Inquilab Logo

پرفیکٹ بننے کی کوشش نہ کریں بلکہ بہتر بنیں

Updated: June 04, 2020, 1:38 PM IST | Geeta Sharma

ہم سبھی دنیا میں اپنی ’یونیک پرسنالٹی‘ کے ساتھ آتے ہیں، ہم میں لاکھ کمی ہو لیکن کچھ خوبیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو کسی اور میں نہیں۔ اپنی ان خوبیوں پر کام کریں، انہیں پہچانیں اور خود کو کسی سے کمتر ہرگز نہ سمجھیں۔ اپنے آپ کو قبول کریں اور اپنی عزت خود کرنا سیکھیں

Women - Pic : INN
خاتون : تصویر آئی این این

جب ہم اپنی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ اپنی حد اور کمزوریوں کو بھی اچھی طرح سمجھ اور پرکھ لیتے ہیں تو ہم اپنے سر سے بہت بڑا بوجھ ہلکا کر لیتے ہیں اور یہ بوجھ ہوتا ہے ’پرفیکشن‘ کا۔ اس بوجھ کو ہٹانا بہت ضروری ہے تاکہ ہم خود کو ویسے ہی قبول کریں جیسے ہم ہیں اور کھل کر سانس لے سکیں، جی سکیں مگر یہ ’پرفیکشن‘ کا بوجھ آخر آتا کہاں سے ہے؟
بچپن کی سیکھ
 بچپن سے ہم کو یہی سکھایا جاتا ہے کہ ہر کام پرفیکٹ ہونا چاہئے، اچھے نمبر آنے چاہئے، اسپورٹس میں اور دیگر سرگرمیوں میں بھی بہتر کریں، سب سے اچھے سے پیش آئیں... وغیرہ۔ ہمیں کبھی بھی یہ نہیں سکھایا جاتا ہے کہ اپنی شخصیت کے ساتھ رہو، اسی کو نکھارو اور بہتر کرنے کی کوشش کرو۔ یہی وجہ ہے کہ ’پرفیکشن‘ کا بوجھ بچپن ہی سے ہم پر ڈال دیا جاتا ہے۔
ہر کسی پر ہے ’پرفیکشن‘ کا یہ بوجھ
 چاہے بیٹی ہو، بیٹا ہو، والدین ہوں یا میاں بیوی، ہر کوئی اسی بوجھ کو لے کر جیتا ہے۔ کہیں ذرا سی چوک ہوئی نہیں کہ یہی سننے میں آتا ہے کہ تم اچھے بیٹے/ بیٹی نہیں، اچھے میاں/ بیوی نہیں.... وغیرہ۔ اس وجہ سے ہم بہت سے ایسے کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ہماری قابلیت سے باہر ہیں۔ دوسروں کو خوش کرنے کے لئے اپنی خوشیوں کو بھول کر وہ سب کرجاتے ہیں جو ہم دراصل نہیں کرنا چاہتے۔ اس لئے اپنی عادت کو بدلیں۔
دوسروں کی امیدیں
 ہم اپنے لئے کم ہی جیتے ہیں، اکثر دوسروں کی اُمیدوں پر کھرا اترنے کی کوششوں میں ہی ہماری زندگی گزر جاتی ہے۔ دوسرے تو کبھی خوش نہیں ہوتے کیونکہ ان کی اُمیدیں ہم سے کچھ زیادہ ہی ہوتی ہیں۔ ہم بھلے ہی سارے کام ان کے من کے مطابق کر لیں لیکن اگر کہیں ذرا سی چوک ہوگئی تو اس پر سب کی نظر رہتی ہے۔ بہتر ہوگا کہ دوسروں کے مطابق اپنی زندگی نہ جئیں۔
اچھے گریٹس لانے کا بوجھ
 ہر بچے کی اپنی خوبی ہوتی ہے لیکن والدین یہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ انہیں لگتا ہے کہ اگر پڑوس میں شیخ صاحب کا بیٹا ۹۶؍ فیصد لایا ہے تو ہمارا بچہ ۸۰؍ فیصد پر کیوں ہے۔ یہاں وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کا بچہ دوڑ میں اول آیا ہے جبکہ شیخ صاحب کے بیٹے نے دوڑ میں حصہ ہی نہیں لیا۔ بہتر ہوگا کہ اپنے بچے کی قابلیت کو پہچانیں اور اس پر اس طرح کے پرفیکشن کا بوجھ نہ ڈالیں۔
پروفیشنل لیول پر بھی ہے یہ بوجھ
 دفتر میں بھی یہی اُمید کی جاتی ہے کہ کام پرفیکٹ ہو، غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن ہر کسی کی قابلیت الگ ہوتی ہے اور ملازم کو اور ایچ آر کو بھی چاہئے کہ وہ لوگوں کی قابلیت کی بنیاد پر کام کا بٹوارہ کرے تاکہ سبھی اپنا کام بہتر طریقے سے کرسکیں۔
بہتری کی جانب قدم بڑھائیں
ز اپنی قابلیت کو پہچانیں۔
ز ’پرفیکٹ‘ بننے کے بجائے ’بہتر‘ بننے کی کوشش کریں۔
ز ہر روز اپنا محاسبہ کریں۔ پورے دن کیا کیا ایک ڈائری میں لکھیں۔
ز کہاں کس کام میں کیا کمی رہ گئی، کہاں اچھا کرنے کی گنجائش ہے، کہاں سیکھنے کی ضرورت ہے... ان تمام باتوں کو سلسلے وار لکھیں۔ پھر ایک ایک کرکے ان پر کام کرنا شروع کریں۔
ز لیکن اپنی کمزوریوں اور حد کو بھی پہچانیں۔
ز خود جیسے ہیں ویسا قبول کرنے کی کوشش کریں اور اپنی شخصیت میں نکھارنے اور سنوارنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔
ز دوسروں کی طرح بننے کی کوشش نہ کریں جو آپ نہیں ہو وہ کیوں بننا چاہتے ہو؟
ز ہم سبھی دنیا میں اپنی ’یونیک پرسنالٹی‘ کے ساتھ آتے ہیں، ہم میں لاکھ کمی ہو لیکن کچھ خوبیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو کسی اور میں نہیں۔ اپنی ان خوبیوں پر کام کریں، انہیں پہچانیں اور خود کو کسی سے کمتر ہرگز نہ سمجھیں۔
پرفیکشن کا دباؤ تناؤ کی وجہ
ز پرفیکشن کا دباؤ سبھی پر ہے لیکن یہ دباؤ ذہنی تناؤ میں مبتلا کر دیتا ہے، یہ ہماری شخصیت، دل اور دماغ پر منفی اثر ڈالتا ہے۔
ز یہ صحت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے، آپ زیادہ پریشان رہنے لگتے ہیں۔ بہتر نتائج نہ آنے پر زیادہ غصہ آتا ہے۔
ز چڑچڑے پن میں اضافے کے سبب بلڈ پریشر، قلب امراض وغیرہ کا بھی خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ز خود کو دوسروں سے کمتر سمجھنے لگتے ہیں۔
خود کو قبول کریں
ز اپنی کمزوریوں کے بجائے اپنی خوبیوں پر توجہ دیں۔
ز اپنی قابلیت کو ایمانداری سے قبول کریں۔
ز اپنی کوشش جاری رکھیں۔
ز اپنی عزت کریں۔
ز کچھ اچھا کرنے پر خود کو انعام دیں۔
 یاد رکھیں پرفیکٹ نہیں، بہتر بنیں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK