Inquilab Logo

مقابلہ جاتی امتحان میں ’ہارڈ ورک‘ کیساتھ ’اسمارٹ ورک‘ کی بھی ضرورت ہوتی ہے

Updated: May 18, 2022, 11:52 AM IST | Shaikh Akhlaque Ahmed | Mumbai

مہاراشٹر پبلک سروس کمیشن (ایم پی ایس سی ) امتحان ۲۰۲۰ء میں مسلم امیدواروں میں سرفہرست رہنے والے سانگلی کے ہونہار نوجوان عمران نائیکواڑی سےخصوصی بات چیت

 Imran Naikwadi. Picture:INN
عمران نائیکواڑی ۔ تصویر: آئی این این

مہاراشٹر پبلک سروس کمیشن (ایم پی ایس سی) کے اسٹیٹ سروس امتحان۲۰۲۰ء کے حتمی نتائج ۲۹؍اپریل کو ظاہر کئے گئے۔  جس میں۱۰؍ مسلم امیدوار فائنل لسٹ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔  ان میں عمران نائیکواڑی  سرفہرست رہے،  ان سے انقلاب کیلئے کی جانے والی خصوصی بات چیت کے اقتباس  ذیل میں پیش کئے جارہے ہیں۔ خیال رہے کہ کل ۱۰؍ کامیاب مسلم امیدواروں  میں سانگلی کے  نائیکواڑی عمران شفیق نے اول پوزیشن حاصل کی ہے۔  ’اوپٹ آؤٹ‘ کے عمل کے بعد کسی بھی ریاستی سرکاری محکمہ میں حتمی تقرری، پوسٹ کی دستیابی میرٹ اور دستیاب آپشن کے مطابق ہوگی۔
عمران نائیکواڑی کا تعلیمی سفر یوں شروع ہوا
 نائیکواڑی عمران کی ابتدائی تعلیم قصبہ مسوڑ کے کرم ویر بھاؤ راؤ پاٹل ہائی اسکول دہی وڑی تعلقہ میں ہوئی جہاں سے دسویں کا امتحان ۲۰۰۵ء میں ۸۵؍ فیصد نمبرات اور بارہویں سائنس کا امتحان۲۰۰۷ء میں۷۵؍ فیصد مارکس سے کامیاب کیا۔’ایم ایچ-سی ای ٹی ‘  داخلہ امتحان کی بنیاد پر ٹی کے آئی ای ٹی (تاتیا صاحب کورے انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کالج)  کے کمپیوٹر سائنس میں ہوا جہاں سے ۲۰۱۱ء میں ۶۴؍ فیصد مارکس سے امتحان کامیاب کیا۔ ۲۰۱۲ء  میں’سی ڈیک ‘پونے سے ۶؍ ماہ کا کمپیوٹر سافٹ وئیر کورس مکمل کرنے کے بعد مختلف کمپنیوں میں۴؍ سال تک ملازمت کی۔
مقابلہ جاتی امتحانات کا خیال کیسے آیا؟
  اس استفسار پر عمران نے بتایا کہ والد صاحب ’رئیت شکشن سنستھا‘ کے  تحت چلنے والے ایک جونیئر کالج میں ٹیچر تھے اور  انیمل سائنسز اینڈ ڈیری ٹیکنالوجی مضمون پڑھاتے  تھے۔ سرکاری ملازمت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے بعد اکثر ان کے شاگرد ملاقات و نیک خواہشات حاصل کرنے کے لئے گھر آیا کرتے تھے۔ بچپن سے میرے دل میں پولیس انسپکٹر بننے کی خواہش رہی ۔ ہوا یہ کہ میں نے انجینئرنگ کی تعلیم کے بعد ملازمت اختیار کرلی۔ لیکن اس دوران بھی مجھے کچھ کرگزرنے کا خیال ہمیشہ رہا۔   لہٰذا مختلف کمپنیوں میں ملازمت کے دوران میں نے بچپن سے دل میں دبی سرکاری ملازمت کی خواہش کو عملی جامع پہنانے کاتہیہ کیا اورتیاری شروع کردی۔ معلومات حاصل کرنے کے بعد علم ہوا کہ پولیس سب انسپکٹر کی پوسٹ گزیٹیڈ نہیں ہوتی اسلئے پی ایس آئی  بننے کے خواب کو چھوڑ کر میں نے ریاستی خدمات میں طبع آزمائی کا فیصلہ کیا۔
ایم پی ایس سی امتحان کیلئے جدوجہد کیسی رہی؟
 یہ پوچھے جانے پر عمران نائیکواڑی نے کہا کہ مقابلہ جاتی امتحانات کا سفر طویل اور صبر آزما ہوتا ہے۔ میرے ساتھ بھی کچھ یہی ہوا۔۲۰۱۶ء میں مجھے پہلی کوشش میںپری امتحان میں کامیابی ملی لیکن مینس امتحان صرف۷؍ نمبر کم ملنے سے ناکامی ہاتھ آئی۔۲۰۱۷ءکی دوسری کوشش میں پری اور مینس امتحان میں کامیابی ملی لیکن صرف ۲؍ مارکس کی کمی کی وجہ سے ’انٹرویو کریک‘  نہیں کر سکا۔۲۰۱۸ء میں پری میں کامیابی ملی لیکن ’ویکنسی‘ کم ہونے کی وجہ سے مینس امتحان میں ناکامی ہاتھ آئی۔۲۰۱۹ء  کے امتحان میں پری، مینس اور انٹرویو  میں کامیابی ملی لیکن رینک کم آنے کی وجہ سے پوسٹ نہیں مل پائی۔ اس وقت میں دل برداشتہ  ہوا لیکن قسمت کا فیصلہ سمجھ کر قبول کیا اور پوری محنت کے ساتھ۲۰۲۰ء کے امتحان کیلئے   دلجمعی سے پڑھائی شروع کردی۔  اب کی بار کووڈ وباء کی وجہ سے امتحانات موخر ہوگئے تھے ۔ میں نے اپنی محنت جاری رکھی ، ہمت نہیں ہاری امتحان دیا اور پری میں کامیابی ملی سخت لاک ڈاؤن کی وجہ سے آبائی وطن سانگلی واپس لوٹنا پڑا جہاں کھیتی کے کام کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی کرتا رہا۔ اور یوں  امتحان سر پر آگیا ہمت اور مکمل اعتماد کے ساتھ امتحان میں شرکت کی۔ مسلسل پڑھائی کی وجہ سے ’کانسپٹ کلیئر‘  ہوگئے تھے لیکن تھوڑا خوف اور پریشانی تھی ۔ بہرحال ، اللہ کا شکر ہے کہ مصمم ارادہ سے امتحان میں شرکت کی اور مینس کوالیفائی کرلیا، اس کے  بعد انٹرویو کی بھی خوب محنت کی اور الحمدللہ اس  بار میری محنت و ریاضت رنگ لائی ۔ ۲۹؍اپریل ۲۰۲۲ء  کو نتائج ظاہر ہوئے جس میں میرا رینک۲۳؍ واں رہا۔ عمران نے مزید کہا کہ چونکہ میرا رینک اچھا ہے، میں پُرامید ہوں کہ مجھے کلاس ون آفیسر کا عہدہ مل جائے گا۔ میں نے ’اوپٹ آؤٹ راؤنڈ‘ کے لئے درج ذیل پریفرنس کے چوائسیز کو پُر کیا ہے: ڈپٹی ڈائریکٹر آف انڈسٹریز، اسسٹنٹ کمشنر آف اسٹیٹ ایکسائز، ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو آفیسر ضلع پریشد، اسکیل ڈیولپمنٹ آفیسر اور آخر میں منترالیہ سیکشن آفیسر ۔
مقابلہ جاتی امتحانات کے امیدواروں کے لئے عمران نے یہ کہا
 میں مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کرنے والے طلبہ کو یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ یہ محنت اور مسلسل توجہ طلب امتحانات ہیں جس میں ’ہارڈ ورک‘ کے ساتھ ’اسمارٹ ورک‘ کی بھی ضرورت ہوتی ہے یہاں کسی شارٹ کٹ اور عدم دلچسپی کے لئے جگہ نہیں۔ محدود نشستیں اس پر ریزرویشن اور شرکت کرنے والے طلبہ کی تعداد لاکھوں میں اس وجہ سے مقابلہ بڑا سخت ہوتا ہے ۔ اسلئے اپنا نصب العین طئے کریں، وقت کی پابندی کو ملحوظ رکھیں، ہدف سے نہ ہٹیں، سستی اور کاہلی کو اپنے قریب نہ آنے دیں مستقل مزاجی کے ساتھ کئی کئی گھنٹے بار بار اعادہ کرتے جائیں ان شاء اللہ کامیابی ضرور ملے گی۔مسلم طلبہ میں ذہانت کی کمی نہیں صرف گائیڈنس کی کمی ہے،  مرکزی خدمات کے ساتھ ریاستی خدمات والے امتحانات پر بھی توجہ دیں یہاں مسلسل ’ویکینسی‘ نکلتی  رہتی ہیں اورکامیابی کے امکانات زیادہ ہیں ۔ عدم معلومات کے سبب ہماری شرکت ریاستی سروسیز میں بہت کم ہے۔ ملت کے بہی خواہان  ذمہ داران سے میری گزارش ہے کہ وہ ہر ضلع میں ایک مقابلہ جاتی امتحان کا مرکز قائم کریں۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ طلباء اس سے استفادہ کر سکے۔
  عمران نے آخر میں بتایا کہ ہمارا آبائی وطن سانگلی ضلع میں ہے لیکن والد صاحب کی ملازمت کی وجہ سے میری تعلیم ستارا میں ہوئی۔ والد کا نام شفیق عبدالمطلب  نائیکواڑی ہے انہوں نے داپولی یونیورسٹی سے بی ایس ایگریکلچر کی ڈگری حاصل کی اور وہ جونیئر کالج میں پڑھاتے ہیں۔ والدہ ریحانہ نائیکواڑی سبکدوش ٹیچر ہیں، وہ بھی ’رئیت شکشن سنستھا‘ کے  ایک اسکول میں ٹیچر تھی جہاں میتھس اور سائنس کی مضامین کی درس و تدریس کرتی تھی ۔ مجھ سے چھوٹا بھائی عرفان نائیکواڑی ہے جس نے بی ای کے بعد الیکٹرانکس میں ایم ٹیک کیا ہے فی الوقت وہ بوش کمپنی میں ملازمت کر رہا ہے۔ میری کامیابی میں والدین کی تربیت کا اہم رول رہا میں اپنے تمام استادوں، دوستوں اور رشتہ داروں کا مشکور ہوں جنھوں نے میری مسلسل رہنمائی کی اور مجھے حوصلہ دیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK