Inquilab Logo

وہ طلبہ جن کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہوا، ان کیلئے فاصلاتی نظام تعلیم سنہری موقع ہے

Updated: March 11, 2021, 12:50 PM IST | Shaikh Akhlaque Ahmed

کوپرکھیرنے ، نوی ممبئی کی رہنے والی رضوی رخسار فاطمہ نے گزشتہ دنوں یونیورسٹی امتحان میں  مہاراشٹر سطح پر اردو میڈیم کا پرچم بلند کیا ہے۔

Rizvi Rukhsar Fatima with family
رضوی رخسار فاطمہ اپنےاہل خانہ کے ساتھ

 کوپرکھیرنے ، نوی ممبئی کی رہنے والی رضوی رخسار فاطمہ نے گزشتہ دنوں یونیورسٹی امتحان میں  مہاراشٹر سطح پر اردو میڈیم کا پرچم بلند کیا ہے۔  انجمن اسلام الانا جونیئر کالج کرلا کے یشونت راؤ چوہان اوپن یونیورسٹی اسٹڈی سینٹر کی طالبہ سید رخسار فاطمہ سعید احمد نے بیچلر آف کامرس (فاصلاتی نظامِ تعلیم) سے پوری ریاست میں  ٹاپ کیا ہے ۔یشونت راؤ چوہان اوپن یونیورسٹی کے ورچوئل آن لائن کانووکیشن  میں رخسار فاطمہ کو گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔
سوال: رخسار آپ نے  ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی اور تعلیمی سفر کیسا رہا؟
رخسارفاطمہ:جی  میں نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز المهندی اردو پرائمری اسکول گوونڈی سے کیا ، یہاں سے دسویں کا امتحان ۲۰۱۶ء میں ۶۰؍ فی صد نمبرات سے کامیاب کیا۔ بعد ازیں  جعفری انگلش میڈیم کامرس جونیئر کالج گوونڈی  کا رخ کیا اور بارہویں کامرس کا امتحان۶۰؍ فی صد نمبرات سے کامیاب کیا۔ کئی وجوہات کے علاوہ والدہ کی طبیعت کی خرابی کے باعث تعلیمی سلسلہ منقطع ہونے کی نوبت آگئی  لیکن علم حاصل کرنے کی جستجو اور شوق نے مجھے فاصلاتی نظامِ تعلیم کی طرف راغب کیا۔  یوں میں نے انجمن الاسلام الانا جونیئر کالج میں جاری یشونت راؤ چوہان اوپن یونیورسٹی کے مرکز میں داخلہ لیاتھا۔
سوال: بی کام کی پڑھائی کے نظام الاوقات کیسے متعین کئے تھے؟
رخسارفاطمہ: گھر میں والدہ کی طبیعت اور بھائیوں کے بڑے ہونے کے بعد گھر میں میرا نمبر تھا اس لئے گھر کی تمام ذمہ داریوں کو نپٹانے کے بعد میں روزانہ کسی نہ کسی طرح وقت نکال کر کم از کم ۳؍ سے ۴؍گھنٹے پڑھائی کرتی تھی۔ میں نے سال اول سے لے کر فائنل ایئر تک پڑھائی پر بھرپور توجہ دی۔ الحمدللہ یوں ہر سال میرا رینک اچھا رہا  اور اب فائنل ایئرمیںاسٹیٹ ٹاپر بنی۔  میرا رزلٹ ۷۵؍ فی صد رہا۔
سوال: اپنی فیملی سے متعلق عرض کریں؟
رخسارفاطمہ:میرے والد سید سعید احمد رضوی، پیشہ سے حکیم ہیں، وہ یونانی دوائیوں سے لوگوں کا علاج کرتے ہیں۔ میری والدہ خاتون خانہ ہیں۔ مجھ سے  بڑے بھائی  ہیں ایک کمپنی ملازمت کرتے ہیں اور دوسرے رضوی بلڈر کے یہاں  سائٹ سپروائزر ہے،  ایک چھوٹا بھائی بارہویں جماعت میں زیرِ تعلیم ہے اور ایک چھوٹی بہن گیارہویں آرٹس کی طالبہ ہے۔ اللہ کا شکر ہے میرے والدین نے مجھے تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا  اور بھائیوں نے بھی میری حوصلہ افزائی کی۔ہم پہلے گوونڈی میں رہائش پزیر تھے لیکن بعد میں واشی کوپر کھیرنے  آگئے ۔   اس کے باوجود میں  کالج میں لیکچر اٹینڈ کرنے آتی تھی۔ میرے اساتذہ اور کوآرڈینٹر کاظم اختر سر نے میری کافی رہنمائی کی۔ میں خاص طور سے انجمن اسلام انتظامیہ کی شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھ جیسی طالبہ کے لئے فاصلاتی نظامِ تعلیم کا انتظام کیا۔
سوال: اپنے ہم عمروں اور طلبہ کے لئے آپ کوئی پیغام، مشورہ دینا چاہیں گی؟ 
رخسارفاطمہ:جی سر ایسے تمام طلبہ جن کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہوا ہے ان کے لئے حصول علم کی غرض سے فاصلاتی نظامِ تعلیم ایک بہت اچھا ذریعہ ہے۔  بہت ساری یونیورسٹیاں یہ موقع فراہم کر رہی ہیں جن میں آئیڈول ممبئی یونیورسٹی، مولانا آزاد یونیورسٹی اور یشونت راؤ چوہان اوپن یونیورسٹی قابلِ ذکر ہے۔ہر انسان کو زندگی میں ایک موقع ملتا ہے ۔ اگر میں بھی امور خانہ داری میں مصروف رہتی اور بقیہ ماندہ وقت کو ضائع کرتی تو آج اس انٹرویو کا موقع نہ ملتا نہ ہی میری زندگی بدلتی۔ میں بہت خوش ہوں میں نے اپنی قوم کا اور اپنے والدین کا نام روشن کیا ہے۔ وہ تمام بچے جن کی تعلیم کسی وجہ سے چھوٹ گئی ہے وہ دوبارہ اسے جاری رکھ سکتے ہیں جیسا میں نے کر دکھایا۔
سوال: آپ کو رزلٹ کا علم کب اور کیسے ہوا اور ڈگری کب تفویض کی گئی؟
رخسارفاطمہ:۲؍مارچ کو یونیورسٹی کی جانب سے آن لائن ورچوئل کانووکیشن پروگرام کا انعقاد ہوا تھا۔ جس میں ریاستِ مہاراشٹر کے گورنر بھرت سنگھ کوشیاري  اور وزیر تعلیم اودئے سامنت اور یونیورسٹی کے چانسلر و دیگر معزز مہمانان  نے آن لائن اور ذاتی طور سے شرکت کی تھی اسی میں یہ اعلان بھی کیا گیا۔ ساتھ ہی مجھے اس سےایک ہفتہ قبل وائی سی ایم یو  ناسک ہیڈکوارٹر  بلایا گیا تھا۔ جہاں  میراویڈیو  انٹرویو بھی لیا گیا تھا اور علامتی طور پر مجھے گولڈ میڈل سے نوازا بھی گیا تھا۔
 اس خصوصی بات چیت کےآخر میں رخسار فاطمہ نے یہ بھی کہا کہ ’’میری تمام والدین سے درخواست ہے کہ وہ اپنی بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔ میں لڑکیوں سے بھی گزارش کرنا چاہوں گی کہ آپ کا تعلیم حاصل کرنے کا مقصد صرف اور صرف حصول روزگار اور اپنے پیروں پر کھڑے رہنے تک ہی محدود نہ رہے بلکہ وہ تعلیم یافتہ خاندان اور سماج کے ساتھ ساتھ اصلاحِ معاشرہ کا موجب بھی بنے۔‘‘
 وہ آگے کہتی ہیں کہ’’ میں نے گوونڈی جسے  پسماندہ علاقہ سمجھا جاتا  ہے، میں رہ کر اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا وہیں سے بارہویںکا امتحان کامیاب کیااور پھر وہیں رہ کر میرے من میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خواہش پیدا ہوئی۔ الحمدللہ اب حالات بدلے ہیں مجھے بہت خوشی محسوس ہورہی ہے کہ اس علاقہ کے طلبہ بھی اب اعلیٰ اور معیاری تعلیمی اداروں میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔  میرا رشتہ بھی طے پا چکا ہیں میرے سسرالی رشتہ دار اور خاص طور سے میرے خسر دانش زیدی صاحب جو خود بھی اسکول میں پرنسپل ہیں نے میرا کافی حوصلہ بڑھایااور سبھی میری اس کامیابی پر بہت خوش ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK