ہم میں سے اکثر لوگ کبھی کبھی دوسروں کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب آپ کیلئے ’کنٹرول فریک‘ جیسے الفاظ کا استعمال ہونے لگے تو یہ تشویش کا باعث ہے کیونکہ یہ الفاظ اکثر ایسے افراد کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں جن کے اندر لوگوں اور صورتحال پر قابو پانے کی شدید خواہش ہوتی ہے۔
دوسروں کو کنٹرول کرنے کی خواہش ذہنی تناؤ کا سبب بن سکتی ہے۔ تصویر : آئی این این
ہم میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی ایسے شخص سے ضرور واقف ہوتا ہے جو ’کنٹرول فریک‘ یعنی قابو میں رکھنے کی چاہت میں مبتلا ہوتا ہے۔ شوہر، جو سوچتا ہے کہ آپ کیلئے صحیح چیزوں کے بارے میں صرف وہی جانتا ہے، آپ کی ماں، جنہیں گاڑی چلانا نہیں آتا، لیکن وہ پیچھے کی سیٹ پر بیٹھ کر آپ کو یہ سیکھاتی ہیں کہ کیسے گاڑی چلانی چاہئے، وہ باس جو ہر بات میں بال کی کھال نکال کر چیزوں کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے اور مزیدار بات یہ ہے کہ کئی لوگ آپ کو بھی ’کنٹرول فریک‘ کہتے ہیں، خاص طور پر تب، جب آپ کا طے شدہ معمول بگڑنے لگتا ہے۔
ہم میں سے اکثر لوگ کبھی کبھی دوسروں کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب آپ کے لئے ’کنٹرول فریک‘ جیسے الفاظ کا استعمال ہونے لگے تو یہ تشویش کا باعث ہے کیونکہ یہ الفاظ اکثر ایسے افراد کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں جن کے اندر لوگوں اور صورتحال پر قابو پانے کی شدید خواہش ہوتی ہے۔
ایسے لوگ ضرورت سے زیادہ پرفیکشنسٹ چاہتے ہیں اور اس لئے صورتحال پر پورا کنٹرول چاہتے ہیں۔ او سی پی ڈی میں مبتلا افراد اگر چیزوں پر کنٹرول نہ رکھ پائیں تو اکثر بے چین، ذہنی تناؤ میں مبتلا اور ناخوش ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ دوسروں کو بھی تنقیدی نگاہوںسے دیکھتے ہیں۔ وہ پرفیکشنسٹ ہیں البتہ انہیں خود سے اور دوسروں سے بہت زیادہ اُمیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ تین اہم علامات، جن کا مشاہدہ کرکے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کسی شخص کو او سی پی ڈی نامی مرض ہے؛ پہلا سخت رویہ، دوسرا غمزدہ اور تیسرا تیکھا ردّعمل۔
اسے کنٹرول کیسے کریں؟
اگر آپ کو لگتا ہے کہ کنٹرول کی خواہش حد درجہ بڑھ رہی ہے تو فوراً ماہرین سے صلاح لیں۔ صرف اس لئے نہیں کہ اس سے آپ کے رشتوں میں دراڑ آرہی ہے، بلکہ اس لئے بھی کہ یہ آپ کے اندر ایک گہری بے چینی پیدا کرکے آپ کو چیزوں پر قابو پانے کیلئے آمادہ کررہا ہے۔ سیروٹونین نامی ہارمون کی سطح کم ہونے سے بھی او سی پی ڈی ہو سکتا ہے۔ ایسے بچے جو نامساعد حالات میں پروش پاتے ہیں، بے چین شخصیت کے مالک بن جاتے ہیں۔ وہ چیزوں پر کنٹرول چاہتے ہیں۔ اس کی وجہ جینیاتی بھی ہوسکتی ہیں۔ اس کے علاج کیلئے دواؤں کے ذریعے جسم میں سیروٹونین کی سطح کو بڑھایا جاتا ہے، گھر والوں کے تعاون اور نفسیاتی طریقوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو اس بات کا احساس دلایا جاتا ہے کہ پرفیکشنسٹ ہونا عام بات نہیں ہے، جبکہ غلطیاں کرنا عام بات ہے۔
’کنٹرول‘ کی عادت کو مندرجہ ذیل طریقوں سے قابو میں کی جاسکتی ہے
عزت نفس
دوسروں کو حد درجہ کنٹرول کی سوچ رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اپنے قریبی لوگوں اور دوستوں کو مشورہ نہ دیں تو شاید وہ انہیں پسند نہیں کریں گے یا نا اہل سمجھیں گے۔ مگر بیشتر کو یہ عادت پسند نہیں ہوتی کہ انہیں ہر بات سمجھائی جائے بلکہ ایسا رویہ انہیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ آپ انہیں قابو میں کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لہٰذا دوسروں کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر مشورہ نہ دیں۔
آپ ہمیشہ صحیح ہوں گے
دوسروں کو قابو میں رکھنے کی سوچ رکھنے والے ہمیشہ اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہٰذا اس سوچ سے باہر آیئے۔ آپ ہمیشہ صحیح نہیں ہوسکتے اور ہمیشہ دوسرے غلط نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا دوسروں کے خیالات کا احترام کریں اور سامنے والے کی بات کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو کسی بات کا جواب نہیں معلوم ہے تو اس پر غمزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، یہ بالکل عام بات ہے۔ یہ سبھی کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہر کسی کو ہر بات نہیں معلوم ہوتی۔
قبول کریں
دوسروں کو قابو میں رکھنے والی عادت کو بدلنا چاہتے ہیں تو آپ کو قبول کرنا سیکھنا ہوگا۔ آپ کو لوگوں اور آس پاس کی چیزوں کو دیکھنے کا نظریہ بدلنا ہوگا۔ آپ جیسا چاہتے ہیں ویسا ہی ہو، ممکن نہیں ہے لہٰذا جو جیسا ہے اسے قبول کریں، چاہے بات کام کی ہو یا گھر کی اور رشتوں کی۔
اپنی سوچ تبدیل کیجئے
آپ سب کچھ جانتے ہیں اور آپ ہر چیز میں مہارت رکھتے ہیں، اس سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ کوئی بھی پرفیکٹ نہیں ہوتا ہے۔ لہٰذا اپنے نظریے کو تبدیل کریں۔
تعاون حاصل کریں
قابو میں کرنے کی عادت سے نجات حاصل کرنے کے لئے دوسروں کا تعاون حاصل کریں۔ اکثر قابو میں کرنے والی شخصیت سمجھتی ہے کہ وہ جس انداز میں کام کرسکتی ہے اور کوئی نہیں کرسکتا، اس چکر میں وہ خود پر کام کا دباؤ ڈال لیتی ہے جبکہ دوسروں کی مدد حاصل کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ لہٰذا اس عادت کو تبدیل کیجئے۔