Inquilab Logo

ترقی کے نام پر ہم نے کئی اچھی روایات سے اپنا دامن چھڑا لیا ہے

Updated: June 02, 2022, 11:44 AM IST | Saima Shaikh | Mumbai

ماضی کو ذہن میں رکھ کر حال کا مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ہم کئی اچھی روایات سے انحراف ہوگئے ہیں۔ وقت کے ساتھ چلنا ضروری ہے مگر اچھی روایت کا دامن تھامے رکھنا بھی ضروری ہے۔ اس ضمن میں انقلاب نے چند خواتین سے بات چیت کی ہے

The joint family system was a good tradition that is declining.Picture:INN
مشترکہ خاندانی نظام ایک اچھی روایت تھی جس کا چلن کم ہوتا جا رہا ہے۔ تصویر: آئی این این

مشترکہ خاندان کی روایت
پہلے زمانے میں مشترکہ خاندان (جوائنٹ فیملی) ہوا کرتا تھا لیکن اب اس کی روایت نہیں رہی۔ اب یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ گھروں میں جگہ نہیں ہے جبکہ پہلے بھی گھر چھوٹے ہی ہوا کرتے تھے۔ اپنے اطراف کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مختصر خاندان یعنی نیوکلیئر فیملیز پریشان حال ہیں کیونکہ گھر میں افراد کم ہونے کے سبب ایک ہی فرد پر کئی ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں۔ مشترکہ خاندانی نظام میں گھر کے بزرگ بچّوں کی تربیت کا ذمہ اٹھاتے تھے۔ وہ انہیں اچھے اور برے کی تمیز سکھایا کرتے تھے۔ مشترکہ خاندان بزرگ والدین کی پناہ گاہ بھی کہلاتی ہے۔ بیمار والدین کی خدمت کا موقع بھی بچوں کو مل جایا کرتا تھا مگر مختصر خاندان کے چلن کے سبب کئی دشواریاں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مَیں سمجھتی ہوں کہ موجودہ دور میں مشترکہ خاندان کی روایت کو جلا بخشنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ایک بہتر معاشرہ تشکیل پا سکے۔
سیّد نوشاد بیگم، کلوا (تھانے)
بوڑھے والدین کو تنہا نہ چھوڑیں
وقت بڑی تیزی سے گزر رہا ہے۔ گزرتے دن کیساتھ ہماری روایتیں بھی تیزی سے تبدیل ہوتی جا رہی ہیں۔ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہم مغربی روایات کو اپنانے لگے ہیں۔ مثال کے طور پر اب بچوں کا والدین کے ساتھ رہنا معیوب سمجھا جانے لگا ہے۔ بیٹوں کی شادی ہوتے ہی وہ اپنے والدین سے علاحدہ ہو جاتے ہیں۔ یوں بوڑھے والدین کو تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس روایت کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ گزرے زمانے میں والدین بچّوں کے ساتھ وقت گزارا کرتے تھے۔ ان سے باتیں کیا کرتے تھے مگر اب ایسا کم کم ہی نظر آتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بچے اپنے رشتے داروں کے بارے میں لاتعلق رہتے ہیں۔ آج کل کے والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچّوں کے لئے وقت نکالیں اور ان سے باتیں کریں۔ اپنے رشتے داروں کے بارے میں انہیں بتائیں تاکہ آپ کے جانے کے بعد وہ خود کو تنہا نہ سمجھے۔
ثریا شرف، بدر باغ (ممبئی)
کوئی لوٹا دے مرے بیتے ہوئے دن
ہمیں پرانی روایتیں یاد آتی ہیں ضرورت ان کے احیاء کی ہے۔ مثلاً مشترکہ خاندان کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں۔ کاش اِس پُر آشوب دور میں اس کو ازسرِ نو رواج دیا جائے تو اس کے مفید نتائج برآمد ہوں گے۔ ایک دور تھا جب گھر کے بچے بالے بیرون ِ خانہ سرگرم عمل رہتے تھے۔ میدان میں بھاگ دوڑ کرتے تھے۔ موبائل نے انہیں ان سے دور کر دیا ہے۔ کاش پھر ہم اس پر عمل پیرا ہو جائیں۔ اس وقت ضروری ہے کہ سائیکل سواری کو ترجیح دی جائے۔ ان دنوں بچے اور نوجوان بہت جلد بائیک پر سواری کرنے لگتے ہیں۔ کم عمروں کا بائیک چلانا حادثے کا سبب بنتا ہے اور اس سے ماحول بھی متاثر ہوتا ہے نیز یہ صحت کے اعتبار سے بھی مناسب نہیں جبکہ سائیکل کا چلانا کارآمد بھی ہے اور بے خطر بھی۔ موجودہ دور میں گھر کے بنے دیسی گھی کے پراٹھے، کھچڑی اور گڑکی چائے کو رواج دینے کی ضرورت ہے۔ چائنیز فوڈ نے خانہ خراب کر دیا ہے۔
یاسمین رفیع انصاری، بھسار محلہ (بھیونڈی)
بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے محبت
ویسے تو ہر دور کی اپنی مخصوص روایات ہوتی ہیں اور روایات وقت کے ساتھ بدلتی بھی ہیں مگر انسان کا اندرون یعنی اس کی فطرت اور نفسیات کچھ نہ کچھ حد تک بڑھاتی رہتی ہیں۔ اس لئے روایات کو وقت کا پابند نہیں ہونا چاہئے بلکہ کچھ روایات ایسی ضرور ہوتی ہیں جن کی حیثیت مستقل ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ہماری خاندانی روایات جس میں بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے محبّت بہت بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’جو ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے اور ہمارے چھوٹوں سے محبّت نہ کرے وہ ہم میں نہیں۔‘‘ میں سمجھتی ہوں کہ آج اس حقیقت کو عمل میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے سماج میں  مطالعے کا ذوق و شوق کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ موجودہ زمانہ آڈیو ویژول کا زمانہ ہے لیکن چھپے ہوئے حرف کی بات کچھ اور ہوتی ہے۔  ویسے تو اور بہت سی روایات ہیں مگر مَیں نے یہاں صرف چند کا ذکر کیا ہے۔
بشریٰ عابدی، وکھرولی (ممبئی)
قصے کہانیوں سے بچّوں کو بہلانا
ایک زمانہ تھا جب گھروں میں بزرگ بچّوں کو قصے کہانیاں یا نظمیں سنا کر کھانا کھلایا کرتے تھے۔ لیکن آج کل جیسے ہی بچّوں کے سامنے کھانا رکھا جاتا تو فوراً انہیں موبائل فون تھما دیا جاتا ہے تاکہ وہ بغیر کسی ہنگامے کے کھانا کھا لیں۔ نہ صرف کھانے کے دوران بلکہ بچوں کو شرارت کرنے یا رونے سے روکنے کیلئے بھی موبائل فون پر ویڈیوز لگا کر دے دیا جاتا ہے۔ بچّوں کو قصے کہانیوں سے بہلانے کی ایک اچھی روایت اب باقی نہیں رہی۔ موجودہ دور کے والدین تھوڑی سی کوشش کرکے اس روایت کو اپنا سکتے ہیں۔ نئے دور میں نیوز پیپر پڑھنے کا چلن بھی بہت کم ہوگیا ہے۔ ہمارے زمانے میں سبھی گھروں میں اخبار آیا کرتا تھا اور گھر کا ہر فرد بڑے شوق سے اسے پڑھا کرتا تھا لیکن ترقی یافتہ زمانے نے اس اچھی روایت کو ہم سے چھین لیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی اچھی روایات ہیں جن سے ہم نے اپنا دامن چھڑا لیا ہے۔
مومن یاسمین امتیاز (بھیونڈی)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK