بعد ہمارا دل خود چاہتا ہے کہ کچھ وقت کیلئے خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں چلے جائیں۔
  سوشل میڈیا کی قلمکاروں کو اس کا علم ہے کہ  خواتین کے رسائل  میں چھپنے والی کہانیاں ہمارے معاشرے  ہی کے کسی مسئلے پر لکھی گئی ہوتی  تھیں جن کا مقصد اصلاح اور نصیحت ہوتا  تھا۔  ہمارے ہاں چوں کہ تعلیم کا تناسب بہت کم ہے۔ خواتین کی اکثریت کم پڑھی لکھی  اور زمانے کی اونچ نیچ  سے متعلق  محدود سوچ رکھتی ہے، اس لئے یہ رسائل ان کی تعلیم اور تربیت کا ایک بہترین  ذریعہ  تھے۔ آج خاتون قلمکار بھی اپنی تحریر کو اس مقصد کیلئے استعمال کرسکتی ہیں۔
    اسی طرح قاری کی بھی کچھ ذمہ داری ہے جس طرح ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں، مثبت اور منفی، بالکل اسی طرح سوشل میڈیا کی تحریروں  کے بھی مثبت اور منفی پہلو  ہیں، یہ  آپ پر منحصر  ہے کہ آپ کس  کا انتخاب کرتی ہیں؟ درست سمت کیلئے  صاف ستھرا ادب پڑھنا چاہئے۔ بہر حال لا ک ڈاؤن میں آپ کو رسائل کے پی ڈی ایف مل جائیں توانہیں پڑھئے ، مطالعہ کی عادت ڈالئے۔  ویب پورٹل اور سوشل میڈیا پر پڑھنے کیلئے بہت کچھ ہے، کسی بھی صورت میں پڑھتے رہئے کیونکہ ہم مطالعہ سے بہت سی چیزوں سے آگاہی حاصل کر لیتے ہیں۔ زندگی کے بہت سے پہلوئوں سے واقف ہو جاتے ہیں۔ بہت سے مسائل کے حل  تلاش کرلیتے  ہیں۔ گویا ذہن اندھیرے سے نکل کر روشنی میں چلا آتاہے۔ وہ باتیں، معلومات اور زندگی کی سچائیاں  اور تلخیاں جو ہم نہیں جانتے وہ مطالعے کے ذریعے بخوبی جان لیتے ہیں اور اسی مطالعے کی بدولت ہم زندگی کے فلسفے کو سمجھ کر ان سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ کہانیاں محض خیالی بیان نہیںہیں، دراصل حقیقی زندگیوں کی تلخیاں اور صعوبتوں کے رنگ ان میں جھلکتے  ہیں۔ کہنےکا مطلب  یہ ہے کہ آپ ٹیکنالوجی کےساتھ چلئے ، سیریل اور ڈراما  دیکھئے مگر اس لاک ڈاؤ ن میں کچھ وقت مطالعہ کیلئے بھی نکالئے  ۔ اس دوران  یہ کوشش ہونی چاہئے کہ بامقصد اصلاحی اور صحت مند تفریحی ادب کا مطالعہ کریں تاکہ  خیالات  میں وسعت آئے۔ گفتگو کیلئے ذخیرہ ٔالفاظ مل جائے۔  یاد رکھئے کہ پڑھا ہو اذہن پر نقش ہوتا ہے مگر دیکھا ہو ا بہت دنوں تک ذہن میں نہیں رہتا  ۔ ایک منظر دوسرے منظر کودھندلا کردیتا ہے مگر کوئی لفظ کسی لفظ کو نگلتا نہیں ہے بلکہ گفتگوکو خوبصورت بناتا ہے اور بولنے کا سلیقہ  سکھاتا ہے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK